• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خیال تازہ … شہزادعلی
پاکستان نے اپنے سیاسی نقشہ میں کشمیر کو شامل کرنے کا جو اہم ترین قدم اٹھایا ہے اس پر جنگ لندن کا جائزہ یہ واضح کرتا ہے کہ پاکستان کا یہ اقدام ان کشمیری عوام کے جذبات کی بھرپور ترجمانی کرتا ہے جو بھارت کی مسلح افواج اور کئی طرح کی فورسز کے مظالم کی پرواہ کیے بغیر آئے روز پاکستان کے پرچم بلند کرتے ہیں، اپنے شہداء کو پاکستان کے پرچم میں سپرد خاک کرتے ہیں، پاکستانی سیاسی نقشہ میں کشمیر کی شمولیت خطے کی جیو پولیٹیکل صورت حال پر نظر رکھنے والے جائزہ کاروں کے نزدیک یہ ایک صائب عمل اور دانشمندانہ فیصلہ ہے، اس کے لیے خطے میں چین اور ایران کی طرف سے بھارت سے متعلق بعض حالیہ اقدامات کو مدنظر رکھنے کی بھی ضرورت ہے۔ اسی طرح پاکستان کے اندر اور آزاد کشمیر کے علاوہ بیرون کشمیر 5 اگست کو بھارت کے ایک سالہ ریاست کش اقدامات کے خلاف دن منایا گیا، جس پر کشمیری عوام بجا طور پر حکومت پاکستان اور پاکستانی عوام کے مشکور ہیں۔ پاکستان نے بھارت کی طرف سے کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کرنے کے ایک سال بعد اپنے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ کشمیر کی پاکستان کے لیے اہمیت ہر لحاظ سے مسلمہ ہے سب سے بڑھ کر اس نے اس مسئلے کے بارے میں اپنے عوام میں شعور اجاگر کرنے کے لئے ایک مثبت مہم چلائی ہے۔ پاکستان کی نئی نسل کو بھی کشمیر کی پاکستانی نقطہ نظر سے اہمیت کا احساس دلانے کے لئے ایسی کاوشوں کو وقتاً فوقتاً بروئے کار لایا جانا ازحد ضروری ہے، اسی طرح پاکستان کی اشیر باد و حمایت سے برطانیہ سمیت کئی اوور سیز ممالک جہاں پر پاکستانی کشمیری ڈائسفرا آباد ہے 5 اگست کے روز مختلف طرح کے احتجاجی پروگرام ترتیب دیے گئے جن سے کسی نہ کسی حد تک چاہے محدود پیمانے پر سہی دنیا کو کشمیر کے مسئلے کی اہمیت باور کرانے کی سعی کی گئی، ایک اہم پہلو یہ ہے کہ پاکستان نے کشمیر کو اپنے سیاسی نقشہ میں شامل کرتے وقت یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ کشمیری عوام کو اپنے مستقبل کا آزادانہ فیصلہ کرنے کا حق اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت حاصل ہے، یہ واضح کر کے پاکستان کی عالمی برادری کے سامنے کشمیر پر پوزیشن اخلاقی اعتبار سے بھارت کے مقابلے میں برتر ہوگئی ہے، ایسا اس کے باوجود کیا گیا ہے کہ کشمیری عوام کی واضح اکثریت پاکستان کے ساتھ رہنے کی متمنی ہے، جس کے واضع دلائل یہ ہیں کہ قیام پاکستان سے ہی قبل ریاست جموں وکشمیر کے سیاسی اکابرین نے تاریخ جس شخصیت کو غازی ملت کے نام سے جانتی ہے، میری مراد سردار محمد ابراہیم خان کی ہے ان کی رہائش گاہ پر الحاق پاکستان کی تاریخ ساز قرار داد منظور کی گئی، پھر ہر اہم موقع پر ہم دیکھتے ہیں کہ ریاست کے مختلف حصوں کے علاوہ بیرون کشمیر کشمیری بھی واضح طور پر پاکستان سے اپنی والہانہ محبتوں کا اظہار کرتے ہیں، بالفرض ریاست کے اندر کسی جگہ کشمیری عوام پر کوئی دباؤ بھی ہے تو اوور سیز ممالک کے کشمیری تو آزاد ہیں، آخر وہ کیوں عالمی سطح پر پاکستان کے ساتھ اپنا مستقبل وابستہ کرنے کا برملا اظہار کرتے ہیں،البتہ کشمیر کو خود مختار مملکت کے طور پر دیکھنے والے کشمیری بھی موجود ہیں، اسی طرح بعض ایسے کشمیری بھی ہیں جو یہ موقف رکھتے ہیں کہ پہلے آزادی حاصل کی جائے اور فی الوقت الحاق اور خودمختاری کے نعروں میں قوم کو الجھایا نہ جائے اور صرف حق خودارادیت کی بناء پر تحریک آزادی کشمیر کو آگے بڑھایا جائے، پھر مقبوضہ کشمیر کے جو حالات ہیں وہاں سے اگر کوئی کشمیری حقیقی معنوں میں بھارت کے ساتھ رہنے کا بھی حمایتی ہے تو نہایت محدود تعداد کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا، تاہم تاہم یہ سب صورت حال دنیا پر سچائی سے اس وقت ہی سامنے آسکتی ہے کشمیری عوام حقیقت میں چاہتے کیا ہیں کہ جب انہیں آزادانہ طور پر حق رائے دہی کے استعمال کا موقع ملے، مگر اصل مسئلہ ہی یہ ہے کہ بھارت کشمیر پر رائے شماری سے راہ فرار اختیار کیے ہوئے ہے، تاہم کشمیری عوام کی عمومی سوچوں اور سیاسی وابستگیوں کے علاوہ بالخصوص مقبوضہ کشمیر کے عوام کی طرف سے پاکستان کے حق میں تسلسل سے اٹھنے والی آوازیں یہ باور کراتی ہیں کہ ان کی ایک واضح اکثریت پاکستان کے ساتھ اپنا مستقبل دیکھنے کی آرزو مند ہے جب کہ اب پاکستان کے پالیسی سازوں کو یہ سمجھنے میں دیر نہیں کرنا چاہیے کہ پاکستان کو کشمیر کا کیس اب سیاسی اور سفارتی محاذوں پر بھر پور طریقے سے پیش کرنا ہے، وزیراعظم پاکستان عمران خان سے کشمیریوں کو بہت سی توقعات وابستہ ہیں، ان کے آزاد کشمیر کے اہم دن پر دورہ سے ان کے جذبات کو مزید تقویت ملی ہے تاہم کوئی ایسا تاثر نہ ابھرنے دیا جائے کہ عمران خان کشمیر کو فقط کسی انتخابی کامیابی یا اندرون ملک حزب اختلاف کی جماعتوں کے اپنی حکومت پر کئی وجوہات کی بنا پر دباؤ کو کم کرنے کے لئے استعمال کریں گے۔ حکومتی جماعت پی ٹی آئی کے علاوہ پاکستان کی دیگر قومی جماعتوں بشمول پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ نواز اور جماعت اسلامی سے بھی کشمیری بجا طور پر حمایت جاری رکھنے کی توقعات رکھتے ہیں، یقینی طور پر پاکستان کی کوئی بھی سیاسی جماعت کشمیر سے غفلت نہیں برت سکتی، ان سب قومی جماعتوں کو اپنے جماعتی اختلافات کو بھلا کر کشمیر پر ایک آواز بننا ہوگا، اسی طرح پاکستان کے پالیسی ساز اداروں کو یہ بھی ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے دنیا میں اب کسی بھی تنازع پر جنگوں کی روایتی نوعیت تبدل ہوگئی ہے، اس لیے عالمی بدلتے ہوئے حالات اور حکمت عملی کے تحت ٹیکنالوجیکل، پولیٹیکل اینڈ ڈپلومیٹک ذرائع سے کشمیر کا مقدمہ نئی صف بندی کے ذریعے پر اب خطے کے اندر کسی جنگی محاذ آرائی کا ماحول پیدا کرنے پر توجہ دینے کے بجائے اقوام متحدہ، یورپی یونین اور سپرپاورز کے علاوہ خود اسلامی ممالک میں بھرپور کشمیر ڈپلومیسی کے ذریعے پوری شدت سے اٹھایا جائے، امریکہ، روس، جاپان، چین، فرانس اور برطانیہ، دنیا بھر کے اسلامی ممالک کے دارالحکومتوں کے علاوہ نئی دہلی کے اندر بھی بھارت کو خود اس کے بانی رہنماوں کے کشمیر پر وعدے یاد دلائے جائیں۔ عالمی برادری کو باور کرایا جائے کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام جو پہلے سے ہی بھارت کے غیر قانونی قبضہ میں شدید انسانی حقوق کی پائمالیوں سے دوچار تھے وہاں پر زمینی صورتحال گزشتہ ایک سال کے دوران مزید خراب ہوگئی ہے اور بھارت خطے میں جو صورت حال معمول کے ہونے کے دعویے کرتا ہے وہ حقیقت کے برخلاف ہے جب کہ کشمیر کے مسئلے کی انسانی حقوق کے علاوہ سیاسی اہمیت یعنی بھارت جو کشمیر میں رائے شماری کے وعدہ سے انحراف کرتا چلا آ رہا ہے اس پر بھی توجہ مرکوز کرائی جائے ۔آزادکشمیر کے معاملات پر بھی پاکستان کے اعلیٰ مقتدر حلقے توجہ مرکوز کریں وہاں کے لوگوں کو بھی برادری ازم پر مبنی نظام سے نجات دلائی جائے۔ حکومت پاکستان اگر کشمیر کو اپنا پارٹ اینڈ پارسل قرار دے رہی ہے تو پھر یہ بھی جائزہ لیا جائے کہ آزاد کشمیر کی حکومتیں کس حد تک وہاں کے لوگوں کو سروسز ڈلیور کرتی ہیں، آزادکشمیر کی موجودہ اور ماضی کی اکثر حکومتوں کے متعلق یہ شکایات بھی ہیں کہ یہ آزاد کشمیر کے اندر اہم سیاسی اور انتظامی عہدے مخصوص بنیادوں پر بانٹی ہیں، میرٹ نام کی کوئی چیز نہیں، عام لوگوں کا کوئی پرسان حال نہیں، آزاد کشمیر حکومتوں نے اندرون کشمیر کے علاوہ بیرونی ممالک میں مقیم آزاد کشمیر کے باشندوں میں بھی جماعتی بنیادوں پر کشمیر کے نام پر طویل عرصے سے عہدے تقسیم کرنے کا سلسلہ ہائے بھی شروع کر رکھا ہے جو اب بھی جاری ہےپھر جو کشمیر لبریشن سیل کے فنڈز ہیں ان کا حساب کتاب لیا جائے، آزاد کشمیر میں ماضی کی بیشتر حکومتوں کا کردار بھی ان حوالوں سے زیادہ تر منفی رہا ہے اور اب بھی اچھا تاثر نہیں ابھر رہا ۔، پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو آزاد کشمیر کے اندر اپنی شاخوں میں ہر مکتب فکر کے کشمیری لوگوں کی شمولیت کو یقینی بنانے کیلئے اقدامات کرنے چاہئیں، پی ٹی آئی کشمیر، پی پی پی آزاد کشمیر اور پی ایم ایل ن اے جے کے کو آزاد کشمیر کی اپنی اپنی تنظیموں کے ڈھانچوں کو برادری ازم سے پاک کرنے کے لیے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے، اسی طرح ان جماعتوں کی اوورسیز برانچوں کو بھی ازسر نو ترتیب دیا جائے اور پھر پاکستان کے حوالے یکجہتی پیدا کی جائے ، پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی آزادکشمیری شاخوں میں اب ایسے لوگ بھی گھس رہے ہیں جو بظاہر پاکستانی جماعتوں سے منسلک ہیں مگر ان میں سے بعض پاکستان اور بھارت کے کردار کو کشمیر پر یکساں قرار دینے کا منفی پروپیگنڈا بھی کر رہے ہیں، پاکستان کے پالیسی میکرز اور سیاسی جماعتوں کی قیادت کو ایسے لوگوں سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے اور بعض کھاتے پیتے عناصر کشمیر کی محافظ پاکستان کی مسلح افواج کے خلاف بھی جھوٹا اور منفی نوعیت کا پروپیگنڈا کرنے سے بھی باز نہیں آتے، ان حوالوں سے نہ صرف پاکستانی حکومتوں کو ہی نہیں بلکہ ذمہ دار میڈیا ہائوسز کو بھی ایسے عناصر کو لگام دینے کے لیے اپنی سٹریٹجی وضع کرنی چاہیےجب کہ دنیا بھر میں پھیلے پاکستانی سفارتی مشنز کو بھی پاکستانی ریاست کے خلاف مبینہ طور پر مزموم عزائم رکھنے والے مٹھی بھر عناصر کے نیٹ ورکس پر نظر رکھنی چاہیے اور اظہار رائے کی آزادی کے پردے میں مملکت پاکستان کے خلاف حقائق کے منافی باتوں کو پھیلانے والے عناصر کے خلاف روکنے کے لیے اقدامات کرنا چاہئیں، ایک اور پہلو بھی اہمیت کا حامل ہے کہ کشمیری عوام میں ایک حصہ خودمختار کشمیر کا حمایتی ہے اس متعلق بابائے خودمختار کشمیر امان اللہ خان مرحوم کا یہ واضح نقطہ نظر رہا ہے کہ کشمیر کی خودمختاری کی تحریک پاکستان سے مخالفت کی بنیاد پر استوار نہیں کی جائے گی اور وہ ایک مضبوط اور مستحکم پاکستان کو ہی کشمیر کی آزادی کا ضامن قرار دیتے تھے مگر آج خود مختاری کے نام پر بھی بعض لوگ بھارت کے پروپگینڈہ کو آگے بڑھاتے ہیں اور کشمیر پر پاکستان کے کردار کو بھارت سے بھی بدتر پیش کرتے ہیں یہ ٹھیک ہے کہ ہر شخص کا حق ہے کہ وہ کشمیر پر جو چاہے نظریہ رکھے مگر پاکستانی اداروں کو اپنی مملکت کے خلاف بے بنیاد اور جھوٹے پروپیگنڈا کی اجازت ہر گز نہیں دہنی چاہیے اور خود کشمیریوں کی تنظیموں کے ذمہ داران کو بھی چاہیے کہ چاہے وہ الحاق پاکستان کا نظریہ رکھتے ہیں یا خودمختاری کی سوچ مگر اپنی صفوں میں مملکت پاکستان کے خلاف مخاصمانہ رویے رکھنے والوں کو نہ گھسنے دیں اور ہر وقت یہ بات پیش نظر رہے کہ کشمیر اور پاکستان کا تعلق مضبوط بنیادوں پر قائم ہے ۔
تازہ ترین