• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حبس زدہ موسم کی گہری سیاہ رات ہو، ہر طرف موت کا سناٹا ہو، چاروں طرف خوف کے سائے منڈلاتے ہوں اور آپ چند ساتھیوں کے ہمراہ ایک گھنے جنگل میں کسی ایسے مقام پر مچان (گھات) لگائے اپنے پسندیدہ شکار کے منتظر، سانس روکے بیٹھے ہوں کہ کہیں شکار چوک ہی نہ جائے تو ایسے لمحات میں شکاری کے دل کی جوکیفیت ہو گی وہ صرف ماہر شکاری ہی محسوس کرسکتا ہے میرے جیسا اناڑی نہیںجو صرف کتابوں، خوابوں میں ہی اس کا تصور کرسکتا ہے۔ حقیقت سے اس کا دورپرے کا بھی کوئی تعلق نہیں۔ میں کوئی شکاری ہوں نہ شکار میرا شوق۔ زندگی میں کبھی مکھی تک نہیں ماری لیکن جب تجسس کی آنکھ سے سیاست کے بُنے جال دیکھتا ہوں تو ایسے لگتا ہے کہ شکاریات چولی اور سیاسیات اس کا دامن ہے۔ شکاری جب شکار کرنے نکلتا ہے تو وہ موسم، علاقے، جنگلی حیات کی افزائش اور نفسیات کی مکمل معلومات کے ساتھ ساتھ اپنے حفاظتی سامان، احتیاطی تدابیر کو ہمیشہ اہمیت دیتا ہے۔شکاری میں جسمانی قوت، ذہانت، وقت پر نشانہ لگانے کی صلاحیت ہی اسے ماہر بناتی ہے لیکن وہ اپنی خواہشات کی تکمیل کی خاطر مضبوط ذاتی کردار، سماجی روایات پر بھی دسترس رکھتا ہو۔ ماہر شکاری کی خصوصیات میںاولین خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ سب سے پہلے اپنے ہدف پر نظر رکھتا ہے پھر اپنا اور اپنے ساتھیوں کے تحفظ کا سامان کرتا ہے۔ شکاری جب شکار پر نکلتا ہے تو بڑا پُر امید ہوتا ہے مگر ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا کہ آپ جنگل میں شیر یا ہرن کے شکار پر نکلیں اور آپ کی توقعات کے عین مطابق وہ سامنے کھڑا بھی ہو۔ ایسے میں شکاری اپنے مطلوبہ شکار کا انتظار کرتاہے، کبھی کبھی یہ انتظار انتہائی طویل اور تکلیف دہ بھی ہوسکتا ہے۔ بعض اوقات آپ شیر کا شکار کرنے نکلتے ہیں لیکن جنگل میں گیدڑ یا لگڑبگڑ ہی ملتے ہیں۔ماہر شکاری ایسے حالات میں وقت گزاری پر ہی اکتفا کرتا ہے کہ جب تک اسے مطلوبہ ہدف حاصل نہ ہو جائے وہ اپنا ہتھیار استعمال نہیں کرتا، شکاریات اور سیاسیات کا مشاہدہ کریں تو دونوں کبھی بھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوتے۔ ماہر شکاری کی خصوصیات شاطر سیاست دان سے جوڑیں تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ زمانہ قدیم سے جن نامور جنگجوؤں نے دنیا کے مختلف خطوں میں اپنی فتوحات کے جھنڈے گاڑے وہ ماہر شکاری بھی تھے خصوصاً مسلم تاریخ پڑھیں تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جن شہنشاہوں نے تاریخ پر راج کیا اور کامیابیاں ان کے مقدرمیں لکھی گئیں ان کی تربیت کی ابتدا شکاریات کی مہارت سیکھنے سے ہی ہوئی۔ اسی مہارت، ذہانت ، دلیری کی بنیاد پر ہی یہ ماہر شکاری دنیا کی مضبوط سلطنتوں پر حکمرانی کے مستحق ٹھہرے۔ کچھ ایسے ماہر شکاری بھی تھے جو جنگل میں بے زبانوں کے شکار میں مہارت تو رکھتے تھے مگر جب انہیں انسانوں کے جنگل سے واسطہ پڑا تو وہ ناکام ٹھہرے، ان کی کامیابیوں اور ناکامیوں میں شکارگاہوں کے حالات، موسم اور غیر متوقع خواہشات کا عمل دخل رہا۔ پاکستان کے گھنے جنگل کی داستان بھی اس سے کچھ مختلف نہیں کہ یہاں کی مشہور شکارگاہوں نے بڑے ماہر شکاری سیاست دان پیدا کئے جنہوں نے سندھ، بلوچستان، پنجاب کی شکارگاہوں میں چھوٹے موٹے تیتر، بٹیر نہیںبلکہ شیر،چیتے تک شکار کرکے ان کی کھالیں اپنے ڈرائنگ روموں کی زینت بنائیں۔ یہ لوگ شکار کی تین بڑی مہارتوں پر مکمل عبور رکھتے تھے۔ انہیں دن میں شکار کا تعین کرنا اور رات کی تاریکی میں کسی محفوظ مقام پر چڑھ کر بیٹھے پرندوں کے غول کو ”چڑھاوے“ کے ذریعے نشانہ بنانے کا بہترین فن آتا تھا۔ وہ ایسے ماہر شکاری تھے کہ ایک طرف ”چڑھاوا“ چڑھاتے تو دوسری طرف شکار کو جال لگا کر پھندا لگاتے تو تیسری طرف گھنے جنگلوں، بیابانوں، سنگلاخ پہاڑوں میں پیدل چل کر ”پراشکار“ پر بھی مکمل دسترس رکھتے تھے۔ ان کی ان مہارتوں کا ایک زمانہ داد دیتا ہے کہ ان شکاریوں نے جہاں بھی مچان لگائی کامیابیوں نے ان کے قدم چومے۔ پاکستان میں ہمیشہ سے شکار کا بہترین موسم ستمبر سے مارچ تک اہم رہا ہے کہ اس دورانیے میں کسان دوست پرندے ، تیتر بٹیر کھڑی فصلوں میں بکثرت ہجرت کرکے پائے جاتے ہیں اور غول در غول انہیں شکار کرنا آسان بھی ہوتا ہے جبکہ جنوری سے مارچ تک کے عرصے میں دریا کنارے مرغابیاں بھی چہکنے لگتی ہیں اور شکاری انہیں رات کی تاریکی میں شکار کرنے میں خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں۔ پاکستانی شکاریات کی نفسیات پڑھتے جائیے کہ تیتر، بٹیر، مرغابی کے شکار میں ہمیشہ پنجاب کے دریا، گھنے جنگل اور صحرائی علاقے نہ صرف شکاریوں بلکہ سیاست دانوں کے شغل کا بھی اہتمام کرتے ہیں لیکن دنیا کا سب سے مشکل ترین دلچسپ ، تھکا دینے والا اور قابل فخر (صرف اشرافیہ کے لئے) شکار پوٹھوہاری خطے میں واقع پہاڑی شکار گاہ میں کیا جاتا ہےیہاں شکار کرنے والے کو دنیا کا شاطر ترین، باہمت، ذہین شکاری قرار دیا جاتا ہے۔ اب ایسے شکاری خال خال ہی پائے جاتے ہیں جیسے کہ ہمارے کپتان خان کہ جن کا بہترین مشغلہ ہی اس پہاڑی سلسلےمیں شکار کرنا رہا ہے اور آج ان کے مقابلے میں ایسا شکار کرنے والا کوئی شکاری نہیں۔ ہمارے کپتان خان کھیڑی چپل پہنے بے دریغ بڑے بڑے شکار کرتے آگے بڑھتے چلے جارہے ہیں اور ان کے نزدیک تیتر، بٹیروں کی کوئی اہمیت ہی نہیں۔ ویسے بھی تیتر، بٹیروں کا شغل ہمارے کپتان کے شایان شان بھی نہیں کہ وہ بلاوجہ معمولی پرندوں کے شکار پر اپنا وقت ضائع کریں۔لیکن پنجاب کی شکار گاہ میں دو سال سے پانی میں چھپا ایک پوٹھوہاری بگوا شکاری کسی جھیل کنارے بڑی ہوشیاری سے مارچ میں چہکتی مرغابیوں کے شکار کی منصوبہ بندی کررہا ہے۔ دیکھتے ہیں یہ بگوا شکاری کپتان کا شریک سفر ہوتا ہے یاپھر شکاریوں کے کسی نئے گروہ کا حصہ بن کر پنجاب کی شکار گاہ میں اپنا نام پیدا کرتا ہے۔ فی الحال تو اس کے اردگرد لگڑ بگڑ ہی نظر آتے ہیں۔

تازہ ترین