• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

روز آشنائی … تنویرزمان خان، لندن

سعودی عرب پاکستان کا دیرینہ، قابل اعتماد اور آزمودہ دوست ملک ہے لیکن ملکوں کی دوستیاں کبھی بھی ذاتی دوستیوں کی طرح نہ توfor grantedہوتی ہیں اور نہ ہی بے لوث، ویسے تو خیر کوئی بھی دوستی بے لوث نہیں ہوا کرتی۔ گزشتہ دنوں کشمیر کے مسئلے پر سعودی عرب اور او آئی سی کے پاکستان کے ساتھ نہ کھڑے ہونے پر ناراضگی کا جو اظہار پاکستان نے کیا اور پھر سعودی عرب کا جو ردعمل آیا، اس نے دونوں ممالک کے تعلقات میں کشیدگی ظاہر کی ہے لیکن مسئلہ کشمیر پاک، سعودی تعلقات کی اصل وجہ ناراضگی نہیں لگتا، نہ ہی یہ کوئی واحد وجہ ہوسکتی ہے، اصل وجوہات بھی جاننے کی کوشش کرتے ہیں، انڈیا کو اپنے حصے میں موجود مقبوضہ کشمیر کو انڈین صوبے کا خصوصی درجہ دیتے ہوئے ایک سال مکمل ہوگیا ہے۔ اس کے ردعمل میں پاکستان نے انڈیا کی اس جارحیت پر عالمی رائے عامہ کو اپنے حق میں اور انڈیا کے خلاف منظم کرنے کی مہم چلائی۔ اس سلسلے میں پاکستان مسلم ممالک اور خصوصاً سعودی عرب سے جو امیدیں لگائے بیٹھا تھا وہ پوری نہیں ہوئیں جس پر پاکستان کے وزیر خارجہ کی جانب سے کھلے عام سعودی عرب اور او آئی سی کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے ہم خیال ممالک کی کانفرنس بلانے کا عندیہ دیا جس پر سعودی عرب کا ردعمل شدید تھا۔ انہوں نے پاکستان کو3ارب ڈالر کی دی گئی امداد کی واپسی کا مطالبہ کردیا جس کا بڑا حصہ کچھ پاکستان نے خود اور کچھ چین سے قرضہ لے کر سعودی عرب کو واپس بھی کردیا ہے۔ عام طور پر کہتے ہیں کہ اگر رشتوں میں لیا دیا واپس ہونا شروع ہوجائے تو سمجھو کہ رشتہ ٹوٹ چکا ہے۔ بیچ میں ایسا سننے کو بھی ملا ہے کہ سعودی عرب نے پاکستان کو دھمکی دی ہے کہ وہ سعودیہ میں موجود پاکستانیوں کو واپس بھیج دے گا۔ یقیناً دھمکیاں محض کشمیر ایشو پر پاکستان کی امیدوں پر پورا نہ اترنے پر نہیں ہوسکتیں۔ دراصل اس کے پیچھے پاکستان کا چینی کیمپ کی طرف بڑھتا ہوا جھکائو ہے۔ سعودی عرب کے لیے اس سے بھی بڑھ کر ایران کی طرف پاکستان کا جھکائو ہے۔ امریکہ کو اس بات کی بے حد تکلیف ہے کہ ایران اور پاکستان چینی کیمپ میں ایک دوسرے کے قریب ہورہے ہیں اور بہت بڑی چینی سرمایہ کاری دونوں کو قریب تر لا رہی ہے۔ دراصل یہی محرکات ہیں جو سعودی عرب کو پریشان کیے ہوئے ہیں، حال ہی میں پاکستان میں سعودی سفیر نے جنرل قمرباجوہ سے بھی ملاقات کی ہے۔ آئیے تھوڑا سا سعودی سوسائٹی کا جائزہ لیں تاکہ اس کی روشنی میں سعودیہ کی انٹر نیشنل اسٹینڈنگ کو سمجھ سکیں۔ اس وقت سعودیہ میں26لاکھ پاکستانی ہیں جوکہ محنت، مزدوری کر کے سعودی معیشت اور ترقی میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ اسی طرح امارات میں16لاکھ اور اومان میں ڈھائی لاکھ پاکستانی ہیں، قطر میں ایک لاکھ پچیس ہزار پاکستانی ہیں۔ یہ ریاستیں امریکی کیمپ کے بااعتماد مہرے ہیں۔ اس وقت سعودی عرب دنیا کا تیسرا بڑا دفاعی بجٹ رکھتا ہے یعنی امریکہ اور چین کے بعد اس کا نمبر ہے لیکن سعودی فوج اس قابل نہیں کہ وہ اس جدید ترین اسلحے اور فضائیہ کو استعمال کرسکے۔ اس کے لیے سعودیہ نے ہمیشہ غیر ملکی فوجیوں پر انحصار کیا ہے۔ پاکستانی فوجی بھی یہ خدمات سرانجام دیتے رہتے ہیں۔ یہی چیزیں پاکستان کی جانب سعودی اعتماد کا سبب ہیں لیکن ریاستی اور عالمی مفادات اور وابستگیاں ان چیزوں سے بالاتر ہوتی ہیں۔ عرب ویسے بھی لیبر فورس کو اپنا غلام یا خدمت گار ہی سمجھتے ہیں۔ وہاں جاکر پتہ چلتا ہے کہ ہم پاکستانیوں کی وہاں کیا حیثیت ہے۔ پاکستانی فوجی ہمیشہ سے سعودی فوج کی ٹریننگ اور مشاورتی ذمہ داریاں نبھاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہر طرح کے اقتصادی یا فوجی معاہدات اور امداد وغیرہ کی اصل ضمانتیں بھی سول حکمرانوں کی بجائے ان ہی سے لی جاتی ہیں۔ اب تھوڑا سا سعودی سوسائٹی اور قوانین کے بارے میں بھی جان لیجئے۔ سعودی عرب میں بادشاہت ہے، جہاں فرد واحد یعنی بادشاہ کی زبان سے نکلا ہوا لفظ قانون اور ہاتھ کا اشارہ کسی کی زندگی پر بھاری ہوتا ہے۔ سعودی عرب میں ہر طرح کے عریاں لٹریچر، کتب، میگزین، عورتوں کے فیشن میگزین یا سعودی حکمران خاندان کے بارے میں کسی قسم کی تنقید یا لٹریچر پر سخت پابندی ہے۔گزشتہ برس تک غیر شادی شدہ جوڑے سعودی ہوٹلوں میں نہیں رہ سکتے تھے نہ ہی کوئی اکیلی لڑکی یا عورت ہوٹل میں رہ سکتی تھی،جوڑے کو ہوٹل کا کمرہ لینے کے لیے ثابت کرنا پڑتا تھا کہ وہ شادی شدہ ہیں۔ اس وقت سعودی عرب میں کوئی چرچ نہیں ہے۔ عیسائی وغیرہ صرف پرائیویٹ طور پر کسی بند جگہ میں اکٹھے ہوسکتے ہیں۔ سعودیہ میں کسی غیر سعودی کو عرب نیشنلٹی نہیں مل سکتی۔ خواہ اسے وہاں جتنے بھی سال یا دہائیاں رہتے ہوئے ہوچکے ہوں۔ اگر سعودی عورت کسی غیر سعودی سے شادی کرلے تو اس کے شوہر کو تاحیات عربی شہریت نہیں ملتی۔ اسے عورت کے اقامے پر ہی رہنا پڑتا ہے۔ سعودیہ میں کوئی شخص نہ تو سیاسی پارٹی بنا سکتا ہے، نہ ہی کسی قسم کے سیاسی نظریات کا پرچار کرسکتا ہے۔ سعودی حکومت یا نظام کے خلاف کسی قسم کی بات خطرناک جرم ہے۔ کسی عربی کے غیر عربی کے ساتھ لین دین کے تنازعات میں عدالتوں کا کھلا جھکائو اور طرف داری سعودی کی جانب ہوتی ہے۔ وہاں کسی بھی جرم میں گرفتاری کی صورت میں پولیس پر لازم نہیں کہ وہ فوری طور پر عدالت میں پیش کرے، اس لحاظ سے سعودی سوسائٹی خاصی دلچسپ ہے، لیکن عالمی سیاست میں ان کے اصل مربی امریکی ہیں۔ جن کے کہنے پر سعودی کسی بھی ملک سے دوستی بھی بڑھاتے ہیں اور دشمنی بھی کرتے ہیں۔ اسی لیے پاکستان کے ساتھ تعلقات میں بھی ان کے لیے امریکی دوستی اور مفادات اولین حیثیت رکھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو سعودی عرب کے ساتھ محتاط سفارت کاری کی ضرورت ہے۔

تازہ ترین