• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آپ اسے مکافات ِ عمل کہتے ہیں لیکن میں اسے مقام عبرت سمجھتا ہوں۔ میں نے پانچ روزقبل اپنے کالم میں لکھا تھا کہ اب جنرل پرویزمشرف کوجیل جانے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ اس فقرے کے جواب میں بہت سے مہربانوں نے پیغامات بھیجے کہ یہ ناممکن ہے۔نہ کبھی کسی فوجی آمر کو جیل جانا پڑاہے اور نہ ہی فوج مشرف کو سلاخوں کے پیچھے دیکھنا پسند کرے گی۔ آپ نے دیکھ لیا کہ جنرل صاحب حوالات توپہنچ گئے۔ یہاں سے جیل زیادہ دور نہیں۔ ابھی تو آغاز ہوا ہے۔ انجام خدا جانے کیا ہو۔ درست ہے کہ انہیں حوالات کی بجائے آرام دہ کمرے میں ٹھہرایاگیالیکن اس سے قبل تو کبھی اتنا بھی نہیں ہوا تھا۔ یہ اشارہ ہے حالات بدلنے کا اور جب حالات کروٹ لیتے ہیں تو پھر تبدیلی کے پہیے کوروکنا ممکن نہیں ہوتا۔ دنیا کا اپنا قانون ہے اور فطرت کا اپنا قانون۔ فطرت کا قانون وہی ہے جو اب جنرل مشرف پر لاگو ہوگا۔ مکافات ِعمل یعنی ”جو بویا جائے وہی کاٹنا پڑتا ہے“ بھی قانونِ فطرت کا حصہ ہے لیکن جنرل پرویز مشرف کے سلسلے میں تو مکافات ِ عمل اس وقت شروع ہو گیا تھا جب اسے صدارت کی کرسی چھوڑکر جلاوطن ہونا پڑا۔ اس نے ملک کے منتخب وزیراعظم کو جلاوطن کیا تھا اور خود اسے بھی اپنے ہی مہربانوں نے جلاوطن کیا۔چنانچہ وہ پانچ برس جلاوطنی کی خاک چھانتا رہا۔ خوشبو دار سگار پینے والا جرنیل لندن میں مہنگے ترین اپارٹمنٹ میں رہا۔ یارو! دنیامقام عبرت ہے، مقام غورو فکر اور تدبرہے کہ زندگی اپنے رب سے مغفرت مانگنے اور توبہ و استغفار کی مہلت کا نام ہے۔
توبہ و استغفار والوں کو رب معاف کردیتاہے لیکن غرور اور اناپرستی کے گھوڑے پرسوار صاحبان ِ اقتدار کو عبرت کی علامت بنا دیتاہے۔ سچ پوچھو تو اس شخص کو جوبات بات پہ کہتا تھا”میں کسی سے ڈرتا ورتا نہیں“، جو ہوا میں مکے لہراتا اور اقتدار و طاقت کے نشے میں ہوامیں تلواریں چلاتا تھا اسے عدالت سے بھاگتے دیکھ کر میں توبہ استغفار پڑھتا رہا۔کل جب اسے پولیس کے نرغے میں دیکھا تو چہرہ اتراہوا، پیشانی پسینے سے شرابور اور ہوش و حواس کافور دیکھ کر مجھے بار باراحساس ہوا کہ یہ مکافات ِ عمل سے کہیں زیادہ مقام عبرت ہے۔ اے کاش صاحبان اقتدار، صاحبان دولت اور صاحبان اختیار اس سے سبق سیکھیں۔ جس طرح میاں صاحبان کی گرفتاری کے ساتھ ہی ان کے حواری ساتھ چھوڑگئے تھے اسی طرح اب پرویز مشرف بھی اکیلے ہی خوارہو رہا ہے۔ اس کی بے پناہ دولت اسے ذلت و خواری سے بچا نہیں سکے گی۔ ہاں اگرکسی داخلی قوت یا بیرونی طاقت نے دباؤ ڈالاتو اسے ریمنڈ ڈیوس کی مانند ملک سے فرار کرایا جاسکتا ہے ورنہ عدالتوں میں وکیلوں کے جوتے، نفرت انگیز نعرے اور احتجاج مشرف کے منتظر ہوں گے۔
میں اسے آغاز اس لئے سمجھتا ہوں کہ مشرف کے خلاف کئی مقدمات رجسٹر ہوچکے ہیں اورکئی ابھی مزید رجسٹر ہوں گے۔ اگروہ سمجھتا ہے کہ اس خواری کے نتیجے کے طور پر اس کے لئے ہمدردی پیدا ہوگی تو یہ خام خیال ہے۔ ان مقدمات میں سخت ترین مقام آئین شکنی ہے جس سے بچنا آسان نہیں ہوگا۔ کل سینٹ میں بھی قرارداد پاس ہوچکی اور اس سے قبل قومی اسمبلی بھی قرارداد منظور کرچکی ہے۔ دوسری طرف عدلیہ بھی قانون کی حکمرانی کو نافذ کرنے کیلئے آئین شکنی کو عبرت کی مثال بنانے کا تہیہ کئے بیٹھی ہے۔ عدلیہ سمجھتی ہے کہ جب تک آئین شکنی کو مقام عبرت نہ بنایاگیا تب تک نہ یہ سلسلہ رُکے گااور نہ ہی ملک میں قانون کی حکمرانی قائم ہوگی۔ چنانچہ اگر یہ بات مان بھی لی جائے کہ مشرف کی منتخب کردہ پارلیمینٹ اس کے 12اکتوبر 1999 کے اقدام پر مہر تصدیق ثبت کرچکی ہے اورعدلیہ بھی اسے نظریہ ٴ ضرورت کے تحت جائزقرار دے چکی ہے تو بھی نومبر 2007 کے اقدام پر آئین شکنی کے تحت مقدمہ چلایا جاسکتا ہے۔ ویسے تویہ نکتہ بذاتِ خود غور طلب ہے کہ اگر مشرف کی منتخب پارلیمینٹ نے اس کے اقدام کو جائز قرار دے دیا تھا تو کیا بعد ازاں وجود میں آنے والی پارلیمینٹ اس میں ردوبدل نہیں کرسکتی ہے۔ یقیناکرسکتی ہے۔ اس طرح اگر عدلیہ نے مشرف کے ٹیک اوور کو نظریہ ٴ ضرورت کے تحت قبول کرلیا تھا تو کیا اب سپریم کور ٹ اس فیصلے پر نظرثانی نہیں کرسکتی؟
مستقبل کا راز صرف اللہ سبحانہ  تعالیٰ جانتے ہیں لیکن پاکستان کی تاریخ کاادنیٰ طالب علم ہونے کے ناطے محسوس کرتاہوں کہ جب تک ہم نے آئین کے سیکشن چھ،سنگین غداری… کو محض سجاوٹی سیکشن بنائے رکھا فوجی مداخلت کاراستہ بند نہیں ہوگا۔سوال یہ ہے کہ کیا آئین محض دکھاوے کی چیز اور کتابوں کی الماریوں میں سجاکر رکھنے کی شے ہے؟ یاد رکھئے کہ اگر ہم آئین پر عمل نہیں کریں گے تو پھر یہ توقع بھی نہ رکھئے کہ آئین آپ کی حفاظت کرے گا۔ میں رات 1956کے آئین میں جھانک رہا تھا۔ مجھے اس میں فوجی مداخلت یا سنگین غداری کا راستہ روکنے والا کوئی سیکشن نظر نہ آیا۔ شاید ہمارے آئین سازوں کو یہ اندیشہ ہی نہ تھا کہ صرف دو سال بعد کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان شب خون ماریں گے۔ جنرل ایوب خان نے صدر سکندر مرزا کو جیلوں کی ہوا کھلانے کے بجائے چپکے سے جلاوطن کردیا۔ یحییٰ خان نے عنان اقتدار سنبھالی تو صدرایوب خان کو خاموشی سے اپنے گھرمیں آرام کرنے کا موقعہ فراہم کردیا۔ اسی طرح اپنے پیشرو کی سرپرستی کی رسم چل نکلی۔ جنرل ضیا الحق نے بھٹو حکومت کا تختہ الٹا توبظاہر ان کے ارادے میں بھی پھانسی شامل نہیں تھی لیکن بقول جنرل چشتی جب بھٹو صاحب کو رہائی ملی اور انہوں نے عوامی جلسوں میں جرنیلوں کو پھانسی چڑھانے کا اعلان کرنا شروع کیا تو جنرل ضیا الحق کاارادہ بدل گیا کیونکہ محاورے کی زبان میں اب قبرایک تھی اور امیدوار دو۔ جنرل ضیاالحق نے بھٹو کو پھانسی چڑھایاتو خود بھی ہوا میں بکھر گیا۔ اگر وہ زندہ رہتا تو بہرحال ایک نہ ایک دن آئین کے سیکشن چھ کے تحت سنگین غداری کامجرم ٹھہرتا۔ سیکشن چھ کے محض سجاوٹی کھلونا بننے کانتیجہ یہ نکلا کہ جنرل پرویز مشرف اور اس کے ساتھیوں نے ایک منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر وزیراعظم کو نہ صرف جیلوں میں ڈالا بلکہ اس کی توہین بھی کی اورٹارچر بھی دی۔ گورنر جنرل غلام محمد نے 1954میں دستورسازاسمبلی منسوخ کی تو اسے نہ صرف کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان کی حمایت حاصل تھی بلکہ چیف جسٹس منیر کی بھی اشیرباد حاصل تھی۔ وہیں سے نظریہ ٴ ضرورت نے جنم لیا۔ جب ایوب خان نے جمہوری حکومت کا خاتمہ کیا تواسے بھی چیف جسٹس منیر کی حمایت حاصل تھی چنانچہ جسٹس منیرایوب خان کی آمرانہ کابینہ میں باقاعدہ وزیر قانون بن گیا اور اس کے قانونی ضمیرمیں ذرہ بھی خلش پیدانہ ہوئی۔ اب حالات بدل چکے۔ نظریہ ٴ ضرورت دفن ہوچکا ہے۔ عدلیہ آزاد اور مضبوط ہوچکی ہے اور قانون کی حاکمیت قائم کرنے کے لئے کمربستہ ہوچکی ہے۔ سپریم کورٹ فیصلہ دے چکی ہے کہ جوجج کسی فوجی آمر کے اقدامات کی حمایت کرے گا وہ بھی آئین شکنی کا مرتکب ہوگا اور آئین کے سیکشن چھ کے تحت سزاوار ہوگا۔ پارلیمینٹ فوجی مداخلت کے خلاف قرارداد پاس کرچکی ہے اور مطالبہ کرچکی ہے کہ آئین شکن جرنیلو ں پر سیکشن چھ کے تحت مقدمات چلائے جائیں۔ میڈیا آزاد ہو کر قوم کی زبان اور قوم کا ضمیر بن چکا ہے۔ فوج سیاست سے علیحدہ ہوچکی ہے اور بظاہر سیاسی عزائم سے تائب ہونے کا اعلان کرچکی ہے۔ اس لئے آئین کے سیکشن چھ پر عمل کرنے کا یہ بہترین وقت اور مناسب موقعہ ہے اور اگرموقعہ کو گنوا دیا گیا تو پھر آئندہ فوجی مداخلت اور آئین شکنی کاراستہ بند کرنا ممکن نہیں رہے گا۔ میرے نزدیک یہ مکافات ِ عمل سے کہیں زیادہ عبرت کا مقام ہے اور اگر عبرت کی مثال قائم نہ کی گئی توتاریخ کے دھارے کارخ موڑنا ممکن نہیں ہوگا ۔ بقول مرشدی اقبال فطرت اور تاریخ ان قوموں کو کبھی معاف نہیں کرتی جو خود اپنی حالت بدلنے کے لئے جدوجہد نہیں کرتیں۔
تازہ ترین