• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دیدہ و بینا حضرت اقبال نے کہا تھا
آسیا یک پیکرِ آب و گل است
ملّتِ افغاں درآں پیکر دل است!
از فسادِ او فسادِ آسیا
در کشادِ او کشادِ آسیا!
ایشیاء پانی و مٹی کا ایک جسم ہے اور افغان اس جسم میں دل کی مانند ہیں، اگر اس دل میں اضطراب ہو گا تو پورا ایشیاء لرزاں براندم ہو گا اور اگر یہ دل چین سے سرشار ہو گا تو ایشیا پُر سکون رہے گا۔ علامہ کی عقابی نگاہ جب جب پختونوں اور ان کے خطے پر مرکوز ہوئی، تو وہ ظاہر و باطن کے چشمانِ ادراک وا کر کے ان میں محوِ جستجو ہوئے۔ ”بال جبریل“ میں اپنی نظم بہ عنوان ”نادر شاہ“ میں اس خطے کا حُسن و جمال بر ملاحظہ دہر کیا خوب کرتے ہیں۔
بہشت راہ میں دیکھا تو ہو گیا بے تاب
عجب مقام ہے، جی چاہتا ہے جاؤں برس
صدا بہشت سے آئی کہ منتظر ہے ترا
ہرات و کابل و غزنی کا سبزئہ نورس
ضربِ کلیم کی شہرئہ آفاق نظم ”محراب گل افغان کے افکار“ میں ملاحظہ فرمائیں، کیا درس پنہاں ہے۔
رومی بدلے، شامی بدلے، بدلا ہندوستان
تو بھی اے فرزندِ کہستان! اپنی خودی پہچان
تیری بے علمی نے رکھ لی ہے بے علموں کی لاج
عالم فاضل بیچ رہے ہیں اپنا دین ایمان
اپنی خودی پہچان۔ او غافل افغان
امت کیلئے فکرمند صاحب اسرار حضرت علامہ جانتے تھے کہ مردانِ حُر افغانوں کو جہان نو میں بے توقیر و بے دست و پا کرنے کی خاطر کیسی کیسی قوتیں برسرپیکار ہیں جہاں وہ افغانوں کو ان قوتوں سے خبردار کرتے ہیں اور گردشِ لیل و نہار سے ہم آغوش تقاضوں کی جانب ندا دیتے ہیں وہاں وہ افغانوں کے جذبات سے کھیلنے والوں کو انتباہ بھی کرتے ہیں کہ افغان منطقے کو ہوس کی آماجگاہ بنانے والے یہ جان لیں کہ یہ سادہ دل اگر سکون سے محروم کر دیئے جائیں گے تو پورا ایشیاء اور اس سے وابستہ ایک دنیا بھی راحت نہ پائے گی۔ آج ہم اس عظیم پیامبر کی یہ پیش گوئی حرف بہ حرف حقیقت کا جامہ زیب تن کئے دیکھتے ہیں تو وائے افسوس!!! من کی ہچکیاں خونِ جگر سے تر رفتار عالم پر ماتم کناں ہو جاتی ہیں، کہ اے کاش افغان پیام اقبال پر کچھ تو توجہ دیتے۔
موسم اچھا، پانی وافر، مٹی بھی زرخیز
جس نے اپنا کھیت نہ سینچا وہ کیسا دہقان!
او غافل افغان!
یہ تسلیم کہ غیروں کی ریشہ دوانیاں ہی آڑے آئیں، لیکن انگڑائی لیتے زمانے کی راہ میں افغان خود بھی تو مزاحم رہے!علامہ نے بے علمی، تغیر و جہد نو کی جانب اشارہ فرمایا تھا لیکن محسوس یہ ہوتا ہے کہ اس سرزمین کے سربفلک پہاڑ، سنگلاخ چٹیل میدان اور تاریخ ساز درے آج بھی ویسے ہی ہیں، جیسے یہ سکندراعظم کی آمد کے وقت تھے یا جس وقت اس سرزمین نے محمد غوری، شیر شاہ سوری، احمد شاہ ابدالی، میرویس نیکہ، پیر روخان اور خوشحال خان خٹک کو جنم دیا تھا۔ ان میں انسانی زندگی جبلّی اور عمرانی ہیت کے اعتبار سے آج بھی اسی طرح ہی ہے، جس طرح یہ بابر، اورنگ زیب جیسے مغلوں یا پھر انگریزوں کے دور میں تھی۔ یعنی وقت یہاں جیسے ساکت ہو اور نئی دنیا کی جانب، جس کی متمنی حضرت اقبال تھے، ایک بھی جست نہ لگائی جا سکی ہو۔ پختون خطے پر طاری اس جمود ہی نے ایشیاء بالخصوص پاکستان کی ترقی کی راہیں بھی مسدود کر رکھی ہیں۔پاکستان اور افغانستان تاریخی، پڑوسی اور اسلامی رشتوں میں بندھے رہنے کے باوجود دو علیحدہ علیحدہ حقیقتیں ہیں، تاہم دونوں ممالک سے متعلق یہ بیلٹ ہی چونکہ ایشیاء و پوری دنیا پر اثر انداز ہے اس لئے ہم نے علامہ اقبال کے توسط سے اسی جانب اشارہ کیا۔ ہمیں وگرنہ بحیثیت پاکستانی اصولی طور پر اس پختون بیلٹ کی زیادہ فکر دامن گیر ہے جو پاکستان میں واقع ہے۔ وقت کا نوحہ یہ ہے کہ پاکستان نے اس خطے کو قدیم سے جدید کی طرف لانے کیلئے وہ اقدامات نہیں کئے جو دورِ نو کے متقاضی تھے اور جس کی طرف مفکر پاکستان نے اشارہ کیا تھا۔ بھارت سمیت دنیا بھر کے وہ ممالک جنھوں نے نو آبادیاتی نظام اور غلامی سے نجات حاصل کی، انہوں نے بالخصوص قدامت پرستی کے عیوب سے چھٹکارا حاصل کیا اگرچہ اس کے محاسن کو گلے بھی لگایا، لیکن ہمارے لئے تو عیوب ہی فخر کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ جدید دنیا میں قبائلی نظام کو ترقی کی ضد گردانا جاتا ہے، لیکن ہمارے ہاں عمران خان جیسے ”انقلابی“ بھی اس کی جبینِ ناز کو بوسہ دیتے دکھائی دیتے ہیں!! روایات، بود و باش، تمدن و تہذیب، ادب و آداب ترقی کی راہیں نہیں روکتے بلکہ یہ دیدہ زیب پیرہن میں ساتھ ساتھ چلتے خوبصورت بھی لگتے ہیں، لیکن ہم نے غیرت و حمیت، انا و روایات کے نام پر وحشت و جہل کے وہ ”شاہکار“ تخلیق کر رکھے ہیں کہ جن کی طرف ترچھی نظر سے دیکھنا بھی جیسے کفر ہو !!
تاریخ کا ایک سبق یہ بھی ہے کہ جس کسی نے اس خطے کے لوگوں کی طرز زندگی بدلنے اور انہیں زمانے سے ہم آہنگ کرنے کی خاطر جہد تازہ کی راہ لی، وہ زیر عتاب آیا، اس خطے میں دلچسپی رکھنے والی ہر قوت کی منصوبہ بندی اپنے مقاصد کے تناظر میں یہی رہی کہ یہاں نظام کہن ہی آباد رہے۔ ماضی بعید کو چھیڑنے سے بات لمبی ہو جائے گی لیکن اس سلسلے میں ہم ماضی قریب میں جب غازی امان اللہ خان سے لیکر باچا خان تک کی جدوجہد پر ایک نظر ڈالتے ہیں تو صاف نظر آتا ہے کہ پہلے برطانوی استعمار اور بعدازاں امریکی سامراج نے اپنے زر خرید خانوں، خان بہادروں اور ملاؤں کے ذریعے کس سفاکی سے اس خطے کا استحصال کیا۔ حیرت و حسرت کے باب اس وقت کھلتے ہیں جب ہم پاکستانی حکمرانوں کی بے حسی کی کتاب کھول کر یہ دیکھتے ہیں کہ نہ صرف اس بیلٹ کی تقدیر سنوارنے کیلئے کچھ نہیں کیا جا سکا بلکہ جو اصحاب فکر و نظر اپنے تئیں کسی تبدیلی کے لئے برسرپیکار ہوئے، ان کی بھی ٹانگیں کھینچی گئیں۔ پختون خطے میں تبدیلی کیلئے باچا خان کی تحریک سے زیادہ ہمہ گیر جدوجہد تاریخ نے آج تک نہیں دیکھی۔ لیکن جہاں انگریز اس تحریک کے خلاف تمام تر ہتھکنڈے بروئے کار لائے، اس سے بھی زیادہ وہ پاکستانی حکمران باچا خان کی جدوجہد کے مخالف بنے، اسٹیٹس کو برقرار رکھنے سے ہی جن کا مفاد وابستہ تھا۔ اگر باچا خان کا فلسفہ عدم تشدد اور تعلیمی و اصلاحی مشن کامیاب ہو جاتا، تو عین ممکن تھا کہ آج یہاں جہل و وحشت کی بجائے امن و آشتی اور ترقی کا دورہ دور ہوتا۔ آج اے این پی پر جو موت مسلط کی گئی ہے تو اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اے این پی اسلام یا پاکستان مخالف ہے، اے این پی کے رہنما اور کارکن ان سے اچھے اور پکے مسلمان ہیں جو صبح، دوپہر، شام ووٹ و نوٹ کی خاطر اسلام پسندی کے باآواز بلند دعوتے کرتے رہتے ہیں۔ اے این پی نے طالبان کیخلاف بھی کوئی کارروائی نہیں کی۔ وزیرستان یا دیگر قبائلی علاقوں میں آپریشن اے این پی کی صوبائی حکومت کے دائرہ اختیار ہی میں نہ تھا۔اسفند یار ولی خان صاحب پر 2/اکتوبر 2008ء کو خودکش حملہ ہوا، حالانکہ اس وقت صوبائی اور وفاقی حکومت بنی ہی نہیں تھی!! معاملہ نہ تو کفر اور اسلام کا ہے اور نہ ہی اے این پی اور طالبان کا، بلکہ سوچ اور فکر میں تضاد ہی تصادم کا باعث ہے۔ ایک طرف حضرت اقبال اور حضرت باچا خان کی سوچ ہے کہ پختون، اسلام کے مقدس دین کو سینے سے لگائے رکھتے ہوئے علم، امن اور ترقی کے ذریعے دنیا میں اپنا مقام آپ بنا لیں اور دوسری طرف وہ قوتیں ہیں جو پختونوں کو اندھیروں میں رکھ کر اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ 2013 کے انتخابات درحقیقت پختونوں کے شعور کا امتحان ہے ان انتخابات میں ایک طرف حاجی غلام احمد بلور جیسے استقامت کے پہاڑ ہیں جو ضعیف العمری میں بھی پختونوں کی مہذب زندگی کی خاطر موت کو گلے لگانے کیلئے میدان میں ہیں اور دوسری طرف وہ موقع پرست عناصر ہیں جو کم عمر پختون بچوں کو جہاد کے مقدس نام پر افغانستان بھیج کر خود گھر میں بیٹھے ہیں۔ 2013ء کے انتخابات اس سوچ کا تعین کرینگے کہ پختون علم کی روشنی چاہتے ہیں یا جہالت کے اندھیرے۔ حضرت اقبال نے کہا تھا
جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا !
تازہ ترین