• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
15 اپریل 2013ء کو امیر جماعت اسلامی سید منور حسن سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ گوادر کی بندرگاہ اور ایران سے گیس لینے کا معاملہ سیاسی تماشہ بازی ہے کہ وہ اسے الیکشن میں استعمال کریں گے اور بعد میں اس پر عمل نہیں کریں گے۔ جس پر میں نے کہا کہ گیس کا حصول پاکستان کی ضرورت ہے تو کیاعوام اس کے خلاف مزاحمت نہیں کریں گے کہ انہوں نے ایران سے معاہدہ کیوں توڑا؟ ان کا کہنا تھا کہ ممکن ہے عوام مزاحمت کریں مگر معلوم نہیں کہ وہ کامیاب بھی ہوں گے یا نہیں یا ممکن ہے کہ حکومت نے امریکیوں سے ساز باز کرلی ہو کہ وہ ہمیں چین کو بندرگاہ کا ٹھیکہ دینے اور ایران سے گیس کا معاہدہ کرنے دیں تاکہ ہم اسے الیکشن میں کامیابی کیلئے استعمال کریں اور کامیابی حاصل کر نے کے بعد اس کو ختم کردیں گے۔ سید منور حسن نے کہا کہ طالبان سے مذاکرات ہونا چاہئیں، اس لئے کہ وہ ایک حقیقت ہیں۔ میں نے کہا کہ وہ ہمارے ملک، ہمارے دستور اور ہماری عدالتوں کو نہیں مانتے، اُن سے مذاکرات کیسے ہوسکتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ اُنہی سے مذاکرات ہوتے ہیں جو ایک دوسرے سے متحارب ہوں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ وہ لوگ عوام کو کیوں مارتے ہیں ، اس پر انہوں نے کہا کہ اس صورت حال پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔ ا س سوال پر کہ بھارت مداخلت کررہا ہے تو انہوں نے کہا کہ طالبان نے کبھی پاکستان کے خلاف بات نہیں کی۔ میں نے کہا کہ وہ دستور نہیں مانتے تو پاکستان کے خلاف بات تو ہوگئی۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی کے منشور کی بات کریں تو وہ مدنی طرز کی ریاست کے قیام اور امریکہ کی غلامی سے نجات دلانے پر زور دیتا ہے اور ہمیں توقع ہے کہ عوام ہمیں ووٹ دیں گے۔
13 اپریل 2013ء کو 2 بجے ایم کیوایم کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار سے ملاقات ہوئی۔ ملاقات میں انہوں نے کہا کہ اُن کو مشکلات کا سامنا ہے اور ہم طالبان کی طرف سے حملوں کے دباوٴ کا شکار ہیں تاہم خوفزدہ نہیں البتہ وہ یہ بات ضرور کہیں گے کہ ہم کو دوسری پارٹیوں کے مقابلے میں میدان کم ہموار مل رہاہے باوجود اس کے ہم سندھ اور پاکستان سے بھی نشستیں جیتیں گے تاہم وہ یہ نہیں بتا سکتے کہ وہ کتنی زیادہ سیٹ حاصل کریں گے۔ اندرون سندھ سے بھی ان کو کامیابی کی اُمید ہے کتنی کامیابی ہوگی ابھی نہیں کہا جاسکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایم کیوایم کو الیکشن کیلئے 20 روز کافی ہیں۔ وہ اس عرصے میں اپنے آپ کو تیار کرلیں گے۔ انہوں نے کہا کہ فوج اور دیگر اداروں سے ہماری ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں مگر اب ہمیں خطرات محسوس ہونا شروع ہوگئے ہیں کیونکہ ہمارے یونٹوں پر حملے کئے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا وہ اقوام متحدہ میں شکایت لے کر نہیں گئے بلکہ ایسے ادارے میں گئے جو پاکستان کے الیکشن کو مانیٹر کررہا ہے وہ بھی اس لئے کہ ہماری نمائندگی کو کم کیا جارہا تھا۔ واضح رہے کہ جنید فہمی نامی ایک شحص نے حلقہ بندیوں کی تبدیلی کے حوالے سے 30 مارچ 2013ء کو اقوام متحدہ میں میمورنڈم یا رپورٹ پیش کی۔ جس میں انہوں نے نئی حلقہ بندیاں کرنے پر شدید اعتراض کیا کہ یہ عمل غیرقانونی اور غیرآئینی ہے، ہمارے خیال میں اس شکایت کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ پاکستان کی عدلیہ اور پاکستان کا الیکشن کمیشن تمام تر ذمہ داری کے ساتھ یہ کام کررہا ہے کہ انتخابات منصفانہ ہوں اور کسی کو اس پر اعتراض نہ ہو۔ یہ اندرونی معاملہ ہے اور اس کو پاکستان کے اندر ہی رکھنا چاہئے تھا، ایک خوشگوار بات یہ کہی گئی کہ ایم کیو ایم قائداعظم اور علامہ اقبال کا پاکستان بنانے کی جدوجہد کررہی ہے اور ان کے خواب کی تکمیل کی خواہاں ہے۔ پی پی پی کی حکومت نے کراچی و حیدرآباد میں بلدیاتی نظام بحال نہ کرکے ان علاقوں سے دشمنی کا مظاہرہ کیا۔
عمران خان نے 6 اپریل 2013ء کو ہوٹل میں صحافیوں کے اعزاز میں ظہرانہ دیا، جس میں انہوں نے الیکشن کے حوالے سے بریفنگ دی۔ میں نے اُن سے پوچھا کہ آپ کس تناسب سے نوجوان امیدوار کھڑے کررہے ہیں اور یہ کہ وہ کتنے غریب ہیں اور کتنے امیر ہیں؟ انہوں نے کہا کہ یہ تو ابھی طے نہیں کیا جاسکتا کہ اُن کا تناسب کیا ہے مگر نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد انتخاب میں حصہ لے رہی ہے بعدازاں انہوں نے اعلان کیا ہے کہ 35فیصد نوجوانوں کو ٹکٹ دئے گئے ہیں اور جو غریب ہیں اُن کے انتخابی اخراجات پورے کرنے کیلئے وہ ایک فنڈ قائم کررہے ہیں جس سے وہ انتخاب لڑیں گے۔ عمران خان بہت الجھے ہوئے نظر آئے کہ اُن کی پارٹی میں بہت کچھ ہورہا ہے جس کا انہیں علم نہیں۔ جسٹس وجیہہ الدین کی سربراہی میں پی ٹی آئی نے لوگوں کو جو ٹکٹ دیئے ہیں اس نے بہت سے اختلافات کو تو جنم دیا ہے اور ابھی سے پارٹی میں انتشار نظر آرہا ہے تاہم عمران خان کہتے ہیں کہ وہ پرامید ہیں کہ حکومت بنائیں گے۔ سونامی لائیں گے۔ سوال ہوا کہ جنرل پرویز مشرف کی آمد ہوگئی ہے مگر آپ کی طرف سے کوئی عمل ان کے خلاف نظر نہیں آتا، ان کا کہنا تھا کہ نوازشریف تک اس سلسلے میں خاموش ہیں۔ اس پر کئی صحافیوں کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف کے معاملے میں سب کو خاموش رہنے کی ہدایت مل چکی ہے کوئی ان کے بارے میں زبان نہیں کھولے گا جو ان سیاست دانوں کی بے بسی اور ان کی غیرملکی مداخلت کو قبول کرنے کے مترادف ہے۔
پاکستان اس وقت الیکشن کی تیاریوں میں لگا ہوا ہے اور اس میں غیرملکی مداخلت بھی بڑھ رہی ہے۔ تمام سفارت کارچوکس ہوگئے ہیں۔ دُنیا بھر سے ادارے، جاسوس، پاکستان آرہے ہیں تاکہ پاکستان کے الیکشن کا جائزہ لیں۔ حکومتی مشینری بھی زوروں پر ہے اور شفاف غیرجانبدار الیکشن کرانے کی تیاریوں میں لگے ہوئے ہیں۔ بلوچستان میں بھی قوم پرستوں نے الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کرلیا ہے اور وہ کھل کر سامنے آرہے ہیں۔ اختر مینگل، بگٹی اور دیگر جماعتیں میدان عمل میں ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم کافی حد تک کوشش کررہے ہیں کہ الیکشن وقت پر ہوں اور غیرجانبدار اور منصفانہ ہوں اور یہ کوشش کی جارہی ہے کہ جمہوری اقدار کی حمایت جاری رکھی جائے۔ پاکستان آرمی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔ اگرچہ وہ موجود رہے گی تاہم پولنگ اسٹیشن میں فوجی موجود نہیں ہوں گے کیونکہ اس طرح وہ آسانی سے ہدف بن سکتے ہیں۔ ہمارے خیال میں پاکستان کے سب اداروں کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ غیرجانبدارانہ الیکشن کرائیں تاکہ دُنیا بھر میں یہ تاثر قائم ہو کہ فوج اپنا کردار مثبت انداز میں ادا کررہی ہے۔فوج پچھلے پانچ سالوں سے اپنے دامن کو اقتدار سے بچا کر چل رہی ہے حالانکہ کئی مواقع ایسے آئے کہ وہ مداخلت کرسکتی تھی مگر اس نے گریز کیا اور اچھا کیا۔ اب وہ الیکشن میں اپنا حصہ اس طرح ڈالنا چاہتی ہے کہ اس پر کوئی الزام نہ لگے کہ کہیں اس نے جا نبداری دکھائی ہے تو وہ ایسا کرنے ک لئے کسی بھی عمل سے گریز نہ کرے۔
تازہ ترین