• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حال ہی میں پنجاب اسمبلی نے’’تحفظ بنیاد اسلام بل‘‘اس وقت منظور کیا جب صرف انسٹھ ارکان ایوان میں موجود تھے۔اس بل سے ملک بھر میں بالعموم فرقہ وارانہ فسادات کا خدشہ بڑھ گیا لیکن گورنر پنجاب چوہدری سرور نے اس بل کو اسمبلی میں واپس بھیجتے ہوئے کہا ہے کہ اس پر اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔پریشانی کی بات یہ ہے کہ ایوان میں دونوں طرف سے اراکین نے الزام لگایا ہے کہ انہیں اعتماد میں لیے بغیر ہی یہ بل منظور کیا گیا ہے،جس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ قانون سازی جسے عبادت کے طور پہ لیا جانا چاہیے تھا اس کے ساتھ یہ اشرافیہ کیا رویہ روا رکھے ہوئے ہے۔اس بل نے ایک گریڈ 20 کے افسر کو اتنی طاقت دے دی ہے وہ کسی بھی کتاب پر کوئی بھی اعتراض لگاتے ہوئے اس پر پابندی لگا سکتا ہے اور گورنر کی منظوری سے پہلے ہی ان سو کتابوں کی فہرست جاری کر دی گئی جن پر پابندی عائد کی جا چکی تھی۔ایک ایسا معاشرہ جہاں پہلے ہی تحقیق،تنقید اورسوال کرنے کے رجحانات پیدا نہ کیے گئے ہوں وہاں ایسے اقدامات درست نہیں۔ایک طرف طالب علم اقلیتوں کے مذہب ،زبان اور کلچر سے ناواقف رہتے ہیں تو دوسری طرف اقلیتیں عدم تحفظ کا شکار رہتے ہوئے اکثریت کی جانب سے خوف زدہ ہوجاتی ہیں۔ہماری کتابوں میں ہولی،دیوالی اور دوسہرے کے تہواروں کے بارے میں کوئی معلومات مہیا نہیں کی جاتیںیوں یہ بے خبری ہمارے طالب علموں میں تعصب اور نفرت کو پیدا کرنے کا باعث بنتی ہے۔

کہا جا رہا ہے کہ مسلم لیگ ق نے پی ٹی آئی کی پنجاب اسمبلی میں کمزور اکثریت اور قیادت کے فقدان کی وجہ سے یہ قدم اٹھایا تاکہ اپنی سیاسی پوزیشن بہتر کر سکے۔یاد رہے کہ 1953ء میں بھی اسی قسم کے اقدامات کئے گئے تھے جس کی پوری رپورٹ’’منیر انکوائری‘‘میں آج بھی موجود ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح مختلف مکتب فکر کے علماء نے اشتعال انگیز تقریریں کیں،پمفلٹ تقسیم کیے،اخبارات میں بیانات چھپوائے اور جلسے جلوسوں کے ذریعے فساد کی راہ ہموار کی۔ حکومت کو وارننگ دی گئی اور انتظامیہ کو خوف زدہ کیا گیا۔ جسٹس منیر نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ یہ فسادات خواجہ ناظم الدین کی پوزیشن کو کمزور کرنے کے لیے کیے گئے تھے جس سے جمہوریت کے ارتقا کو بہت نقصان پہنچا۔سڑسٹھ سال گزرنے کے باوجود ہم نے آج بھی وہی روش اختیار کی ہوئی ہے۔ یہ دیکھے، سوچے بغیر کہ ان اقدامات کے سماج پر کیا اثرا ت مرتب ہوسکتے ہیں۔

اگر اس تمام عمل کو عمیق نظروں سے دیکھا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے بل کسی قومی مفاد یا دورس حکمت عملی کی وجہ سے منظور نہیں کیا۔ضیاالحق کے دور میں بھی مختلف لسانی تنظیموں کی سرپرستی کی گئی اور سمجھا گیا کہ جن تنظیموں کی پذیرائی کی جا رہی ہے ان کی افادیت ختم ہونے کے بعد ان سے چھٹکارہ بھی حاصل کیا جاسکتا ہے لیکن ہماری ستر سالہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ان لسانی و فرقہ وارانہ تنظیموں نے ریاستی سرپرستی کی بدولت سماج میں اپنی جڑیں اتنی مضبوط کر لیں کہ جن کی وجہ سے پاکستانی سماج اب تک ایک سیاسی تنزلی کی بھینٹ چڑھا ہوا ہے۔پاکستان بننے کے بعد عوام اور طالب علموں کو متبادل بیانیے سے کبھی آگاہ ہی نہیں کیا گیاتاکہ ان میں تنقیدی شعور اجاگر ہی نہ ہو سکے۔آج پاکستان میں متبادل افکار رکھنے والے دانشوروں کیلئے ہمارے نصاب میں کوئی جگہ نہیں رکھی گئی یوں ہر قسم کے متبادل بیانیے کو عوام تک پہنچنے سے روکا گیا ۔ضرورت تو اس امر کی تھی کہ فرد کو مذہبی تنگ نظری سے آزاد کرا کے اسے سیاسی و سماجی طور پر ایک باعزت مقام دلایا جاتا۔ مذہبی تعلیم کے ساتھ ساتھ گرائمر، منطق، ریاضی، جیومیٹری، قانون،ماحولیات اور طب کو نصاب میں شامل کیا جاتا تاکہ اکیسویں صدی میں پاکستانی سماج بھی عالمگیر شعور سے آشنا ہو پاتا۔مگراس پس منظر سے تو لگتا ہے کہ مختلف حکومتوں نے نہ صرف اپنی غلطیوں پر نظر ثانی نہیں کی بلکہ انہوں نے یورپین تاریخ سے بھی کوئی سبق حاصل نہیں کیا،آج سے چار سو سال پہلے وسطی یورپ پروٹیسٹنٹ اورکیتھولک فرقوں میں بٹا ہوا تھاجن کے درمیان 1618ء سے 1648ء تک خوفناک فرقہ وارانہ جنگ لڑی گئی جس میں نہ صرف یہ کہ دونوں اطراف سے بہت بڑی تعداد میں لوگ مارے گئے بلکہ املاک کو بھی بہت نقصان پہنچا۔چاہیے تو یہ تھا کہ ان مثالوں سے کوئی سبق حاصل کیا جاتا کہ جب فرقوں اور سیاست کے امتزاج کے نتیجے میں جو استبدادی سیاسی نظام ابھر کر آتا ہے وہ نہ صرف معاشرے کی تخلیقی صلاحیتوں کو سلب کر کے رکھ دیتا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ ریاست کو اپنے سیاسی مخالفین کو دبانے اور کچلنے کے لیے مذہبی و اخلاقی جواز بھی مہیا کرتا ہے اور یوں ریاست پر فرقوں کا کامل تسلط ہو جاتا ہے۔اسلامی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ جیسے ہی سیاست پر فرقہ واریت کا زور کم ہوا تو اس معاشرے میں علم و فنون کو ترقی حاصل ہوئی۔

آج کے پاکستانی معاشرے میں فرقہ وارانہ تعصب کی آبیاری ایک خطرناک حکمت عملی ہے اور وہ بھی اس معاشرے میں جہاں پہلے ہی فرقہ وارانہ تعصب کی وجہ سے نفرت پروان چڑھ رہی ہے جس سے پورا معاشرہ ایک دفعہ پھر مصیبت میں پڑ سکتا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین