• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہماری قوم کی یادداشت اس محبوبہ کی طرح کچّی ہے جسے اپنے عاشق کی کوتاہیاں تو یاد رہ جاتی ہیں مگراس کی دیوانہ وار محبت بھول جاتی ہے ۔اسی طرح ہمیں حکومتوں کے برے کام دو کے پہاڑے کی طرح یادرہتے ہیں مگر اچھے کام انیس کے پہاڑے کی طرح بھول جاتے ہیں۔ یقین نہیں آتا تو 2008کی اسمبلی کی کارکردگی دیکھ لیں۔ میڈیا اور حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ تقسیم کرنے والوں نے ہمیں گزشتہ قومی اسمبلی کی نا اہلی اورنالائقی کی داستانیں تو طوطے کی طرح رٹا دیں مگراسی اسمبلی نے جو تاریخ رقم کی اس کا ذکر کرتے ہوئے ہمیں نئی نویلی دلہن کی طرح شرم آتی ہے (اب تو دلہنیں بھی نہیں شرماتیں)۔ یہ تاریخ کیا ہے، اس کے لئے ہمیں ان سوالات کا جواب تلاش کرنا ہوگا جو آج کل مارکیٹ میں ہاٹ کیک کی طرح بک رہے ہیں اور ان میں سے ہر سوال اپنی جگہ ایک million dollar questionہے ۔
سوالات کچھ اس قسم کے ہیں ۔ کیا جنرل (ر) پرویز مشرف پر 12اکتوبر 1999ء کی بغاوت کا مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا ؟کیا 12اکتوبر1999ء کی بغاوت کوظفر علی شاہ کیس میں جائز قرار نہیں دیا جا چکا ؟ اور اگر ایسا ہی ہے تو کیا مقدمہ چلانے کی صورت میں اعلیٰ عدلیہ بھی اس کی لپیٹ میں نہیں آ جائے گی؟کیا ان پر صرف 3نومبر 2007 کا مارشل لا لگانے کے جرم میں دستور کی شق 6کے تحت بغاوت کا مقدمہ چلایا جا سکتا ہے ؟ کیا 3نومبر کی نام نہاد ایمرجنسی کا فیصلہ پرویز مشرف کے اکیلے کا تھا یا اس میں فوجی قیادت بھی شامل تھی ؟
گزشتہ قومی اسمبلی کا سب سے بڑا کارنامہ اٹھارہویں آئینی ترمیم تھی جس کے لئے بلاشبہ یہ اسمبلی خراج تحسین کی مستحق ہے ۔ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ یہ ہوا کہ قانونی طور پر منتخب اسمبلی نے ایک فوجی آمر کی آئین شکنی کو قانونی جواز فراہم نہیں کیا۔اس سے پہلے 1985کی نام نہاد اسمبلی جنرل ضیاء الحق کے غیر آئینی اقدامات پر انگوٹھا لگا چکی تھی، یہ وہ اسمبلی تھی جس کے بارے میں ہمیں بچپن سے رٹایا جاتا ہے کہ اس اسمبلی نے ایک ایک آئینی شق پر گھنٹوں بحث کی اور ڈکٹیٹر کو بے حد ٹف ٹائم تھا جبکہ شرمناک تاریخ یہ ہے کہ جنرل ضیاء الحق نے اپنے دور آمریت میں 96مرتبہ آئین پر حملہ کر کے اس کی شکل بگاڑی اور 1985کی اسمبلی نے اس پر مہر تصدیق ثبت کی۔ ثبوت کے طور پر شق 270Aآئین میں موجود ہے۔ اس کے مقابلے میں گزشتہ اسمبلی نے اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے آئین میں شق 270AA شامل کی جو کچھ یوں ہے :

The Proclamation of Emergency of the fourteenth day of October, 1999, the Provisional Constitution Order No. 1 of 1999, the Oath of Office (Judges) Order, 2000 (No. 1 of 2000), Chief Executivce's Order No. 12 of 2002, Chief Executive's Order No. 19 of 2002, the amendments made in the Constitution through the Legal Framework Order, 2002 (Chief Executive's Order No. 24 of 2002), the Legal Framework (Amendment) Order, 2002 (Chief Executive's Order No. 29 of 2002) and Legal Framework (Second Amendment) Order, 2002 (Chief Executive's Order No. 32 of 2002), notwithstanding any judgment of any court including the Supreme Court or a High Court, are hereby declared as having been made without lawful authority and of no legal effect.
اس ترمیم کے نتیجے میں تین باتیں ہوئیں۔ پہلی، پارلیمنٹ نے دو ٹوک انداز میں پرویز مشرف کے 12اکتوبر1999سے لے کر 31اکتوبر2003ء کے تمام اقدامات غیر آئینی قرار دئیے ۔دوسری،اس ضمن میں کسی بھی عدالت کا کوئی بھی فیصلہ ان اقدامات کو جائز ثابت نہیں کر سکتا یعنی آج کی تاریخ میں ظفر علی شاہ کیس گویا موجود ہی نہیں ۔
تیسری،پارلیمنٹ نے فوجی آمر کے دور میں کئے گئے وہ اقدامات بھی مٹا دئیے جو انتخابات، پارلیمنٹ کی نشستوں،بی اے کی ڈگری،بلدیاتی حکومتوں وغیرہ سے متعلق تھے اور نئے سرے سے دستور میں شامل کر کے انہیں پچھلی تاریخ سے قانونی حیثیت دی تاکہ آئین میں فوجی آمر کے ہاتھ سے کی گئی کسی ترمیم کا نشان باقی نہ رہے ۔یہاں یہ بات بھی ہم بھول چکے ہیں کہ اس سے پہلے سترہویں ترمیم کے ذریعے پرویز مشرف صاحب ایم ایم اے کے ” صالحین“اورمشاہد حسین اورایس ایم ظفر جیسے ”مجتہدین“ کی مدد سے اپنے تمام غیر آئینی اقدامات کو بھی جائز قرار دلوا چکے تھے ۔اس سترہویں ترمیم کو بھی گزشتہ پارلیمنٹ نے اٹھا کر کوڑے دان میں ڈال دیا جو اس کی صحیح جگہ تھی۔ایک اور بات بھی خاصی دلچسپ ہے کہ عدلیہ اپنے 31/جولائی 2009کے فیصلے میں یہ کہہ چکی ہے کہ پارلیمنٹ کو کسی بھی صورت میں غیرآئینی اقدامات کو تحفظ دینے کا اختیار نہیں، اٹھارہویں ترمیم اسی سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد 19/اپریل 2010 کو منظور کی گئی۔ چنانچہ آج کی تاریخ میں 12اکتوبر 1999کی فوجی بغاوت کا اقدام غیر آئینی ہے جسے پارلیمنٹ نے تحفظ دیا اور نہ ہی عدلیہ کا فیصلہ اس ضمن میں رکاوٹ ہے لہٰذاپارلیمنٹ اور سپریم کورٹ ،دونوں ہی خراج تحسین کے مستحق ہیں۔
اب رہ گئی یہ بات کہ چونکہ جج صاحبان نے پی سی او کے تحت حلف اٹھایا تھا اور 12اکتوبر کے اقدام کو جائز قرار دیا تھا لہٰذا پرویز مشرف کے خلاف 12اکتوبر کے اقدام پرنہیں بلکہ 3نومبر کی ایمرجنسی کے ضمن میں مقدمہ دائر ہوگا تو عرض یہ ہے کہ اسی اٹھارھویں ترمیم میں یہ بھی لکھا ہے کہ جن جج صاحبان نے حلف اٹھایا انہیں آئینی جج سمجھا جائے گا قطع نظر اس بات کے کہ پرویز مشرف کا پی سی او غیر آئینی تھا،سویہ کانٹا بھی نکل چکا ہے ۔آخری بات یہ رہ گئی کہ 3نومبر کی ایمرجنسی پرویز مشرف کا ذاتی فیصلہ تھا یا اس میں فوجی قیادت بھی شامل تھی؟
اس کا جواب بھی خاصا دلچسپ ہے ۔خود پرویز مشرف صاحب نے ایک نیشنل سیکورٹی کونسل بنائی تھی جس کا یہی کام تھا کہ وہ ایمرجنسی کے معاملات میں مشاورت کر کے لائحہ عمل طے کرے۔ 3نومبر کو وہ نیشنل سیکورٹی کونسل پوری آ ب و تاب کے ساتھ موجود تھی مگر موصوف نے اس کا اجلاس بلانے کی بجائے ایک میٹنگ بلائی اور پھر ایک اعلامیہ جاری کیا جس میں لکھا کہ
I, General Pervez Musharraf, Chief of the Army Staff, proclaim Emergency throughout Pakistan.
یہ دلیل دینا کہ اگر پرویز مشرف پر مقدمہ چلا تو ایک پنڈورا باکس کھل جائے گا جس میں فوجی قیادت بھی ملوث ہوگی،عذر گناہ بد تر از گناہ والی بات ہے ۔پرویز مشرف نے بطور آرمی چیف ایک غیر آئینی اقدام کیا اور وہی ذمہ دار ہیں،کسی ماتحت پر اس کی ذمہ داری ڈال کر معاملات کو الجھایا نہیں جاسکتا۔ مشہور زمانہ Murphy's Law کہتا ہے کہ ”If anything can go wrong, it will.“پرویز مشرف کے کیس میں یہ قانون پوری طرح لاگو ہو چکا ہے!
تازہ ترین