• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ماضی کی یادوں کو بھلانا بہت مشکل ہے ، ہر روز کسی نہ کسی واقعے ، تجربے یا سانحے کا رشتہ ماضی کی کسی نہ کسی یاد سے جا کر جڑ جاتا ہے اور تھوڑی دیر تک ماضی کے جھروکوں میں جھانکنے سے ایک عجیب سے تسکین ہوتی ہے۔ بہت سال پہلے صبح صبح جب سائیکل پرا سکول کیلئے نکلتا تو گلی کی نکڑ سے اکثر ایک خاص لے میں ادا کیا جانے والا یہ شعر کانوں میں رس گھول دیتا”ہمیں تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا، میری کشتی تھی ڈوبی وہاں جہاں پانی کم تھا“۔ ”دل والے“ فلم نئی نئی آئی تھی اور اجے دیوگن کی فلموں کا جادو گلی محلے کی نکڑوں پر سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ ہمارے محلے کا اجے دیوگن آٹھ دس سالہ بِلو تھا ، وہ تھوڑاسا مست تھا اور فلموں کی دنیا میں گم رہتا تھا۔ اس کا ایک اور بڑا پسندیدہ ڈائیلاگ تھا۔ ”دل جلے ، یہاں تو سبھی دل جلے ہیں“۔ مجھے چند دنوں سے بِلو میاں کے فلمی شعروں اور مکالموں کی رہ رہ کر یاد آ رہی ہے۔وجہ تسمیہ اسکی یہ ہے کہ تحریکِ انصاف کے ٹکٹوں کی تقسیم پر اتنے دل جلے منظرِ عام پر آ گئے ہیں کہ دل بے اختیار کہہ رہا ہے ”دل جلے!! یہاں تو سبھی دل جلے ہیں“
کوئی دو تین مہینے پہلے کی بات ہے ، اسلام آباد میں تحریکِ انصاف کی طرف سے کالم نگارو ں اور مدیروں کوعمران خان سے ملاقات کیلئے مدعو کیا گیا۔میں چونکہ کالم نگار بھی ہوں اور عمران خان کے سونامی کی ایک موجِ بیکراں بھی، سو میں بھی وہاں موجود تھا۔ساری گفتگو میں ایک بات جس پر میرا ذہن اٹک گیا ، وہ یہ تھی کہ عمران خان نے بڑے واضح انداز میں کہا کہ تحریکِ انصاف کو کوئی دوسر ی پارٹی شکست نہیں دے سکتی، تحریک ِ انصاف صرف اسی صورت میں ہار سکتی ہے اگر اس نے ایسے امیدواروں کا انتخاب کر لیا جن کا چہرہ اس کے نظرئیے سے مطابقت نہ رکھتا ہو۔ میں اس ملا قات کے بعد بہت مطمئن ہو گیا کہ عمران خان کو اس حقیقت کا اتنی اچھی طرح سے ادراک ہے۔ٹکٹوں کی تقسیم کا معاملہ آیا تو میں بھی اسلام آباد کے حلقہ این اے 48سے الیکشن لڑنے کا خواہشمند تھا۔ایک دفعہ عمران خان صدر دفترسے روانہ ہونے والے تھے کہ دور دراز سے آئے ہوئے کارکنوں کے پاس رک گئے ، مجھے بھی ان سے بات کرنے کا موقع ملا تو میں نے اپنی خواہش کا اظہار کیا ۔ وہ کہنے لگے کہ میرا ٹکٹوں کی تقسیم سے کیا واسطہ ، پارلیمانی بورڈ فیصلہ کرے گا۔میرا پہلا ردِ عمل تو یہ تھا کہ اتنا روکھا جواب!! لیکن جلد ہی مجھے احساس ہوا کہ ان کے بقول اگر ٹکٹیں میرٹ پر تقسیم ہونی ہیں تو پھر ا ن میں عمران خان کا عمل دخل تو واقعی نہیں ہونا چاہئے یا پھر بہت زیادہ نہیں ہونا چاہئے۔میرا خیال تھا کہ کوئی Objectiveمعیار بنایا جائے گا اور جو اس پر پورا اترے گا اس کو ٹکٹ مل جائے گا۔ لیکن جب تحریکِ انصاف کی ٹکٹوں کی تقسیم کا مرحلہ جاری تھا تو کوئی خاص معروضی معیار نظر نہیں آیا۔ اسی وجہ سے سینکڑوں کی تعداد میں دل جلے سامنے آ گئے۔اسی وجہ سے پارلیمانی بورڈ میں موجود کچھ لوگوں کو اپنی من مانیاں کرنے کا موقع ملا، اور ان پر الزامات کی بوچھاڑ ہونے لگی۔ اسی وجہ سے بہت سے ایسے لوگوں کو ٹکٹ مل گئے جن کے چہرے اور پارٹی کا نظریہ مطابقت نہیں رکھتے۔ اسی وجہ سے ایسے بہت سے لوگوں کو ٹکٹ نہیں مل سکے جو زیادہ اہل تھے یا پھر جنھیں عمران خان ذاتی طور پر ٹکٹ دینا چاہتے تھے۔یہ درست ہے کہ ٹکٹوں کی تقسیم کیلئے اس سے بہت بہتر طریقہ کار وضع کیا جا سکتا تھا اور یہ بھی درست ہے اگر کوئی بہتر طریقہ کا ر وضع کیا جاتا تو آٹھ سو لوگوں میں سے بہت سے لوگوں کو ٹکٹ نہ دیا جا تا۔میں یہ ساری باتیں اس لئے کر رہا ہوں کہ عوام کی عمران خان اور تحریکِ انصاف سے غیر معمولی حد تک زیادہ توقعات وابستہ تھیں اور ہیں۔ورنہ کسی اور پارٹی کے بارے میں ”ٹکٹوں کی تقسیم اور میرٹ“ کے موضوع پر بات کرنے کا شائد کبھی خیال بھی نہ آتا۔
میں تحریکِ انصاف کی ٹکٹوں کی تقسیم کے متعلق بہت سے ایسے حقائق سے واقف ہوں جو شائد بہت سے لوگوں کو معلوم نہیں ہوں گے۔میں یہ ماننے کیلئے ہر گز تیار نہیں کہ تحریکِ انصاف کے اکثر ٹکٹ غلط لوگوں کو دئیے گئے ہیں بلکہ میں تو یہاں تک کہوں گا کہ بحثیت مجموعی ، چند ایک استثنیات کوچھوڑ کر، تحریکِ انصاف کے بُرے سے بُرے امیدوار بھی سیاسی جمود کی دیگر پارٹیوں کے روایتی امیدواروں سے بہتر ہیں اور جو پچیس فیصد نوجوان امیدوار سامنے آئے ہیں ، ان کے تو کیا کہنے۔صاف ستھرے، اجلے کردار کے مالک، جنون سے مالا مال ، عملی سیاست کے یہ نووارد ان پاکستان کے سیاسی کلچر کو بدل کر رکھ سکتے ہیں ۔ تحریکِ انصاف کے چند ایک ”بُرے “ امیدواروں کو محدب عدسے لگا کر دیکھنے والوں کو یہ 200کے لگ بھگ پڑھے لکھے اور نوجوان امیدوار کیوں نظر نہیں آتے۔ تحریکِ انصاف پر ٹکٹوں کے معاملے میں انگلیاں اٹھانے والے دوستوں کو یہ حقیقت نظر کیوں نہیں آتی کہ اسکے 80%امیدوار ایسے ہیں جو پہلی دفعہ انتخابات لڑ رہے ہیں ، یہ اسی فیصد لوگ دوسری پارٹیوں کے ان سو فیصد امیدواروں سے ہزار درجے بہتر ہیں جو روایتی سیاست کے ”تجربے “ سے مالا مال ہیں جو انہوں نے پچھلی کئی دہائیوں میں پروان چڑھایا ہے ۔ آج پاکستان کی ”بے مثال ترقی“ انہی روایتی سیاستدانوں کے ”تجربے “ کی دین ہے ۔ اللہ نہ کرے پاکستان پر لوٹ مار، کرپشن، سفارش، اقربا پروری، ٹیکس چوری، ٹھیکوں، کمیشنوں، بھتوں، تھانے داروں ، پٹواریوں اور امریکہ اور اسکے حواریوں کی غلامی سے اٹا ہوایہ روایتی سیاسی ”تجربہ“ ایک دفعہ پھر سے مسلط ہو۔
مجھے خدشہ تھا کہ جب عمران خان اپنے امیدوار میدان میں اتارے گا تو سیاسی جمود کی ساری طاقتیں مل کر اس کے امیدواروں کے انتخاب کو ایک کورس کی شکل میں بر ا بھلا کہنا شروع ہو جائیں گی، اور 2013کے انتخابات میں یہی تحریکِ انصاف پر سب سے کڑا وار ہو گا۔میرا خدشہ درست نکلا، جیسے ہی عمران خان کے امیدوار میدان میں آنا شروع ہوئے ، ذرائع ابلاغ میں ان پر ہلہ بول دیا گیا۔ اعلیٰ صحافتی اقدار کے مطابق مثبت تنقید تو ہونا ہی تھی سو وہ بھیہوئی۔ تاک میں بیٹھے سیاسی جمود کے رکھوالوں نے باندھ باندھ کے نشانے لگانے شروع کر دئیے۔ خیر ان میں سے بہت سے شہ زور تو وزارتِ اطلاعات کی طرف سے بانٹے گئے کروڑوں روپے والی لسٹیں منظرِ عام پر آنے تک مہمان ہیں ۔ لیکن تحریکِ انصاف سے ہمدردی رکھنے والے اور بہتر ساکھ کے حامل کالم نگار اس خود کش مشن پر کیونکر نکل کھڑے ہوئے ہیں۔
”ہمیں تو اپنوں نے لوٹا۔۔“اس وقت جب کہ الیکشن کمیشن کی حتمی فہرستیں آویزاں چکی ہیں اور امیدواروں میں ردوبدل کی کوئی گنجائش بھی باقی نہیں ، تحریکِ انصاف کے بہی خواہ کون سی نیکی کر رہے ہیں۔عمران خان کہہ چکے کہ میرے پاس کوئی خفیہ ایجنسی نہیں کہ میں پاکستان بھر سے ٹکٹ کے خواہشمند لوگوں کی ایک معیاری قسم کی چھان پھٹک کر سکوں۔ ان کی بات میں وزن ہے، وہ پہلی دفعہ ایک ایسے پارلیمانی بورڈ کی صدارت کر رہے تھے جس نے درخواستوں کے انبار میں سے کسی ایک امیدوار کا انتخاب کرنا تھا۔ اگر کوئی غلط لوگ ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو بھی گئے ہیں تو اس گناہ کا سارا بوجھ پارلیمانی بورڈ کے ان لوگوں کے کندھوں پر ہے جنھوں نے اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات کی خاطر غلط لوگوں کی وکالت کی، عمران خان پر صرف اس حد تک ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ پارلیمانی بورڈ میں غلط لوگوں کی وکالت کرنے والے لوگوں کو پہچان نہیں سکے۔ویسے بھی امیدواروں کی موزونیت پر رائے بڑی داخلی (Subjective)نوعیت کی ہوتی ہے۔ دس لوگو ں کے نزدیک کوئی موزوں امیدوار ہے تو پندرہ کے نزدیک غیرموزوں۔
خیر کوئی بھی انسان یا ادارہ اپنی بھرپور کوشش کے باوجود بھی سو فیصد کارکردگی نہیں دکھا سکتا۔ خصوصاً ہمارے معاشرے میں جہاں پاسنگ مارکس لینے والوں کو بھی چراغ لیکر ڈھونڈنا پڑتا ہے ، اگر کوئی شخص ستر اسی فیصد تک نمبر لے لے تو اسے بہت بڑی کامیابی سمجھنا چاہیے۔ میرے خیا ل میں تحریکِ انصاف نے ستر اسی فیصد ٹکٹ بہترین لوگوں کو دئیے ہیں، جو کوئی معمولی کامیابی نہیں ہے۔ان ستر اسی فیصد لوگوں میں بہت سے ایسے ہیں جنکے پاس شائد روایتی سیاستدانوں جتنے وسائل نہیں ہیں اور جو ہیں وہ حق حلال کی کمائی کے ہیں، ان کو آنکھوں کو خیرہ کرنے والی نمود و نمائش کے ذریعے ووٹروں کو مائل کرنے کے طریقے بھی نہیں آتے ہونگے، ان کو لوگوں سے ووٹ لینے کیلئے جھوٹے وعدے کرتے ہوئے بھی ہچکچاہٹ ہوتی ہوگی، لیکن یہ لوگ اگر اسمبلیوں تک پہنچ گئے تو یہ اس بوسیدہ روایتی کلچر کی چولیں ہلا کر رکھ دیں گے۔ میں کہتا ہوں بھول جائیں ان تھوڑے سے غلط قسم کے لوگوں کو جنہیں تحریکِ انصاف سے دھوکہ دہی سے ٹکٹ دلوئے گئے، بے شک ایسے لوگوں کو ووٹ بھی نہ دیں،لیکن جو ستر اسی فیصد بہترین لوگ عمران خان نے میدان میں اتارے ہیں، ان کو ضرور ووٹ دیں ۔ یقین جانیں یہ لوگ اس ملک کی تقدیر بدل دیں گے۔
تازہ ترین