• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ صرف کشمیریوں کی نہیں پاکستان کی جنگ ہے، دفاعی تجزیہ کار

یہ صرف کشمیریوں کی نہیں پاکستان کی جنگ ہے، دفاعی تجزیہ کار 


کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیو کے پروگرام ’’جرگہ‘‘ میں میزبان سلیم صافی سے گفتگو کرتے ہوئے دفاعی تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ کشمیر میں تین اسٹیک ہولڈرز ہیں پاکستان ، ریاست جموع کشمیر کے لوگ اور انڈیا اگر دو اسٹیک ہولڈر حالت ِ جنگ میں جاچکے ہیں تو تیسرا فریق کیسے کہتا ہے جنگ آپشن نہیں ہے،میں بڑے افسوس سے یہ کہتا ہوں کشمیر کے ایشو کوہم نے اہمیت نہیں دی ڈپلومیسی میں جتنے آپشنز تھے ان سب کو استعمال نہیں کیا گیا، یہ صرف کشمیریوں کی جنگ نہیں ہے پاکستان کی جنگ ہے،پروگرام میں دفاعی تجزیہ کار خالد نعیم لودھی،دفاعی تجزیہ کار جنرل (ر) امجد شعیب،دفاعی تجزیہ کار میجر جنرل (ر) اعجاز اعوان نے اظہار خیال کیا۔دفاعی تجزیہ کار خالد نعیم لودھی نے کہا کہ جب بھی کوئی قوم اپنا انٹرسٹ پرسو کرتی ہے اس کے لیے وہ تمام ممکنہ استعداد استعمال کرتی ہے جنگ بھی اس میں شامل ہے جب دو نیوکلیئر پاور آمنے سامنے ہوں تو شاید کھلی جنگ آج کل کہیں نہیں ہے امریکہ میں جو جنگیں ہوئی ہیں حال میں جو شام میں جنگ لڑی ہے یمن میں ہوئی افغانستان میں ہوئی ہے اس نوعیت میں کیا کچھ نہیں تھا میڈیا کا کیا کردار تھا کیسے سیاسی طور پر انہوں نے ایک دوسرے کو انڈر مائن کیا کیسے انہوں نے گروہ بنائے ہوئے تھے جو ایک دوسرے کو اوپر چڑھاتے تھے یہ النصرا ، تحریک طالبان پاکستان یہ کیا چیزیں ہیں کس نے بنائی اور کس مقصد کے لیے بنائی ہیں اگر کوئی یہ سمجھتا ہے جنگ آپشن نہیں ہیں تو اسے جنگ کی تعریف کا نہیں پتہ آج کل کی جنگ میںٰ بہت چیزیں شامل ہیں اور جنگ ایک آپشن ہے اور جنگ میں بہت سی چیزیں ہیں۔ہائبرڈ وار جو ہم پر مسلط کی ہوئی ہے اس کا ہمیں حق بھی حاصل ہے اور ہم کر بھی سکتے ہیں۔بیٹل تو ممکن ہے جس میں دو تین کلو میٹر جا کر کوئی کام کر کے واپس آیا جاسکتا ہے میں اس چیز کا حامی ہوں۔دفاعی تجزیہ کار جنرل (ر) امجد شعیب نے کہا کہ جنگ کی بہت سے حصے ہیں جس میں کچھ چیزیں کر رہے ہیں اور یہ ضروری نہیں ہوتا ان کے بارے میں اعلان کیا جائے لیکن جو کھلی جنگ ہے اس میں تھوڑا سا ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے آپ ایک نیوکلیئر پاور ہیں لیکن یہ نہیں کہا جاتا کہ جنگ آپشن نہیں ہے یا ہم اپنے لیے استعمال نہیں کریں گے یا یہ ہماری ٹیبل پر نہیں ہے ۔ جب آپ یہ کہتے ہیں کہ جنگ آپشن نہیں ہے اس پر میرا خیال ہے کہ پالیسیز کے خلاف بات ہے جنگ آپشن کسی کی نہیں ہوتی لیکن جب جنگ کا ماحول پیدا ہوجاتا ہے تو آپ جنگ کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ڈپلومیسی سے دنیا کو یہ بتایا جاتا ہے کہ اب ہمارے پاس سوائے جنگ کے کوئی آپشن نہیں رہا دنیا نے جو کرنا تھا کر لیا لیکن مسئلہ حل نہیں کرایا جب مسئلہ حل نہیں ہوا تو کسی بھی وقت حالات بگڑ کر جنگ کی طرف جاسکتے ہیں لہٰذا آپ یہ ڈپلومیسی ساتھ ساتھ کرتے رہتے ہیں کہ دنیا کو نظر آئے کہ آپ ذمہ دار ملک ہونے کی حیثیت سے تمام وہ کام کر رہے ہیں جو پرامن کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم کیوں اسمبلی کے فلور پر کہتے ہیں کہ کیا میں جنگ کروں اپوزیشن کی طرف سے بھی یہی کہا جاتا ہے کہ جنگ آپشن نہیں ہے۔دفاعی تجزیہ کار میجر جنرل (ر) اعجاز اعوان نے کہا کہ میرے خیال میں وزیراعظم گہری سوچ کے بعد یہ بات نہیں کرتے وہ کہہ دیتے ہیں جو ان کے ذہن میں ہوتا ہے کشمیر میں تین اسٹیک ہولڈرز ہیں پاکستان ، ریاست جموع کشمیر کے لوگ اور انڈیا اگر دو اسٹیک ہولڈر حالت ِ جنگ میں جاچکے ہیں تو تیسرا فریق کیسے کہتا ہے جنگ آپشن نہیں ہے۔ کیا تیسرا فریق کنارے پر بیٹھنا چاہتا ہے ۔پورا کشمیر ایک حل طلب معاملہ ہے چاہے وہ آزاد کشمیر ہو یا جموع کشمیر اس میں سے آدھے کشمیر میں بربریت ہو رہی ہے آدھا امن سے رہ رہا ہے ۔امجد شعیب نے مزید کہا کہ ہم نے تین جنگیں پہلے کشمیر پر لڑی ہیں اس میں آخری کارگل کی تھی اور کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوا ۔ کارگل کی جنگ میں برتری حاصل تھی ہارے اس لیے کہ ہم نے ڈپلومیٹک لیول پر کوئی گراؤنڈ تیار نہیں کی ہوئی تھی انٹرنیشنل دباؤ آیا ہمیں پیچھے ہٹنا پڑ گیا اس کا مطلب ہے ہمیں ڈپلومیٹک بیانیہ بھی تیار کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔

تازہ ترین