• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سائیں بزدارنیب میں ، کیا نکلے گا، یہ علیحدہ بات ،مگر کیا جو کیلی پیشی ، پونے دوگھنٹے ،ایسے ایسے لطیفے،کیا کہیں، سائیں کا نصیب، عقل دنگ، مریم حسبِ سابق ،حسبِ منصوبہ نیب کو ’رُولے رَپے‘ میں ڈال کر پتلی گلی سے نکل گئیں ، کیا چالاکی،بات ہورہی زخمی لینڈ کروزر کی ، بات ہونی چاہئے تھی اس خدمت گار جمہوریت کی جس میں ہاؤس آف شریف کیلئے قانون بدلا، رہائشی زمین زرعی ہوئی، اونے پونے داموں پر زمین خریدی گئی ،خرید وفروخت مکمل ہوئی ،قانون پھرسے واپس ’اوقات ‘ میں آگیا، زرعی زمین رہائشی ہوگئی، نیب پتھر وپتھری ،پریس کانفرنس کتروکتری، کھڑکی توڑ پیشی ایسی ، بلاول بھٹو کہہ اٹھے ،اب ہمارے کارکنوں کا بھی اصرار زرداری صاحب ریلی کی صورت نیب پیشی پرجائیں ، کارکن ،سمجھ نہ آئے ،10والیومز پانامہ جے آئی ٹی رپورٹ ،ایون فیلڈ ،العزیزیہ ،فلیگ شپ ،سرے محل،35والیمز جعلی اکاؤنٹس منی لانڈرنگ ،ٹی ٹیاں،شوگر مل قصے ،اومنی کہانیاں، اور کیا کیا ،پھر بھی نجانے کہاں سے آجاتے ہیں لڈی باز، کہاں سے آجاتے ہیں لوٹنے والوں کے سامنے مست دھمالیں ڈالتے لٹنے والے ، جنا تیری مرضی نچا بیلیا۔دنیا کہاں پہنچی ہوئی ،ہم کن دھندوں، بندوں میں پھنسے ہوئے ، دنیا تارے گننے میں لگی ہوئی، ہمیں دن میں تارے نظر آرہے، دنیا میں کیا کیا نہیں ہورہا، کسی نے سوچا تھا، بنگلہ دیش ،بھارت آمنے سامنے ہوں گے، نیپال دنیا کی چوتھی بڑی جنگی طاقت بھارت کو دھمکیاں لگائے گا، بھوٹان 42لاکھ فوج والے بھارت کو کہہ رہا ہوگا ، ہمت ہے تو ہاتھ لگا، چین بھارت کو پھنٹیاں لگا رہا ہوگا، گھبرائے بھارت کی حالت یہ ہوگی کہ مالدیپ میں 50کروڑ کی سرمایہ کاری کرنے پہنچ جائے گا، چلو مالدیپیو ں کی قسمت تو جاگی ، دنیا میں کیا کیا نہیں ہو رہا ، الیکشن مہم شروع کر چکے ٹرمپ نے اپنے عوام کو رام کرنے کیلئے متحدہ عرب امارات، اسرائیل میں امن معاہدہ کرواکر سفارتی تعلقات استوار کرا دیئے، حکومتی اتحادیوں سے بلیک میل ہوتے، کرپشن مقدمے بھگتتے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہواپنے عوام میں اس معاہدے سے اپنی ساکھ بچانے میں لگے ہوئے ، سنا جارہا ، مزید عرب ممالک بھی اسرائیل سے تعلقات کی امریکی لائن میں لگے ہوئے ، 1949میں اسرائیل کو تسلیم کرنے والا ترکی ، 1950ء میں اسرائیل کو ماننے والا ایران آج فلسطینیوں کے ساتھ، دونوں کہہ رہے ،یوا ے ای کا یہ قدم فلسطینی کاز کے پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف، فلسطینیوں کے کیا جذبات ،فلسطینی رہنما حنان اشروی کا یہ ٹویٹ پڑھئے، ’’کاش کوئی اپنی دھرتی چرائے جانے کے کرب سے دوچار نہ ہو، کاش کوئی اپنے سامنے اپنا گھر گرتے، جلتے اور اپنے پیاروں کو مرتا نہ دیکھے،کاش کسی کو نظر بندی جیسے حالات میں زندہ رہنے کی اذیت نہ سہنی پڑے،کاش کوئی اپنے ہی دوستوں کے ہاتھوں فروخت ہوجانے کے عذاب سے نہ گزرے‘‘،ذرا پھر سے یہ ذہن میں رکھ کر ’’متحدہ عرب امارات اور اسرائیل میں امن معاہدہ اور سفارتی تعلقات استوار‘‘ ،اب حنان اشروی کے ٹویٹ کا یہ فقرہ پھر سے پڑھیں ’’کاش کوئی اپنے دوستوں کے ہاتھوں فروخت ہوجانے کے عذاب سے نہ گزرے‘‘۔

بلاشبہ آزادی سے بڑی کوئی نعمت نہیں،آزادی ، یاد آیا، 14اگست گزرگیا ،ماشاء اللہ پاکستان 73سال کا ہوگیا، بہت کچھ حاصل کیا، بہت کچھ حاصل کریں گے ، مگر قائدکا پاکستان کہاں، قائدکے پاکستان میں غالباً بنگلہ دیش بھی تھا، اس پاکستان میں تو قائد تقریروں، نوٹ تصویروں تک محدود،یادآیا، ہم قائدکی 11اگست 1947کی تقریر کے بہت ڈھنڈورے پیٹیں،’’ آپ آزاد ہیں،مندر ،مسجد جانے کیلئے، آپ کے مذہب ،نسل ،ذات سے ریاست کاکوئی لینا دینا نہیں ،اکثریت واقلیت ،ہندومسلمان ،پٹھان پنجابی ،شیعہ سنی ،برہمن ویش، بنگالی مدراسی میں کوئی فرق نہیں ، سب پاکستانی‘‘ ،یہ سب سرآنکھوں پر، مگر قائدنے اسی تقریر میں یہ بھی فرمایا’’ حکومت کا پہلا فرض امن وامان قائم کرنا تا کہ شہریوں کے جان ومال، مذہبی عقائد مکمل طور پر محفوظ رہیں‘‘،آپ بتائیے ،کیا ایسا ہے، قائد نے اسی تقریر میں یہ بھی فرمایا’’رشوت ،بدعنوانی زہر،ہمیں اس سے سختی سے نمٹنا ہوگا‘‘ آپ بتائیے، کہاں رشوت نہیں، کوئی کام جو رشوت کے بنا ہوجائے ، جہاں تک بدعنوانی کی بات، اسے تو رہنے ہی دیں، حکمرانوں اور قوم کا ایسا حسین امتزاج کہ ’’کھاتا ہے تو لگاتا بھی تو ہے‘‘،قائدکی اپنی جماعت ایون فیلڈوں ،ٹی ٹی راجکپوروں کے نرغے میں، محمد علی جناح نے اسی تقریر میں یہ بھی فرمایا تھاکہ ’’ چور بازاری ایک بڑی لعنت،خوراک ،ضروری اجناس کی قلت کے دور میں کوئی شہری چور بازاری میں ملوث ہو، اس سے بڑا کوئی مجرم نہیں‘‘آپ ہی بتائیے کون سابازارجو چوروں سے بچ گیا، کون سی ہٹی جہاں چوربازاری نہ ہوتی ہو، یہاں تو ہر شعبے میں علی باباچالیس چوروں کا راج، قائداعظم نے اسی تقریر میں یہ بھی فرمایا تھا کہ ’’اقرباء پروری ایک لعنت،اسے مکمل طور پر کچل دینا چاہئے،میں اسے ایک لمحے کیلئے بھی برداشت نہیں کر سکتا‘‘آپ ہی بتائیے قائد کا پاکستان اقرباء پروری سے محفوظ،یہاں تو باپ بیٹی ،میاں بیوی ،بھائی بہن، چاچے مامے ،بھتیجے بھانجے ، بھانت بھانت کے رشتے دار جمہوریت کی آڑ میں راج کررہے،یہاں کی جمہوریت ہویا آمریت، صدارتی نظام ہو یا پارلیمانی ،17سو افرادیا 5سو خاندان مستفید ہوئے، باقی سب لگڑ بگڑ ،اریلو کٹے۔

بات کہاں سے کہاں نکل گئی، بات غربت ،بے روزگاری ،مہنگائی کی ،غربت چوکڑیاں بھرتی پھرے، بے روزگاری چھلانگیں مارتی پھرے ، مہنگائی ایسی کہ آٹا، گھی ،چینی چھوڑیں ،زہر بھی غریب کی پہنچ سے دور،اوپر سے تھانہ ،کچہری ،اسپتال ، میری دعا، آپ کا کبھی تھانہ ،کچہری ،اسپتال سے واسطہ نہ پڑے ،قدم قدم پر چھترول ،کبھی جسمانی تو کبھی ذہنی ،بندہ رُل جائے ،مٹیو مٹی ہوجائے، نیم پاگل ہوجائے،ہاں پانچ دس فیصد ایسے بھی جو مزے میں ، باقی 90 پچانونے فیصد ہر لمحہ تتے توے (گرم توے) پر، اسی لئے تو حیران کہ کہاں سے آجاتے ہیں لڈیاں ڈالنے وہ کارکن جن کی مہنگائی ،بے روزگاری ،ناانصافی نے مت مار رکھی ،رتی بھر عقل والا شخص اس ڈاکٹر کے سامنے کیسے دیوانہ وار ناچے گا جو ڈاکٹر اس کا عزیز مار کر لاش سرہانے اپنی مسیحائی کے گن گارہا ہو،باقی جب بھی اس پانچ دس فیصدی مخلوق کو دیکھوں ،ان کے مزے دیکھوں ،استادِمحترم حسن نثار کا سدا بہار جملہ یاد آجائے ،یہاں ان لوگوں کی لاٹری نکل آئی، جنہوں نے لاٹری ٹکٹ ہی نہیں خریدا تھا۔

تازہ ترین