• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کھلا تضاد … آصف محمود براہٹلوی
آزادی کی تحریکیں طویل قربانیوں کی تاریخ سے بھری پڑی ہیں۔ بالخصوص مقبوضہ جموں و کشمیر کی تحریک کو دیکھا جائے تو پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے قبل یعنی کہ1932ء کو شہدا جموں نے ایک اذان بلالی کی تکمیل کے لیے بائیس جانوں کے نذرانے پیش کرتے ہوئے اللہ اکبر کی صدا بلند کی اور تحریک آزادی کشمیر کو مضبوط بنیاد فراہم کی۔ اس دن سے لے کر آج تک کوئی ظلم، کوئی جبرکشمیریوں کا جذبہ آزادی کو طاقت کے زور پر دبا نہ سکا۔ گزشتہ برس بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے شاید یہ سوچ کر مقبوضہ جموں و کشمیر کے بنیادی انسانی حقوق سلب کرکے معطل کرکے کرفیو لگایا تھا کہ ایک دو ماہ بعد جذبے ٹھنڈے ہوجائیں گے۔ تحریک کمزور پڑ جاے گی اور ہم اسرائیلی طرز کے فارمولے کے مطابق غیر ریاستی افراد کو یہاں لاکر بساکر آبادی کے تناسب کو تبدیل کرلیں گے اور جب کبھی عالمی قوتوں کے سامنے رائے شماری کرانا پڑ گئی تو باآسانی غیر ریاستی افراد کے ذریعے بھارت کے حق میں ووٹ ڈلواکر یہ بھی کر گزریں گے، لیکن نریندر مودی کی یہ صرف خام خیالی ثابت ہوئی، حالانکہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں موجود مسلح دس لاکھ بھارتی فوج کو کوئی دوسری فوج ہی شکست دے سکتی ہے، لیکن جذبہ آزادی کے سامنے کوئی دنیاوی طاقت کھڑی نہیں ہوسکی۔ کرفیو کا ایک برس اور امسال جنوری میں شروع ہونے والے کورونا لاک ڈائون کا آغاز بھی مارچ میں مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہوگیا تھا، اس کے پس پردہ بھارت نے کئی مظالم ڈھائے، ہزاروں نوجوان لاپتہ ہوگئے، عزتیں لوٹیں گئی، بچوں، بوڑھوں کو زدوکوب کیا گیا، آٹھ سالہ ننھے بچے کے سامنے اس کے نانا کو بھارتی ریاستی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھایا گیا، لیکن اس کے باوجود بھارت کو ناکامی کا سامنا ہے۔ اب بھارت کے اندر شہریت بل سمیت دیگر تحریکیں زور پکڑ رہی ہیں، کورونا لاک ڈائون کا سب سے زیازدہ فائدہ مودی کو پہنچا، لیکن اب حالات آہستہ آہستہ معمول پر آرہے ہیں اور بھارت کے اندر چلنے والی تحریکیں ازسرنو تیاری کے ساتھ وہی سے آغاز کرنے جارہی ہیں، جہاں کورونا لاک ڈائون سے قبل تھیں۔ دوسری جانب حکومت پاکستان نے بھی کرفیو کے ایک برس مکمل ہونے پر نئے جذبہ کے ساتھ نئے نقشے کے ساتھ آغاز کیا، یوم استحصال کی تقریبات دنیا بھر میں منائی گئیں، کنزرویٹو پارٹی سٹی کونسل میں لیڈر آف دی اپوزیشن کوششوں سے احتجاج کی اجازت اور سٹی کونسل کے تاریخی وکٹوریہ اسکوائر پر کورونا کو مدنظر رکھتے ہوئے چاک کے ذریعے لگنے والے پانچ سو پیسنٹھ نشان تاریخ کا حصہ بن گئے۔ شاید یہ پہلا احتجاج ہوگا جو دیے گئے آغاز کے وقت سے پہلے ہی لوگ جمع ہونا شروع ہوگئے تھے۔ مختلف قسم کے جھنڈے، بینرز، کتبے، چہروں پر لگائے گئے، فیس ماسک پر ’’وہی وانٹ فریڈم‘‘ We Want Freedumاور سب سے نمایاں بات کہ کثیر تعداد میں خواتین، بچوں اور بالخصوص ترکش کمیونٹی کی شرکت حوصلہ افزا تھی۔ احتجاج کے اختتام پر آزادی مارچ کا جوش و ولولہ قابل دید تھا۔ کشمیریوں کے اس جذبہ آزادی اتحاد و یکجہتی کو دیکھ کر اس بات کا یقین ہوتا جارہا ہے کہ بھارت شکست کھا چکا ہے اور کشمیریوں کو حصول آزادی سے کوئی رکاوٹ دور نہیں رکھ سکتی، بھارت کے اوچھے ہتھکنڈے جو ڈیجیٹل کمپین کے آغاز پر بھارتی شرپسندوں نے گالی گلوچ کے ذریعے وہاں پر موجود کمیونٹی رہنمائوں کو دبانے کی کوشش کی تھی، ناصر راجہ اور دیگر نے ان شرپسندوں کو وہاں سے جانے پر مجبور کیا، کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آسکا۔ برطانیہ اور بالخصوص برمنگھم میں موجود بھارتی انتظامیہ کی بوکھلاہٹ کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ565نشان اور ان پر کھڑے ہونے والے رنگ و نسل، سیاسی و نظریاتی اختلافات سے بالاتر ہوکر مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کررہے تھے۔ یوم استحصال پر، پرعزم تھے کہ کشمیر کی حتمی آزادی تک ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے۔
تازہ ترین