• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کچھ عرضہ قبل میں نے اس امر کی جانب اشارہ کیا تھا کہ دنیا ایک بار پھر سرد جنگ کی جانب بڑھ رہی ہے اور اب جس تیزی سے نئی صف بندی ہو رہی ہے ، اسے دیکھ کریہ تسلیم کر لینا چاہئے کہ دنیا سرد جنگ کے نئے عہد میں داخل ہو چکی ہے ۔ نئی سرد جنگ پہلے والی سرد جنگ سے زیادہ سخت اور نتائج کے اعتبار سے عالمی امن کے لئےزیادہ خطرناک ہے ۔

سرد جنگ کے پہلے عہد میں دنیا دو بلاکس میں تقسیم تھی ۔ ایک بلاک کی قیادت امریکہ کر رہا تھا،جسے سرمایہ دارانہ بلاک کا نام دیا جاتا تھا اور دوسرے بلاک کی قیادت سوویت یونین کر رہا تھا ، جسے سوشلسٹ بلاک سے تعبیر کیا جاتا تھا ۔ انہیں بالترتیب مغربی اور مشرقی بلاکس بھی کہا جاتا تھا ۔ 

بعض ممالک امریکہ اور بعض سوویت یونین کے اتحادی تھے ۔ اسی عہد میں غیر جانبدار علاقائی اتحاد بنانے کی کوشش بھی کی گئی ۔ جس کا جھکاؤ سوشلسٹ بلاک کی طرف تھا ۔ 

یہ عہد جنگ عظیم دوئم کے بعد 1947 ء میں امریکی صدر ہیری ایس ٹرومین کے اس نظریہ کے اعلان سے شروع ہوا کہ سوویت یونین کے بڑھتے اثرات کو روکا جائے ۔ اس نظریہ کو ’’ ٹرومین ڈاکٹرائن ‘‘ کا نام دیا جاتا ہے ۔

1991ء میں جب سوویت یونین کا شیرازہ بکھرا تو سرد جنگ کایہ عہد بھی اپنے اختتام کو پہنچا اور امریکہ نے دنیا میں اپنا نیا عالمی ضابطہ نافذ کیا ۔

وہ دنیا کی واحد سپر پاور تھا اور دنیا یک قطبی ( یونی پولر ) بن گئی تھی ۔ اب حالات پھر سے تبدیل ہو گئے ہیں ۔ دنیا یک قطبی نہیں رہی ۔ 

امریکہ آج چین کے بڑھتے ہوئے ’’ جیو پولٹیکل ‘‘ اثرات کو روکنے کے نظریے پر عمل پیرا ہو گیا ہے ۔ اسے تاریخ کسی اور ڈاکٹرائن کا نام دے گی ۔ 

اگرچہ امریکہ اور چین کے مابین دفاعی طاقت اور ہتھیاروں میں اضافے کی دوڑ اس طرح شروع نہیں ہوئی ، جس طرح سرد جنگ کے پچھلے عہد میں امریکہ اور سوویت یونین کے مابین تھی لیکن امریکہ جس جارحیت اور عجلت کے ساتھ اپنے اتحادیوں کو پوزیشن واضح کرنے پر دباؤ ڈال رہا ہے ، اس سے نہ صرف یہ واضح ہوتا ہے کہ سرد جنگ کا نیا عہد شروع ہو چکا ہے بلکہ امریکہ چین کے ساتھ اپنی تجارتی جنگ کو کسی اور طرح کے تصادم میں بھی تبدیل کر سکتا ہے ۔

 چین اگر فوجی تصادم سے گریز کی پالیسی پر قائم بھی رہتا ہے تو بھی چین کو اپنے اثرورسوخ والے علاقوں یا خطوں میں غیر روایتی جنگوں یا بدامنی والی صورت حال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔ خود امریکی اتحادیوں کو بھی داخلی عدم استحکام سے دوچار ہونا پڑ سکتا ہے تاکہ انہیں دوسرے کیمپ میں جانے سے روکا جا سکے۔

 متحدہ عرب امارات ( یو اے ای ) اور اسرائیل کے مابین تعلقات کو بہتر بنانے کے جس معاہدے کااعلان امریکی صدر ٹرمپ نے کیا ہے ۔

 یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ امریکہ اپنے اتحادیوں کو زیادہ واضح پوزیشن کے ساتھ کھڑا ہونے کے لئے کہہ رہا ہے ۔ اگرچہ یو اے ای اور دیگر عرب ممالک سرد جنگ کے پہلے عہد سے ہی امریکی اتحادی ہیں لیکن اسرائیل کے ساتھ انہیں تعلقات بہتر بنانے کے لئے ان پر اتنا دباؤ نہیں تھا ، جس طرح آج ہے۔

 لگتا ہے کہ امریکہ نئی سرد جنگ کی ’’ ڈاکٹرائن ‘‘ پر جارحانہ اور عجلت سے عمل درآمد کرنا چاہتا ہے ۔ پاکستان کہاں کھڑا ہے اور پاکستان کو امریکہ کہاں اور کس طرح دیکھنا چاہتا ہے ؟ یہ اہم سوالات ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان نئی صورت حال میں اپنے قومی مفادات کے مطابق فیصلے کر سکے گا ؟ کسی ملک کی خارجہ پالیسی اس ملک کی داخلی پالیسی ہوتی ہے ۔ 

اگر داخلی سطح پر ملک میں جمہوری اور سیاسی فیصلے عوام خود کر سکتے ہوں اور ان میں کسی قسم کی کوئی مداخلت نہ ہو تو ملک داخلی طور پر بھی مضبوط ہوتا ہے اور اس کی خارجہ پالیسی بھی خود مختار ہوتی ہے ۔ 

پاکستان کی موجودہ صورت حال میں سیاسی اور عسکری قیادت کو اب مل کر فیصلے کرنا ہوں گے ۔ زیادہ تر مسلم ممالک خاص طور پر عرب ممالک کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کا ساتھ دینے کو تیار نہیں اور نہ ہی انہوں نے پہلے کبھی دیا ۔

 پاکستان کو بھارت کے مقابلے میں تنہا کرنے کا جو عمل امریکی کیمپ میں شروع ہوا ہے ، وہ امریکی کیمپ کے دیگر ممالک کے لئے شاید کوئی بڑا مسئلہ نہ ہو لیکن پاکستان کے لئے بہت بڑا مسئلہ ہے۔

 چین ، روس ، ایران ، قطر کے ساتھ ساتھ پاکستان کو اپنے ایسے دیگر دوست تلاش کرنے ہوں گے ، جو کم از کم پاکستان کے مفادات کو امریکی کیمپ کی طرح نظر انداز نہ کریں ۔

 سرد جنگ کا دوسرا عہد شروع ہو چکا ہے ، جو بدامنی اور عدم استحکام کا پہلےسے زیادہ بدترین عہد ہو سکتا ہے۔ پاکستان کو سنبھلنے کے لئے بہت اہم فیصلے کرنا ہوں گے ۔

 پاکستان کو کیا کرنا چاہئے ؟ آج پاکستان اس پوزیشن میں ہے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی اپنے قومی مفادات کے تحت کرے۔ 

آج سے قبل پاکستان نے اپنی خارجہ پالیسی کبھی اپنے قومی مفادات کے تحت نہیں بنائی بلکہ مختلف مصلحتوں اور گروہی مفادات کے تحت فیصلے کئے۔ اب ہر فیصلہ ،پاکستان کے قومی مفادات میں اپنے پڑوسی ممالک چین، روس، افغانستان، ایران، سینٹرل ایشیائی ممالک، مشرقِ وسطیٰ کے ممالک اور سی پیک کے منصوبہ کو دیکھتے ہوئے ہونا چاہئے۔ 

اس پر پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت کے درمیان باہمی اعتماد کے ساتھ بامقصد ڈائیلاگ شروع ہونا چاہئے۔ 

پارلیمنٹ میں اس حوالے سے طویل بحث بھی ہونی چاہئے اور پارلیمنٹ سے باہر بھی مشاورت جاری رہنی چاہئے۔ پاکستان بہت نازک مرحلے پر ہے ۔

تازہ ترین