• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان معاہدے کی گونج نے خطے میں ہلچل مچا دی ہے۔اس معاہدے پر پاکستان کا موقف بھی سامنے آچکا ہے۔ترکی نے معاہدے کی نہ صرف شدید الفاظ میں مذمت کی بلکہ متحدہ عرب امارات سے سفارتی تعلقات معطل کرنے کا بھی عندیہ دیا ہے۔ایران نے اس معاہدے کو شرمناک قرار دیا ہے اور خبردار کیا ہے کہ اس سے علاقے میں خطرات مزید بڑھ سکتے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر مصر کے علاوہ ابھی تک کسی عرب یا مسلم ملک کا کوئی خاص رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔مصر نے اس معاہدے کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ مسلم ممالک کے علاوہ دنیا کے دیگر اہم ممالک نے بھی تا حال اس معاہدے پر اپنا رد عمل ظاہر نہیں کیا ۔صرف برطانیہ نے اس معاہدے کا خیر مقدم کیا ہے۔پاکستان نے اگرچہ اپنے رد عمل میں کوئی واضح موقف ظاہر نہیں کیا لیکن ایسا لگتا ہے کہ پاکستان نے اپنے رد عمل کے اظہار میں جلدی کی ہے۔کیونکہ ابھی نہ تو اس معاہدے کے اہم نکات واضح ہیں نہ یہ معلوم ہوا ہے کہ اس معاہدے کا مستقبل کیا ہے۔پاکستان کے بعض عوامی حلقوں نے معاہدے کی مذمت کی ہے۔لیکن اس معاملے پر جذبات کے اظہار کے ساتھ ساتھ ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچنا ضروری ہے۔

اس معاہدے کے فلسطینیوں، خطہ اور خصوصاً پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔آنیوالے چنددنوں میں اس معاہدے پر وائٹ ہائوس میں فریقین کے دستخط کی تقریب منعقد ہونیوالی ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے اشارہ دیا ہے کہ جلد دیگر عرب ممالک بھی اسرائیل کے ساتھ معاہدہ کر لیں گے۔اور یہ بات تو واضح ہے کہ امریکہ ہمیشہ کی طرح اب بھی اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے۔صدر ٹرمپ تو اس معاملہ میں دیگر کئی امریکی صدور کے مقابلہ میں اسرائیل کا بہت زیادہ ساتھ دے رہے ہیں۔یو اے ای اور اسرائیل کے درمیان معاہدے سے دونوں ممالک کو تو بہت مالی فوائد حاصل ہو سکتے ہیں لیکن بلاشبہ فلسطینی کاز کو بہت زیادہ نقصان پہنچے گا۔فلسطینی مسلمانوں کی جو تھوڑی بہت امیدیں عرب ممالک سے وابستہ تھیں وہ دم توڑ دیں گی۔بھارت کے لئے یہ معاہدہ وقتی طور پر خوش کن لیکن مستقبل قریب میں نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔اس لئے بھارت کو اس معاہدے سے خوش نہیں ہونا چاہئے کیونکہ بھارت کے دونوں ممالک کے ساتھ پہلے سے تعلقات قائم ہیں۔

اسرائیل سے تو کسی اچھائی کی امید نہیں کی جا سکتی لیکن یہ بات یقینی ہے کہ متحدہ عرب امارات،سعودی عرب اور دیگر مسلم ممالک کبھی بھی مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر بھارت کا ساتھ نہیں دیں گے۔سعودی عرب پاکستان کا اسلامی برادر ملک ہے اور مسلمانوں خصوصاً پاکستانیوں کے دل میں سعودی عرب کے لئے بہت عقیدت اور احترام کے جذبات ہیں اور یہ جذبات تاقیامت قائم رہیں گے۔وقتی گلہ شکوہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں کسی بڑی خلیج کا باعث نہیں بن سکتا۔مصدقہ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق حال ہی میں پیدا ہونے والی بعض غلط فہمیاں کافی حد تک دور ہو چکی ہیں۔پاکستانی عسکری قیادت کے حالیہ دورے کے بعد تعلقات میں مزید استحکام آجائے گا۔سعودی عرب کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بات صدر ٹرمپ اور ان کے داماد کی طرف سے کی گئی ہے لیکن شاید یہ اتنا آسان نہیں ہوگا۔متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان معاہدہ اگرچہ دونوں ممالک کا اندرونی معاملہ ہے لیکن اس معاہدے کے اثرات پورے خطے پر پڑسکتے ہیں۔ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی سے دیگر کئی عرب ممالک بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی بھی اسرائیلی نقش قدم پر چلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔لیکن فلسطین اور کشمیر میں بڑا فرق ہے۔ اب دنیا کے حالات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں اب مودی کو بھی اپنی سوچ تبدیل کرنا پڑے گی۔خود بھارت تیزی سے تقسیم کی طرف بڑھ رہا ہے۔اسرائیل اور ایران کے درمیان معاملات انتہائی کشیدہ ہیں۔دوسری طرف اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہوکیخلاف اسرائیل میں ہی متعدد احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں۔با الفاظ دیگر یہ کہا جا سکتا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ اور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو ایسے اقدامات محض اپنی سیاسی بقا کے لئے اٹھا رہے ہیں۔ایران اور اسرائیل کے درمیان کوئی بھی حادثہ پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔اور احادیث مبارکہ کے مطابق یہ ایک بڑی جنگ کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔یہ یاد رہے کہ خدانخواستہ اگر ایسی صورتحال بن گئی تو اس کے صرف ایران اور اسرائیل ہی فریق نہیں رہیں گے۔

تازہ ترین