• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:شمیم ڈیوڈ ۔۔۔لندن
پاکستان کے سابق وفاقی وزیر برائے اقلیتی امور شہید شہباز بھٹی نے بڑی مثبت سوچ، کاوش، مخلص اعراض اور ارمانوں کے ساتھ 11 اگست کی تاریخ حکومت ِ وقت سے مذہبی اقلیتوں کیلئے مختص کروائی تھی اور تاریخی طور پر بھی یہ تاریخ مذہبی اقلیتوں کیلئے ایک اہم اور تاریخی حیثیت کی نشاندہی کرتی ہے۔ یہ وہ تاریخ تھی جب بانی پاکستان بابائے قوم قائد ِ اعظم محمد علی جناح نے قانون ساز اسمبلی میں مشہور شہرہ آفاق تقریر میں اقلیتوں کے برابر کا شہری ہونے اور مذہب کو ایک انفرادی معاملہ قرار دیا تھا۔ لہٰذا شہباز بھٹی سابق وزیر نے بابائے قوم کی مذہبی اقلیتوں کیلئے رواداری اور میل ملاپ کی اقدار کو مضبوط اور پاکستان کی تاریخ کا حصہ بنانے کیلئے یہ دن اقلیتوں کیلئے مخصوص کروایا جو اب مائینارٹی ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے تاکہ ملک میں بسنے والی مذہبی اقلیتوں کی ملک کی تعمیر و ترقی ، دفاع اور مختلف شعبہ ہائے زندگی میں ان کی خدمات اور کارکردگی کو سراہا جائے اور ملک میں مختلف مذاہب کے درمیان باہمی یگانگت ، اتحاد ، ہم آہنگی اور رواداری کی فضاء کو فروغ ملے۔ ایک دوسرے کیلئے پائے جانے والے شک و شبہات کی جگہ عزت و احترام اور اعتماد کا بول بالا ہو۔ یہ ایک قابل ِ تحسین کاوش و جذبہ ہے اور وطن ِ عزیز کو ایک پُرسکون ، خوبصورت اور لہلہاتا بازیچہ بنانے کیلئے ایک زینہ کا کردار ادا کرتا ہے۔ یہ ہر ایک محب الوطن پاکستانی کا خواب ہے کہ پاک سرزمین ایک ایسا گلستان ہو جس میں رنگا رنگ پھول ہوں، ہریالی و شادابی ہو اور خوش الہان مرغان ِ چمن اس کی چمن کی رونق کو دوبالا کر دیں۔ مگر افسوس کا مقام ہے کہ پاکستان میں اِس خواب کی تعمیر ممکن ہوتی نظر نہیں آرہی۔ زمینی حقائق ایسے خواب سے بالکل برعکس ہیں۔ غربت ، افلاس، مہنگائی، رشوت ستانی، کنبہ پروری، لاقانونیت، ناقص نظام ِ تعلیم و صحت عام شہری کی دسترس سے بعید انصاف ، نحیف معیشت اور کمزور طرز ِ حکمرانی یہ وہ مسائل ہیں جو ملک کو درپیش ہیں اور ہر پاکستانی ان سے با خبر ہے لیکن آج اگر ہم اقلیتوں کے مخصوص دن کے حوالہ سے مختص اقلیتوں کی صورتحال زیر غور رکھیں تو اِس حوالہ سے بھی حالات تشویشناک حد تک گراوٹ کا شکار ہیں اور ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ صورتحال بد سے بدتر ہوتی جار ہی ہے۔ تحریک ِ انصاف اور عمران خان سے مذہبی اقلیتوں کو ایک بہتر ز ند گی اور انصاف پر مبنی سلوک کے لیے بہت امیدیں وابستہ تھیں لیکن جب تحریک ِ انصاف نے اپنی کارکردگی دکھائی تو اقلیتیں انتہائی مایوسی کا شکار ہوئیں۔ مایوسی کی وجہ تحریک ِ انصاف کے 2 سالہ اقتدار کے دورانیہ میں ہونے والے وہ واقعات جن کا براہ ِ راست اقلیتوں سے تعلق ہے۔ تحریک ِ انصاف کا اقلیتوں پر عامیانہ اور ادنیٰ وار سابق چیف جسٹس جناب تصدق حسین جیلانی کے تاریخی فیصلہ کُن حکم جس میں انہوں نے حکومت کو اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے ایک کمیشن بنانے کا حکم صادر کیا۔ کافی عرصہ تک یہ حکم سرد خانہ میں پڑا رہا۔ تحریک انصاف کی حکومت نے اِس حکم پر عمل کرنے کیلئےشعیب سڈل کی سربراہی میں ایک کمیشن قائم کیا تاکہ وہ کمیشن کی تکمیل کیلئے حکومت کو اپنی سفارشات دیں۔ حکومت کو راتوں رات نامعلوم وجوہات کی بِناء پر کیامجبوری آڑے آئی کہ وزارت ِ مذہبی امور اور مذہبی ہم آہنگی کے وزیر نے اعلان کر دیا کہ حکومت نے اقلیتوں کا کمیشن بنا دیا ہے۔شعیب سڈل کی سفارشات کا انتظار کئے بغیر اور شعیب سڈل کو مکمل طور پر نظر انداز کر کے کمیشن کے ممبران اپنی مرضی سے چُن کر اقلیتوں پر ٹھونس دئیے گئے اور کمیشن کے ارکان کا تناسب بھی غیر تسلی بخش ہے۔ یعنی اس کمیشن کے 4مسلم، 2مسیحی، 2ہندو ، 1 پارسی اور 1سکھ ممبران ہوں گے۔ کیونکہ یہ کمیشن بغیر پارلیمنٹ میں پاس ہوئے تشکیل دیا گیا ہے چنانچہ اس کی کوئی قانونی حیثیت اور وزن بھی نہیں۔ اس غیر معیاری اور غیر پیشہ ورانہ طریقہ پر قائم کئے گئے کمیشن کے خلاف شعیب سڈل نے عدالت میں درخواست دے رکھی ہے۔ سابق چیف جسٹس جناب تصدق حسین جیلانی کے اس حکم کی تکمیل پر مذہبی اقلیتوں نے بہت سی امیدیں باندھ رکھی تھیں کہ اُن کو پاکستان میں برابر کے حقوق کو عملی زندگی میں یقینی بنایا جائے گا اور برابر کا شہری ہونے کے دعوے کی بِناء پر ملک میں عزت و احترام کی فضاء میں رہنے کا حق یقینی بنایا جائے گا۔ تحریک ِ انصاف کی حکومت نے عدالت کے اِس تاریخی حکم کو ناکارہ ، بے اثر اور مسخ کر کے ہمیشہ کیلئے دفن کر دیا ہے۔ یعنی سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ تحریک ِ انصاف کے دور ِ حکومت میں اُن کی پنجاب میں اتحادی جماعت نے تحفظ بنیاد ِ اسلام بل پا س کیا ہے تاکہ ایسی کتب پر پابندی لگائی جائے جن میں مذہبی طور پر نا مناسب الفاظ ہوں اور ڈی جی پی آر کو ایسی کتب ضبط کرنے کا اختیار ہو۔ ہم مکمل طورپراس بات کی حمایت کرتے ہیں کہ مذہب، انبیا اور مذہبی کتب کی بے حرمتی کسی طور پر قابل قبول نہیں لیکن اِس مقصد کے لئےپہلے سے ہی ملک میں ایسے قوانین موجود ہیں۔ مزید اس قسم کے قوانین سے ملک میں تنگ نظری اور انتہا پسندی بڑھے گی اور باہم مذاہب ، فرقوں اور مسالک میں ہم آہنگی ، رواداری کو ضرب لگے گی۔ معاشرہ میں پہلے سے ہی باہم شک و بے اعتمادی کی فضا ہے۔سوشل میڈیا کا بٹن دبا کر دیکھ لیں کہ کس قدر بد اعتمادی اور نفرت بھرے پیغامات پائے جاتے ہیں۔ یہ اِس نفرت ، تنگ نظری ، تعصب اور جہالت کا شاخسانہ ہے کہ پشاور میں جوزف نامی ایک مسیحی کو اس لئے قتل کر دیا گیا کہ اُس نے مسلم آبادی میں گھر کیوں لیا ہے۔ یہ تعصب اور نفرت کی انتہا ہے۔ پشاور میں جو کہ تحریک ِ انصاف کا قلعہ ہے ایک توہین ِ رسالت کے ملزم کو کمرہ عدالت میں جج صاحب کی موجودگی میں بڑی دیدہ دلیری سے پستول کی گولیوں سے ہلاک کر دیا گیا۔ ایسے روزمرہ ہونے والے بہت سے واقعات ہیں جو کبھی میڈیا یا اخباروں تک نہیں آتے۔ ہم قائد ِ اعظم کے پاکستان سے ملکی تاریخ کے ابتدائی ایام میں دھیرے دھیرے اور اب بہت تیزی سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ پچھلے 30 سال سے پاکستان دہشت گردی کی جنگ میں مصروف رہا ہے۔ اگر ہم نے بحیثیت پاکستانی معاشرہ میں پائی جانے والی اِس تفریق اور نفرت کو نہ روکا تو ہم میں سے ہر ایک اِس کے گھنائونے اثرات سے اثر انداز ہوگا۔ کوئی بھی اِس کے زہر سے محفوظ نہ رہ سکے گا۔یہ صو تحال دہشت گردی سے بھی زیا دہ خطر ناک ہے اور یہ سوچ کہ یہ ایک محدود طبقہ ہے جس میں ایسی نفرت اور تعصب پایا جاتا ہے قابل ِ غور ہے۔ اگر یہ ایسا ہی چھوٹا طبقہ ہوتا تو اِس نے سارے معاشرے کو یرغمال کیسے کر رکھا ہے ؟ بحیثیت پاکستانی ہمیں اِس سوچ و عمل کا مقابلہ کرنا ہے اور قائد ِ اعظم کے پاکستان کو مضبوط کرنا ہے کیونکہ بابائے قوم قائد ِ اعظم کی سوچ و فکر ، جمہوری اقتدار اور اُن کا ’ قول یقین ِ محکم ، اتحاد ، نظم و ضبط ‘ ہی اکیسویں صدی کے تقاضے پورے کر سکتے ہیں۔ دُعا ہے کہ پاکستان تیزی سے ترقی کی منازل طے کرے اور سدا شا د و آباد رہے۔
تازہ ترین