• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
محترم محمد فیاض بھلے انسان ہیں۔ بظاہر اطلاعات کے شعبے میں کار سرکار سے سروکار کہ جس کے بارے میں سوچتے ہی کچھ چوہدری محمد حسین اور میر نور احمد کا خیال آتا ہے مگر فیاض صاحب کا رکھ رکھاؤ پہلو داری سے خالی نہیں۔ ٹھہری ہوئی سطح کے نیچے تلاطم بھی ہے، جذبے کی حرارت بھی اور گاہے کسی خیال، کسی رائے سے وابستگی بھی لو دیتی ہے۔ چپکے سے پوچھنے لگے کہ ”وہ آپ نے اگلے روز کیا کہا تھا کہ معاشرے سے جادو ٹونہ ختم کرنا ہے اور عامل نجومی کی دکان بڑھانا ہے تو جمہوریت کا چلن عام کر دیں۔ اس پر کچھ حلقوں سے استفسار ہوا ہے اور کہیں کچھ ٹھٹھا بھی کہ سنیاسی باوا لوگ کے دھندے میں جمہوریت کو کیا دخل؟“
محمد فیاض، ہم اور آپ جھوٹے اور یہ لوگ سچے ہیں۔ جہاں پشتیں گزر گئیں، قرن بیت گئے، جمہوریت اور معاشرت کا رشتہ سمجھ میں نہیں آیا، وہاں یہ سوال بالکل روا ہے، عین جائز ہے۔ ہمیں بتایا ہی نہیں گیا کہ جمہوریت محض بندوبست حکومت کا نام نہیں، انسانوں کے مل جل کر رہنے کا ایک ڈھنگ ہے۔ جمہوریت کا پودا جڑ پکڑ لے تو جمہوری رویوں، قدروں اور روایات کی جھلک روز مرہ زندگی کے ہر شعبے پر اپنے اثرات مرتب کرتی ہے۔ جمہوریت کی اپنی ایک ثقافت ہے۔ جمہوریت میں تعلیم یافتہ ہو یا اَن پڑھ، امیر ہو یا غریب، شہریوں کے سوچنے سمجھنے کا ڈھب بدل جاتا ہے۔ لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ جمہوریت کو اس کے جملہ تقاضوں کے ساتھ ایک اجتماعی نصب العین کے طور پر اختیار کیا جائے۔ اب اس کا کیا کیا جائے کہ اس ملک میں ہم نے جمہوریت کے ساتھ وہی سلوک کیا جو دیہاتی مریض کے ساتھ نیم حکیم کرتے ہیں۔ ایک صاحب نے ہمارے لئے محدود جمہوریت کا نسخہ تجویزکیا۔ دوسرے عبقری ہمارے لئے بنیادی جمہوریت کا امتحانی پرچہ لئے نازل ہوئے۔ ایک اور بزرگ نے جمہوریت میں مشاورت کے اصول کی من مانی تعبیر دریافت کی۔ انہوں نے ایک مجلس شوریٰ مرتب کی تھی جس کی مشاورت کی پابندی اہل حکم پر لازم نہیں تھی۔ خیال رہے کہ یہ معاملہ کوئی تیس برس پرانا ہے۔ مشاورت کی یکسر مختلف آئینی تشریح کا انکشاف تو ہم پر ابھی حال ہی میں ہوا ہے۔ ایک اور خوش نوا مدبر تھے کہ نیو یارک وغیرہ کے اجتماعات میں اپنی آمریت کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے تھے کہ ’پاکستان میں جمہوریت موجود ہے۔ اگر کسی کو اس پر انتخابات کی مہر درکار ہے تو رواں سال کے آخر تک میں یہ مہر بھی لگا دوں گا‘۔ جب اس نوع کے مہر بند مہربان کسی زمیں پر اترتے ہیں تو وہاں کے باشندوں کی قسمت پر مہر لگ جاتی ہے۔
جادو، ٹونے ٹوٹکے اور عملیات کی جڑی بوٹیاں ان زمینوں میں برگ و بار پاتی ہیں جہاں مطلق العنانی کا سیم اور تھور پایا جاتا ہو۔ جمہوریت کے اپنے موٴکلات، حاضرات، جن اور پریاں ہیں جنھیں علم، ہنر، قانون اور ادارہ کہا جاتا ہے۔ جمہوریت میں تمام شہریوں پر قانون کا یکساں اور موٴثر اطلاق یقینی بنایا جاتا ہے۔ انصاف کی فراہمی میں وکیل کے منشی، جج کے ریڈر اور پولیس کے ٹاؤٹ کو دخل نہیں ہوتا۔ چنانچہ عدالت کے احاطوں میں ایسے نجومی اور عامل بھی نظر نہیں آتے جو مقدمے میں فریق مخالف کا منہ کالا ہونے کی خوش خبری دیتے ہیں اور نہ قیدیوں کے لواحقین اپنے پیاروں کی آزادی کی خواہش میں پرندے خرید کر آزاد کرتے ہیں۔ ابوالحسن نغمی نے لاہور کی یادیں بیان کرتے ہوئے ایک صاحب کا ذکر کیا ہے جو نصف صدی قبل شملہ پہاڑی کے آس پاس سڑکوں پر گھومتے پھرتے تھے اور وقفے وقفے سے صدا بلند کرتے تھے، ’ہائی کورٹ دے چھبی جلے پر انصاف کتے نئیں‘۔ (ہائی کورٹ کے دائرہ سماعت میں چھبیس اضلاع ہیں لیکن انصاف کہیں نہیں)۔ اگر وہ صاحب آج زندہ ہوتے تو جان لیتے کہ انکی شکایت کا کم از کم نصف ازالہ تو ہو چکا۔ پنجاب میں اضلاع کی تعداد اب اڑتیس ہے۔
جمہوریت میں تمام شہریوں کے لیے صحت، تعلیم، روزگار اور رہائش جیسی بنیادی ضرورتوں کی فراہمی کے علاوہ انسانی آزادیوں اور خوشیوں کوبھی یقینی بنایا جاتا ہے۔ خوشگوار بڑھاپے کی توقع موجود ہو تو مرد بڑھاپے کے مفروضہ سہارے یعنی اولاد کی تلاش میں الو کے مغز کا حلوہ نوش نہیں فرماتے اور خواتین قبرستانوں میں غسل نہیں فرماتیں۔ علاج معالجے کی سہولت میسر ہو تو مریضوں کو جھاڑ پھونک کی بجائے اسپتال لے جایا جاتا ہے۔ گھروں میں ماچس کی تیلیوں کی طرح تلے اوپر رہنے کی گھٹن نہ ہو، پیداواری اور تخلیقی سرگرمیوں کی گنجائش موجود ہو تو ساس، بہو اور نند کو گھر کے کونوں کھدروں میں سویاں پروئے گڈے نہیں ملتے اور نہ گھر کی دیواروں پر خون کے دھبے نظر آتے ہیں۔ شہریوں کو تعلیم ملتی ہے تو وہ یہ معمولی سی بات بھی سمجھ لیتے ہیں کہ مادی علت کے بغیر مادے میں تبدیلی رونما نہیں ہوتی۔ چنانچہ ہسٹیریا کی مریضہ کو مرچوں کی دھونی نہیں دی جاتی اور نوجوان ”محبوب آپ کے قدموں پر“ نامی تعویز کی تلاش میں سرگرداں نظر نہیں آتے۔
جمہوریت میں انتخابات کا ایک طریقہ کار طے ہے، انتخابات اپنے وقت پر ہوتے ہیں۔ حکومت ہو یا حزب اختلاف، دونوں کا بنیادی مقصد شہریوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانا ہوتا ہے۔ ہر چند سال کے وقفے کے بعد کوئی وردی پوش نجات دہندہ سیاست دانوں کا قبلہ درست کرنے نمودار نہیں ہوتا اور نہ صحافی اپنے کالموں میں جھولی پھیلا پھیلا کر ’منصف صاحب‘ سے ’حشر اٹھا دینے‘ کی التجائیں کرتے ہیں چنانچہ جمہوریت میں سیاسی رہنما کسی دھنکا پیر، بابا جھاڑو خان اور ڈبہ پیر کے آستانوں کا طواف کرتے نظر نہیں آتے۔ جمہوریت میں دانشور اور تعلیم یافتہ طبقے کا منصب معیشت کے اشاریے سمجھنا ہے، معاشرت کے خدوخال کا مطالعہ کرنا ہے اور اپنے علم کی روشنی میں قابل عمل پالیسیاں تجویز کرنا ہے۔ ڈاکٹر قلندر محمود، علامہ انتشار قریشی اور مولانا قارونِ لغت کی طرح نامعلوم بابوں اور گمنام صاحبان عرفان سے صلاح مشور ہ کرکے ریاست کے انہدام اور جمہوریت کے بولو رام کی بدخبریاں پھیلانا نہیں۔ گویا جمہوریت کی کشتی استوار ہو تو عاملوں، نجومیوں، دھاگہ فروشوں کی دکان بیٹھ جاتی ہے اور توہمات کی لٹیا ڈوب جاتی ہے۔
تازہ ترین