• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام آباد میں تعمیرات کیلئے انوائرمنٹل ایجنسی کی منظوری لازمی قرار

اسلام آباد میں تعمیرات کیلئے انوائرمنٹل ایجنسی کی منظوری لازمی قرار


اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں تعمیراتی پراجیکٹس کے لیے انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی کی منظوری لازمی قرار دے دی۔

عدالتِ عالیہ نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ کوئی بھی تعمیراتی منصوبہ انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی کی منظوری کے بغیر شروع نہ کیا جائے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں ماحولیاتی آلودگی سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کی۔

دورانِ سماعت انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی، وفاقی نظامتِ تعلیمات اور سی ڈی اے کے نمائندے عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔

سی ڈی اے کی طرف سے وکیل افنان کریم کنڈی اور حسنین حیدر تھہیم عدالت میں پیش ہوئے۔

چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اسلام آباد میں سی ڈی اے ماحولیاتی قوانین مکمل خلاف ورزی کر رہی ہے، سی ڈی اے نے دارالحکومت میں نیشنل پارک کو بھی تباہ کر دیا۔

انہوں نے کہا کہ نیشنل پارک سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے، سی ڈی اے اس کا بھی خیال نہیں رکھتی، سی ڈی اے نے جو گورننس کا حال کر دیا ہے وہ بہت افسوس ناک ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ جن کی شہریوں کی حفاظت کی ڈیوٹی ہے وہ تمام قانون شکن بنے ہوئے ہیں۔

چیف جسٹس نے انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی حکام سے کہا کہ آپ کے ادارے کے ہوتے ہوئے سب کچھ ہو رہا ہے، کیا آپ سو رہے ہیں؟ آپ مستقبل کی نسل کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ صرف یہ بتادیں کہ قانون کے مطابق آپ کی کچھ ذمے داریاں ہیں، آپ کے قانون کے مطابق قانون شکن کے لیے سزائیں موجود ہیں۔

انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی حکام نے عدالت کو بتایا کہ سیکشن 16 ون کے تحت ہم ماحولیاتی قانون کی خلاف ورزی کرنے والے کو نوٹس جاری کرتے ہیں۔

چیف جسٹس نے انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی حکام پر اظہارِ برہمی کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے پاس از خود اختیارات بھی ہیں، اگر یہی کرنا ہے تو گڈ گورننس کے لیے جو قوانین ہیں پھر ان کو ختم ہی کر دیں۔

انہوں نے کہا کہ کئی فیصلوں میں لکھ چکے ہیں، یہاں بااثر افراد کے لیے کوئی قوانین نہیں، ہا ئی کورٹ اور ڈسٹرکٹ کورٹ میں کیسز کا بیک لاگ گورننس کے نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ یہاں قانون صرف اس کے لیے ہے جو کمزور ہے، ریاست عوام کی کوئی خدمت نہیں کر رہی، وہ سب کچھ ایلیٹس کے لیے کرتی ہے، بڑوں کے لیے کہا جاتا ہے کہ ریگولرائز کر دیں، کمزور کو یہ سہولت میسر نہیں، پھر تو وفاقی حکومت کو بلا کر پوچھ لیتے ہیں کہ ماحولیاتی تحفظ کے لیے کام کیوں نہیں ہو رہا۔

سی ڈی اے کے وکیل افنان کریم نے کہا کہ یہ انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی کا کام ہے، اس ادارے کو اپنا کام کرنا چاہیے، 50 برس پہلے یہاں کے نالوں میں ہم نہاتے تھے آج تو ان سے بو آتی ہے۔

یہ بھی پڑھیئے:۔

ماحولیاتی آلودگی کیس، وفاقی حکومت کیخلاف فیصلہ محفوظ

چیف جسٹس نے کہا کہ جس ادارے نے ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانا ہے وہ کہتا ہے کہ ہمارے پاس اسٹاف پورا نہیں، اب اس عدالت کو یہ سوچنا ہے کہ کیوں نہ ان کے خلاف 307 کے پرچے کیئے جائیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ وفاقی حکومت کی مجرمانہ غفلت ہے، وزارتِ موسمیاتی تبدیلی نے تو یہ نہیں کرنا، اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد تو وفاقی حکومت کو 1400 اسکوائر میل کا علاقہ دیکھنا ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ وزیرِ اعظم کے معاونِ خصوصی امین اسلم اور سیکریٹری موسمیاتی تبدیلی کو بلا کر پوچھ لیتے ہیں، اسلام آباد میں ماحولیاتی قوانین پر عمل درآمد کے بغیر کوئی پروجیکٹ شروع نہیں ہو گا۔

عدالتِ عالیہ نے معاونِ خصوصی ملک امین اسلم اور سیکریٹری موسمیاتی تبدیلی کو آئندہ سماعت پر ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا۔

چیئرمین سی ڈی اے عامر علی احمد کو بھی اسلام آباد ہائی کورٹ نے 22 اگست کو ذاتی حیثیت میں طلب کیا ہے۔

عدالت نے انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی کو آزادحیثیت میں ایکٹ کے مطابق کارروائی کی ہدایت کر دی۔

چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم اس وقت ایسی اسٹیج پر پہنچ چکے ہیں کہ احتساب کا عمل شروع ہونا چاہیے۔

تازہ ترین