• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈکٹیٹر کے خلاف ایف آئی آرمیں انسدادِ دہشت گردی کی دفعہ کے اضافے کے بعد مجسٹریٹ نے 2 دِن کا ٹرانزٹ ریمانڈ دے دیا جس کے بعد اسے انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ ان 2 دنوں میں وہ چک شہزاد میں اپنے محل میں رہے گا جسے سب جیل قرار دیدیا گیاہے۔ کیا اسکے بعد بھی وہ ایسے عشرت کدے میں رہے گا یا اسے اصل جیل بھیج دیا جائے گا؟ ابھی یقین کے ساتھ کچھ کہنا مشکل ہے ۔ تاہم اڈیالہ کا امکان بھی مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ اگر سابق وزیر اعظم کو جیلوں میں بھیجا جا سکتا ہے تو ڈکٹیٹر میں کیا سرخاب کے پر لگے ہیں کہ وہ جدید سہولتوں سے آراستہ پیراستہ اس کے گھر میں رہے۔ اس کے اپنے ”ادارے“ کا پریشر؟ لیکن کہا جاتا ہے کہ وہ اس سارے معاملے سے لاتعلق ہو چکا ہے۔ آخر ڈکٹیٹرنے اپنے اقتدار کے لئے، خود اپنے ذی وقار ادارے کو بے وقار کرنے میں کیا کسر اٹھا رکھی تھی؟
جب یہ سطور رقم کی جارہی ہیں، ٹی وی سکرینوں پر مجسٹریٹ کی عدالت میں سابق ڈکٹیٹر کی پیشی کے مناظر دکھائے جا رہے ہیں۔ گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ سے ضمانت مسترد ہونے کے بعدوہ فرار ہو کر چک شہزاد والے گھر پہنچنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ ا س میں متعلقہ پولیس کی کوتاہی کا بھی عمل دخل تھا ، لیکن کیا پاکستان کے سابق صدر کے لئے زیبا نہ تھا کہ وہ کمرہ عدالت سے باہر خود کو ”رضاکارانہ“ گرفتاری کے لئے پیش کر دیتا؟ آخر اگلی صبح بھی تو اسے اس ذلت اور اذیت سے گزرنا پڑا۔ وہ جو بات بات پر ”میں کسی سے ڈرتا ورتا نہیں“ کا دعویٰ کرتا تھا۔ جو وردی کے ساتھ دونوں مُکّے لہرا کر اپنی بہادری کا مظاہرہ کرتا تھا، جمعہ کی صبح محافظوں کے پہرے میں یوں عدالت کی جانب جا رہا تھا کہ چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ اعصاب کی شکستگی چھپائے نہ چھپتی تھی۔ کمانڈو والی روایتی چستی اور پھرتی غائب تھی اور یوں لگتا تھا کہ پاوٴں منوں مٹی کے ہو گئے ہیں۔
ماہرین نفسیات کہتے ہیں، بات بات پر اپنی بہادری کے دعوے کرنے اور ” میں کسی سے ڈرتا نہیں“ کے اعلان کرنے والا اندر سے نہایت بزدل ہوتا ہے۔ اسی طرح ”میں جھوٹ نہیں بولتا“ کی تکرار بھی وہی کرتا ہے جس کے سچا ہونے کا لوگوں کو یقین نہ ہو (کیا آپ کا دھیان فرزند ِ لال حویلی کی طرف چلا گیا؟)
بات پاکستان کے چوتھے فوجی ڈکٹیٹر کی ہو رہی تھی۔ 12 اکتوبر 1999 کا فوجی اقدام اس لحاظ سے پاکستان کی تاریخ کا منفرد واقعہ تھا کہ یہ کسی ” عظیم تر قومی مفاد“ کے لئے نہیں (جیسا کہ گزشتہ تین مارشل لاوٴں کے حوالے سے دعوے کئے گئے) بلکہ ایک فوجی سربراہ نے محض اپنی ملازمت بچانے کے لئے لگایا۔ اس میں کلیدی کردار ادا کرنے والے جنرل عزیز اور جنرل محمود بھی کارگل کے حوالے سے اپنے خلاف کسی متوقع کارروائی سے خوف زدہ تھے۔ 12 اکتوبر کا اقدام اس لحاظ سے بھی منفرد تھا کہ اس کے نتیجے میں ایک برطرف آرمی چیف نے اپنے ادارے کو اپنے اقتدار کے لئے استعمال کیا اور نومبر 2007 تک آرمی چیف رہا۔ چیف جسٹس سعید الزمان صدیقی اپنے پانچ رفقا کے ساتھ ، پی سی او کے تحت حلف سے انکار پر رخصت ہوئے تو ارشاد حسن خان کی سپریم کورٹ نے 12 اکتوبر کے اقدام کو جائز قرار دیدیا۔ اکتوبر 2002 کی پارلیمنٹ نے بھی 17 ویں ترمیم کے ذریعے اسکی توثیق کر دی (انڈمنٹی دیدی)۔
9 مارچ 2007 کو چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری کے خلاف کاروائی کے بعد ( جسے جولائی میں سپریم کورٹ نے ناجائز قرار دیتے ہوئے چیف صاحب کی بحالی کا حکم جاری کر دیا) 3 نومبر کو اعلیٰ عدلیہ پر ایک اور وار بھی ڈکٹیٹر کے ذاتی مفاد کے لئے تھا کہ اسے وردی کے ساتھ اپنے صدارتی انتخاب کے غیر آئینی قرار پانے کے خدشہ تھا۔ جولائی 2009 کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے اسے غیر آئینی قرار دیدیا۔ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کا یہ پہلا واقعہ تھا کہ 18 فروری 2008 کو منتخب ہونے والی پارلیمینٹ نے اسے انڈمنٹی نہ دی۔ 18 فروری کے انتخابات میں شرکت کے لئے اے پی ڈی ایم کے اجلاس میں نواز شریف کی سب سے بڑی دلیل یہی تھی کہ ہم پارلیمینٹ میں نہیں ہوں گے تو مشرف کے 3 نومبر کے اقدام کو انڈمنٹی دیدی جائے گی۔ اس سے کسے انکار ہو گا کہ 3 نومبر کی ”ایمرجنسی پلس“ کی انڈمنٹی میں مسلم لیگ (ن) ہی مزاحم ہوئی اور پارلیمینٹ سے این آر او کی منظوری روکنے میں بھی مسلم لیگ (ن) نے بنیادی کردار ادا کیا۔ مشرف کے لئے انڈمنٹی کی پس پردہ کہانی کچھ دلچسپ پہلو رکھتی ہے۔ 18 فروری کے انتخابات کے بعد نواز شریف نے مشرف کے مواخذے پر اصرار شروع کیا۔ قمر زمان کائرہ کے بقول، میاں صاحب نے جنابِ زرداری کی جاتی امرا میں پہلی آمد پر بھی یہ مسئلہ اٹھایا۔ زرداری صاحب کا عذر تھا کہ اس کے لئے ”بڑی طاقت“ کی منظوری ضروری ہے۔ انہوں نے میاں صاحب سے کہا کہ اس منظوری میں وہ بھی اپنا حصہ ڈالیں، لیکن انہوں نے پاکستان کے داخلی معاملے میں غیر ملکی مداخلت قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ حالات کاجبر اور مسلم لیگ (ن) کے دباوٴ پر زرداری صاحب پارلیمینٹ کے ذریعے مشرف کے مواخذے پر آمادہ ہو گئے، جس کے بعد ڈکٹیٹر استعفے پر مجبور ہو گیا۔ اب میاں صاحب اس کے قومی جرائم پر اس کے خلاف کاروائی پر اصرار کر رہے تھے لیکن زرداری صاحب کا کہنا تھا کہ ”اسٹیک ہولڈرز“ کو کرائی گئی یقین دہانیوں نے ان کے ہاتھ باندھے ہوئے ہیں۔ دیگر جماعتوں کی قیادت کی موجودگی میں زرداری صاحب ڈکٹیٹر کو اجتماعی معافی (Blanket Pardon) کی بات کر رہے تھے۔ گارڈ آف آنر کے ساتھ ایوانِ اقتدار سے رخصت ہونے والا ڈکٹیٹر بالآخر ملک بھی چھوڑ گیا۔
تازہ ترین