• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں بنے سستے کورونا انجکشن مارکیٹ نہ ہوسکے، زاہد بختاوری

اسلام آباد (حنیف خالد)چیئرمین جوائنٹ ایکشن کمیٹی فارما انڈسٹری اینڈ ٹریڈ اور چیئرمین پاکستان کیمسٹس اینڈ ڈرگسٹس ایسوسی ایشن پنجاب زاہد بختاوری نے کہا ہے کہ پاکستان میں بنے سستے کورونا انجکشن مارکیٹ نہ ہوسکے،سستی معیاتی ادویات کیلئے ملٹی نیشنل فارماسوٹیکل کمپنیوں کے چنگل سے آزاد ہونا ہوگا، وزیر اعظم عمران خان فی الفور اس انسانی المیہ کے ذمہ داروں کیخلاف انکوائری کراکے ایکشن لیں،ہمسایہ ملک بھارت میں ادویات کی قیمتیں پاکستان کے مقابلے میں بیحد کم ہیں‘ معدے کے علاج کی دس گولیاں جو جونیجو دور میں پاکستان میں کم و بیش 130روپے کی دس گولیاں ملتی تھیں اسی زمانے میں بھارت میں 25روپے سے بھی کم میں مل رہی تھیں۔ یہ صورتحال دوسری ادویات کے نرخوں کی بھی ہے۔ زاہد بختاوری نے جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر پاکستان نے لائف سیونگ ڈرگز وغیرہ سستی مریضوں کو مہیا کرنی ہیں تو اس کیلئے سب سے پہلے پاکستان میں ہماری وزارت صحت کو خام مال فارماسوٹیکل کمپنیوں کو انڈسٹری لگانے کیلئے ضروری سہولتیں اور مراعات دینا ہونگی جیسا کہ انڈیا نے پچیس سال پہلے اسی انڈسٹری کو لگانے کیلئے مفت زمین دی‘ ٹیکس مراعات دیںاور فارما انڈسٹریز لگانے کیلئے انڈیا نے آسان شرح سود پر قرضے فراہم کئے۔ اسی وجہ سے بھارت کو آج ’’فارمیسی آف ورلڈ‘‘ کہا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کی فارماسوٹیکل انڈسٹری چین‘ امریکہ‘ یورپ‘ افریقہ‘ ایشیاء اور دوسرے براعظموں میں سب سے بڑی ہے اور اسکےمتعلقہ آلات و مشینری اور کیمیکلز انڈیا میں امریکہ‘ یورپ سے بھی سستے ہیں۔ انڈیا نے فارما انڈسٹری کو اپنی پانچ کلیدی برآمدی صنعتوں میں شامل کر رکھا ہے۔ پاکستان میں فارما انڈسٹری کو اگر پیکنگ انڈسٹری قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ یہ باہر سے گولیاں‘ کیپسول‘ انجکشن منگوا کر اپنے کارخانوں میں صرف پیکنگ ہی کرتے ہیں۔ پیکنگ میٹریل تک باہر سے ہماری فارما انڈسٹری درآمد کر رہی ہے جس کے نتیجے میں ہمارا درآمدی بل جسے مشیر تجارت عبدالرزاق دائود کم کرنے کے علمبردار ہیں وہ فارماسوٹیکل انڈسٹری کے درآمدی مواد کی بھینٹ چڑھ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات قابل تشویش ہے کہ بھارت کی ادویات کی برآمد 20بلین ڈالر تک پہنچ گئی ہے جبکہ پاکستان میں ادویات کی برآمد جو چار سال پہلے 400ملین ڈالر تھی آج کم ہو کر 150ملین ڈالر رہ گئی ہے۔ زاہد بختاوری نے کہا کہ ملٹی نیشنل فارماسوٹیکل کمپنیوں کو پاکستان میں لائف سیونگ ڈرگز بنانے سمیت تمام ضروری ادویات کی مینوفیکچرنگ کیلئے خصوصی مراعات دی جاتی ہیں اور انکی ادویات کی قیمتیں زیادہ مقرر کی جاتی ہیں جبکہ وہی ادویات اگر پاکستانی کمپنی بنائےتو DRAPاس کی بیحد کم قیمت مقرر کرتی ہے ۔ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے زاہد بختاوری نے کہا کہ نائن الیون کے بعد امریکہ اور یورپ نے پاکستان کو خطرناک ملکوں کی فہرست میں ڈال دیا ۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کثیرالقومی ادویات ساز کمپنیوں کی پاکستان میں زیرو سرمایہ کاری رہ گئی ہے۔ انہوں نے پاکستان میں اپنے اثاثہ جات فروخت کر دیئے اور وہ اپنی ٹریڈ مارک والی ادویات پاکستانی ادویات ساز کارخانوں سے تیار کرا کر مارکیٹ کر رہی ہیں۔ ایک چھت تلے جو ادویات فارن ادویات ساز کمپنی کے نام سے بنتی ہیں اسکی قیمت چار سو روپے رکھی جاتی ہے اور جو ادویات پاکستانی ادویات ساز ادارے نے اسی چھت تلے اسی فارمولے اور سالٹ کے ساتھ بنائیں اسکی قیمت ڈریپ ایک سو روپیہ مقرر کرتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ دنیا میں برٹش فارماکوپیا اور یوایس فارماکوپیا کے سٹینڈرڈ سے ادویات بنتی ہیں۔ پاکستان کے ادویات ساز ادارے بھی برٹش فارماکوپیا کے اسٹینڈرڈ پر ادویات بنا رہے ہیں مگر انکی پیداوار کی قیمت وزارت صحت کا ادارہ بیحد کم منظور کرتا ہے۔ انہوں نے یہ دلچسپ انکشاف کیا کہ برصغیر جنوبی ایشیاء میں پاکستانی ادویات کا سٹینڈرڈ سب سے اچھا ہے۔

تازہ ترین