• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

19ویں صدی میں کارل مارکس نے مذہب کو اسی لئے ترک کر دیا تھا کہ اس کی غلط تشریح کرنے والوں نے اپنا پیٹ بھرنے کے لئے تقدیر کے لفظ کا سہارا لے کر دنیا کی ایک بڑی آبادی کا استحصال کیا اور کمزور انسانوں کو ’’تقدیر‘‘ کے لفظ کی مذہبی تاویلات میں الجھا کر اپنا الّو سیدھا کیا، مارکس کا فلسفہ تھا کہ تقدیر کی نادرست توجیہہ کرنے والوں کی تجوریاں بھری جائیں یا انسانوں کا پیٹ بھرنے کے لئے روٹی کو اہمیت دی جائے، مارکس سے کچھ عرصہ پہلے بھی یورپ کے بورژ وائی طبقہ نے سائنسی تحقیق کو بڑھانے اور محنت سے دولت کمانے کے لئے کیتھولک مذہب کو زندگی کے کاروبار سے نکال دیا، چرچ کو اس کی دیواروں تک محدود کر دیا اور کلیسائی قانون کو چھوڑ کر سیکولر رویہ اپنایا یہی وہ دور تھا جب مغربی و اشتراکی معاشروں نے جاری ’’اسٹیٹس کو‘‘سے مختلف رویہ اختیار کرتے ہوئے اپنے زور بازو پر بھروسا کیا اور بے جا مذہبی قوانین ختم تو کئے لیکن تھوڑی بہت حدود و قیود کے ساتھ کسی حد تک مذہبی اداروں کو ’’زندہ‘‘ رہنے کی اجازت دی لیکن بعد ازاں اشتراکیت کی بڑھتی ہوئی رو نے مذہب پر کلیتاً پابندی لگا دی۔ مغربی و اشتراکی فلسفہ دونوں نے اس بات پر زور دیا کہ تقدیر پر قناعت کرنے کا درس دے کر عام لوگوں کی صلاحیتوں کو بانجھ نہ کیا جائے۔ ان دونوں نے اس بات کو بھی رواج دیا کہ کلچر اور مذہب دو علیحدہ چیزیں ہیں اس لئے زندگی گزارنے کے طریقے و قوانین یہ بات ذہن میں رکھ کر بنائے جائیں کہ مذہب کو ایک سائیڈ پر رکھ کر معاشرے کی بہتری کے لئے قانون بناتے وقت اخلاقی قدروں اور دیگر رشتوں کے استوار کرتے وقت زمینی حقائق کو مدنظر رکھا جائے۔

ماضی قریب میں آج کے جدید معاشروں نے بڑی سیر حاصل بحث کی کہ کیا مذہب کی موجودہ صورت ’’تقدیر‘‘ کی درست تاویل کرتی ہے یا اسے اپنے مقاصد اور مفادات کے لئے استعمال کرتی ہے اور حُب الوطنی کا جوش دلا کر مخالفین سے لڑوانا اس کا محبوب مشغلہ ہے؟ یعنی اگر غریب و مجبور آدمی اپنے حالات کی بہتری اور معاشی خوشحالی کے لئے سوچے بھی تو اسے یہ بتا کر خاموش کر دیا جائے تمہارے حالات جو بھی ہیں یہ قدرت کی رضا کے مطابق ہیں اس لئے صبر کرو اور قناعت کر کے شکر ادا کرو بلکہ خود سے اوپر کی بجائے نیچے کی طرف دیکھو کیونکہ یہی تمہارے حصے کی تقدیر ہے، جو لکھ دی گئی ہے۔ اسی طرح جب کوئی مجبور و بے کس، ظالموں کے خلاف آواز اٹھائے تو اسے قسمت کا لکھا کہہ کر خاموش کر دیا جائے لہٰذا کیا یہی طریقۂ واردات نہیں جو استحصالی طبقہ استعمال کرتا ہے چنانچہ میرے اپنے خیال کے مطابق تو طبقاتی کشمکش کی سب سے بڑی وجہ ’’تقدیر‘‘ ہی نظر آتی ہے کیونکہ یہی وہ واحد فلسفہ ہے جس نے ذات پات اور امیر و غریب طبقہ میں تقسیم کر رکھی ہے اسی ایک تاویل نے عام آدمی کو ہزار ہا برس سے دکھوں اور تکلیفوں کے باوجود خاموش رہنے پر مجبور کیا، اس قوم و مذہب میں پسماندہ عوام کو لایعنی رسومات میں الجھا کر ان کی زندگیوں کو سرطان کی طرح دکھائے رکھا انہیں بتایا کہ تم دنیا میں جتنی تکلیف اٹھائو گے تمہیں مرنے کے بعد اس کا صلہ بڑی بہترین زندگی کی صورت ملے گا، لیکن اس کے برعکس چالاک و صاحب ثروت طبقہ عیش و عشرت کی زندگیاں بسر کرتا ہے اور وہ یہ سب ظلم و استبداد اور جبر کے ہتھکنڈے استعمال میں لا کر، کرتا ہے۔

پیغمبر اسلام ﷺ سمیت دنیا میں جتنے بھی مصلحین آئے وہ لوگوں کو یہی تلقین کرتے رہے کہ اپنے مال میں سے غریبوں اور محتاجوں کی مدد کرو، کمزوروں پر ظلم نہ کرو، بت پرستی چھوڑ دو، انبیاء کرامؑ ہوں ،چین کا مصلح کنفیوشس ہو، ہندو مت کے تمام ہیروز ہوں یا مہاتما بدھ ہوں ان سبھی نے اچھائی کی تبلیغ ہی کی۔ سوال یہ ہے کہ اگر تقدیر کے لکھے کو پہلی، آخری یا حتمی سچائی سمجھ لیا جائے تو پھر آگے بڑھنے، پیچھے ہٹنے اور جزا و سزا کے حتمی فلسفے بے معنی ہو کر رہ جاتے ہیں کیونکہ پھر سوال اٹھتا ہے کہ کیا انسان سماوی احکام کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو سکتا ہے اگر وہ اپنے طور پر اپنی تقدیر کو بدلنے کی کوشش کرے؟ پاکستان سمیت دورِ حاضر کے مختلف معاشروں میں نوع انسانی کی فطری تقسیم و تقاضوں کی تنزلی اور دیگر بنیادی سہولتوں کی سلبی کی وجہ سے عوام الناس کے پست معیار زندگی پر نگاہ کی جائے تو پاکستانی معاشرے کا شمار پست ترین معاشروں کی لسٹ میں چند آخری نمبروں پر ہوتا ہے، مذہب اور ریاست کے گٹھ جوڑ نے طبقاتی تقسیم کو بڑھاوا دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے چنانچہ اسی روش نے پاکستان سے مڈل کلاس طبقے کو بالکل غائب کر دیا ہے لہٰذا اب یہاں دو ہی طبقے رہ گئے ہیں ایک بہت امیر اور دوسرا نان و نفقہ کے حصول کی جدوجہد کرتا غریب تر طبقہ۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں انتشار، غصہ، نفرت اور حسد کی زیادتی اور برداشت ختم ہو چکی اور جرائم کی شرح کا گراف بڑھ چکا ہے۔

یقیناً یہ روش جو تقدیر کے نام پر احتسابی طبقہ کمزور طبقے کے ساتھ رکھتا ہے یہ فقط پاکستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں ایک خاص طبقہ اسی طرح کا رویہ اپنا کر حاکمانہ طرز زندگی اختیار کرتا ہے، حقیقت تو یہ بھی ہے کہ مذاہب و ادیان سے بہت پہلے کے حمو رابی کے قصوں کو چھوڑ بھی دیا جائے تو ان کے بعد آنے والے مصلحین و مصلوبین نے تقدیر کے نام پر ہونے والی طبقاتی تقسیم ختم کرنے کے لئے اپنی اپنی کوششیں ضرور کی ہیں لیکن بدقسمتی سے بدلتے ہوئے زمانے کے ساتھ استحصالی قوتوں نے اپنے طریقوں میں تبدیلیاں کر کے تقدیر پر شاکر رہنے کے ’’نعرے‘‘ کو ہوا دے کر انسان کو جبر کی چکی میں پسنے پر مجبور کیا۔ غلاموں کی تجارت تو ختم ہو گئی لیکن نوع انسانی کو غلامی سے نجات نہ مل سکی اور غلام رکھنے کے جدید طریقے ایجاد کر لئے گئے حکمران اور صاحب ثروت طبقہ سمجھتا ہے کہ وہ کسی دیدہ و نادیدہ قوت کے سامنے جوابدہ نہیں ہے چنانچہ یہ طبقہ اپنی حاکمیت قائم رکھنے کے لئے انسانوں کی محرومیوں کو تقدیر کا لکھا کہہ کر انہیں طبقوں اور گروہوں میں تقسیم کرتا ہے کبھی طاقت کے بل بوتے پر اور کبھی تقدیر اور قسمت کا سہارا لے کر!!

تازہ ترین