• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈیٹ لائن لندن … آصف ڈار

آزادی کتنی بڑی نعمت ہے اور اس کی کیا اہمیت ہے، اس بات کا اندازہ ان اقوام کو ہی ہوتا ہے جو اس سے محروم ہیں اور کسی نہ کسی ملک کی محکوم ہیں،برصغیر کے خطے میں اس حقیقت کو شاید مظلوم کشمیریوں سے زیادہ بہتر طور پر کوئی نہیں جان سکتا، جب کہ مشرق وسطیٰ میں فلسطینی اور ادھر میانمار کے روہنگیا مسلمان بھی اس بنیادی ضرورت سے محروم ہیں جب کہ اس وقت اگر دیکھا جائے تو غاصبانہ قصبہ کے حوالے سے سب سے زیادہ مسائل مقبوضہ کشمیر میں ہیں اور انڈیا کے مسلمانوں کو بھی درپیش ہیں۔ انڈین مسلمانوں سے ہندو انتہا پسند حکومت یہ کہہ رہی ہے کہ وہ ثابت کریں کہ وہ انڈیا کے شہری ہیں، اس طرح ان مسلمانوں کو اپنے ہی ملک میں بے وطن کردیا گیا ہے، جب کہ مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں سے کہا جارہا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اپنا حق آزادی نہ مانگیں، بلکہ مودی کی فاشٹ حکومت نے تو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اس کو انڈیا کے اندر شامل کرلی اہے اور ایک سال کے دوران لاکھوں انڈین ہندوئوں کو مقبوضہ کشمیر میں سکونت دے دی ہے جس کا مقصد مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کو اقلیت میں تبدیل کرنا ہے تاکہ اگر کسی وقت انڈین حکومت کشمیریون کو حق خورادیت دینے کے لئے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد پر ’’راضی‘‘ ہوجائے تو ان ہندوئوں کے ووٹوں کے ذریعے رائے شماری کے نتائج اپنے حق میں کرالے،البتہ اقوام متحدہ یقیناً اس صورتحال سے آگاہ ہے اور خود کشمیری یا پاکستانی آباد کار ہندوئوں کے ووٹوں کو تسلیم نہیں کرے گا، تاہم یہ اس وقت ہوگا جب انڈیا رائے شماری کے لئے حامی بھرے گا، وہ تو آزاد کشمیر پر بھی اپنا حق جماتا ہے اور بار بار اس پر قبضہ کرنے کی دھمکیاں دے چکا ہے۔ اس کے جاسوس ڈرون آئے روز پاکستانی فوج گراتی چلی آرہی ہے۔ اس نے ایک برس سے زیادہ عرصہ سے مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈائون کررکھا ہے، ذرا سی نرمی ہوتی ہے تو کشمیری سڑکوں پر نکل آتے ہیں، وہاں پر شاید ہی کوئی ایسا گھر ہو جو اس سے شدید متاثر نہ ہوا ہا مگر جذبہ آزادی ہے کہ دن بدن بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔ انڈیا کی ہندو انتہا پسندانہ پالیسیوں کا ایک مثبت پہلو یہ ضرور نکلا ہے کہ کچھ عرصہ پہلے تک بہت کم کشمیری ایسے تھے جو پاکستان کے حق میں نعرے لگاتے تھے اور کشمیر بنے گا پاکستان کہتے تھے۔ شاید ان کو یہ خوف تھا کہ اگر انہوں نے ایسے نعرے لگائے تو انڈین فوج انہیں گرفتار کرلے گی، ان پرپیلٹ گنوں سے حملے کرے گی، انہیں شہید کردے گی؟ مگر اب انڈین آرمی یہ سب کچھ کررہی ہے اور کشمیری یہ سب نہ صرف اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں بلکہ اس کو برداشت بھی کررہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب کرفیو میں تھوڑی سی نرمی ہوتی ہے تو لوگ پاکستانی پرچم لہراتے اور کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے لگاتے سڑکوں پر نکل آتے ہیں، انہیں معلوم ہے کہ اس سے مودی، ان کے انتہا پسند ساتھیوں اور فوجیوں کو تکلیف ہوتی ہے، وہ اپنے نعروں کے ذریعے انہیں ٹارچر کرتے ہیں دوسری طرف یہ امر بھی تکلیف دہ ہے کہ ایک سال کے اندر اندر انڈیا نے مقبوضہ کشمیر کا نقشہ ہی بدل دیا ہے۔ پاکستان اور انڈیا کی ثالثی کرانے کے دعوے کرنے والا امریکہ آگے آیا نہ مسلمانوں کا دم بھرنے والے عرب ممالک میں سے کسی نے زبان کھولی، پاکستان نے بھی اپنی طرف سے ’’دوڑیں‘‘ لگائیں مگر عملی طور پر صرف یہ کیا کہ جموں و کشمیر کو اپنے نقشے کا حصہ بنالیا؟ چنانچہ اب عملاً مقبوضہ کشمیر انڈیا کے پاس ہے مگر نقشے میں ہمارے پاس بھی ہے۔ جنرل اسمبلی میں ایک اور آزادکشمیر اسمبلی میں دو تقریروں کے سوا ملک کے سربراہ نے بین الاقوامی سطح پر کوئی سفارتی مہم جوئی کی ہی نہیں۔ وہ کشمیر کا مقدمہ لے کر امریکہ کے پاس گئے تھے جس کا صدر مودی کا گہرا دوست ہے، وہاں سے ایران اور سعودی عرب کے درمیان ثالثی کا ’’ٹاسک‘‘ لے کر آگئے۔ کشمیر وہیں کا وہیں رہا، 5اگست کو ایک بار پھر حکومت نے اپنے پاکستانی میڈیا پر خوب شور ڈالا، انڈیا کے وزیراعظم اور فوج کو خوب ’’بدعائیں‘‘ دیں مگر اب ’’دعائوں، بدعائوں‘‘ میں بھی اثرنہیں رہا شاید۔ آج پاکستانی قوم جشن آزادی منا رہی ہے یقیناً یہ اس کا حق ہے کیونکہ یہ وطن لاکھوں قربانیوںسے حاصل کیا گیا ہے مگر سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ جس قائداعظم نے ہمیں یہ ملک حاصل کرکے دیا، کیا ہم نے ان کے بتائے ہوئے اصولوں پر عمل کیا، کیا ہم اس ملک کو ایک فلاحی ریاست بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں، قائداعظم نے تو کہا تھا کہ پاکستان رنگ و نسل اور مذہب کے بغیر سب کا ملک ہے۔ اس میں ذات پات اور مذہب کی بنیادوں پر کسی کے ساتھ امتیازی رویہ روا نہیں رکھا جائے گا۔ قائداعظم نے یہ بھی کہا تھا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے کیا ہم نے اس کی حفاظت کی۔

تازہ ترین