• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مکہ اور مدینہ کے بعد بحیثیت مسلمان ہمارے لئے جو مقام مقدس ترین ہے، وہ بیت المقدس ہے۔ وہ مسلمان کہلانے کا مستحق نہیں جس کے دل میں مسجد الحرام، مسجد نبوی ﷺ اور قبلہ اول بیت المقدس کا تقدس و احترام موجودنہ ہو۔ بیت المقدس کئی دہائیوں سے پنجہ یہود میں ہے اور ہر مسلمان کا فرض بنتا ہے کہ وہ اس کی آزادی کے لئے حسب توفیق کوشش کرے۔

لیکن اللہ اور اس کے رسولؐ نے ہمیں حکمت کا بھی درس دیا ہے جبکہ ”لایکلف اللہ نفسا الا وسعھا“ یعنی ہر انسان اپنی استطاعت کی حد تک مکلف ہے، کی ہدایت بھی اللہ کی طرف سے ہمارے نبی ؐ پر اتارے گئے قرآن میں درج ہے ۔

ہمارا دین ہمیں آنکھیں بند کرکے دیوار سے سر ٹکرانے کا نہیں بلکہ زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر اپنی استطاعت کے مطابق آگے بڑھنے کا درس دیتا ہے تو آئیے ذرا دیکھتے ہیں کہ زمینی حقائق کیا ہیں ؟

افسوسناک ضرور ہے لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے 162ممالک جن میں امریکہ، چین ، فرانس ، جرمنی اورروس جیسے اہم ممالک شامل ہیں، اسرائیل کو تسلیم کرچکے ہیں اور دنیا کی سب سے بڑی طاقت امریکہ تواس کی سب سے بڑی سرپرست ہے.31

ممالک(الجیریا، بحرین،کیمروج، جبوتی، عراق، کویت ، لبنان،لیبیا، موریطانیہ،مراکش، عمان، قطر، سعودی عرب،صومالیہ، سوڈان، شام،تیونس، یمن،افغانستان، بنگلہ دیش،برونائی،ایران، ملائشیا، انڈونیشیا،مالی، نائیجر اور پاکستان جبکہ تین غیرمسلم ممالک یعنی بھوٹان،کیوبا اور شمالی کوریا) اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتے۔

عالم اسلام کا پہلا ملک جس نے اسرائیل کو تسلیم کیا وہ ترکی ہے جبکہ دوسرے نمبر پر ایران نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کئے ۔ امام خمینی کے انقلاب کے بعد ایران کی اسرائیل کے ساتھ دوستی دشمنی میں بدل گئی لیکن اسرائیل کے ساتھ ترکی کے سفارتی تعلقات طیب اردوان کے وزیراعظم بننے کے بعد بھی برقرار رہے 2005میں طیب اردوان نے اسرائیل کا دورہ کیا اور دونوں ملکوں کی قیادت نے ایران کے ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کے عزم کے خلاف مشترکہ بیان بھی جاری کیا۔

پھر 2007 میں اسرائیل کے وزیراعظم شمعون پیریز نے ترکی کا نہ صرف دورہ کیا بلکہ انہیں ترکی کی گرینڈ نیشنل اسمبلی سے خطاب کا موقع بھی دیا گیا۔

تاہم غزہ فلوٹیلا پر حملے کی وجہ سے دونوں ممالک کے تعلقات خراب ہوگئے۔ کئی سال تعلقات کشیدہ رہے لیکن پھر خفیہ ملاقاتوں کے نتیجے میں 2016میں دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات معمول پر آگئے ۔

2017 میں امریکہ کی طرف سے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت ڈکلیئر کرنے پر ردعمل دیتے ہوئے ترکی نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کرنے کی دھمکی دی لیکن عملا ختم نہ کئے۔

ترکی نے ماضی میں فلسطین اور اسرائیل میںثالثی کرانے کی بھی کوشش کی جبکہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں پاکستانی وزیرخارجہ خورشید محمودقصوری اور اسرائیلی حکام کی میٹنگ بھی ترکی میں وہاں کی قیادت کی خواہش اور ثالثی کے ساتھ ہوئی تھی۔

ایک اور عرب ملک جس کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں،وہ مصر ہے جس نے دو جنگوں کے بعد امریکہ کی ثالثی کے نتیجے میں کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بعد اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کئے ۔عرب لیگ کا ممبر ہونے کے ناطے عمان نے اسرائیل کو باقاعدہ تسلیم نہیں کیا لیکن کئی سال سے دونوں کے مابین تجارت ہورہی ہے ۔اسی طرح وسط ایشیائی ریاستوں قازقستان، ترکمانستان ، ازبکستان اورآذربائیجان وغیرہ کے بھی اسرائیل کے ساتھ دوستانہ سفارتی تعلقات قائم ہیں۔جبکہ1994 میں اردن کا امریکی صدر بل کلنٹن کی ثالثی سے اسرائیل کے ساتھ معاہدہ ہوگیا جس کے بعد دونوں ممالک کے نہ صرف تجارتی تعلقات قائم ہیں بلکہ کئی کراسنگ پوائنٹس سے سیاح بھی ایک دوسرے کے ملکوں میں آجارہے ہیں ۔

پڑوسیوں میں اب جن دو ملکوں کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات کشیدہ ہیں ان میں شام اور لبنان شامل ہیں لیکن اپنی خانہ جنگیوں کی وجہ سے وہ اب اسرائیل کے لئے خاص خطرہ نہیں رہے ۔ اس وقت عرب دنیا میں صرف قطر وہ ملک ہے جس کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات نہایت کشیدہ ہیں ۔

دراصل ماضی میں اسرائیل کے مقابلے میں فلسطینیوں کی جدوجہدآزادی سعودی عرب کی قیادت میں عرب ممالک کی طرف سے پی ایل او اور حماس کی سرپرستی میں جاری تھی جبکہ ایران حزب اللہ اور شامی حکومت کی سرپرستی کررہا تھا۔ ایک وقت تھا کہ سعودی اور اماراتی بھی اسرائیل کو اپنا دشمن نمبر ون سمجھتے تھے اور ایرانی بھی لیکن بدقسمتی سے وقت کے ساتھ ساتھ ایران اور سعودی عرب کی مخاصمت بڑھتی گئی اور اس میں سبقت پاکر ایران عرب دنیا میں اپنی پراکسیز کو مضبوط کرتا رہا۔

شام اور لبنان کے علاوہ اس نے یمن میں بھی اپنے پراکسیز کو اس قدر توانا کیا کہ سعودی عرب ، ایران کو اپنے لئے اسرائیل سے بڑا خطرہ سمجھنے لگا ۔ دوسری طرف نائن الیون کے بعد باقی دنیا کی طرح عرب دنیا میں بھی صورت حال یکسر تبدیل ہوئی۔

القاعدہ اور داعش جیسی تنظیمیں عرب حکومتوں کیلئے خطرہ بن گئیں اور عرب اسپرنگ کی وجہ سے بھی وہاں کے حکمران عدم تحفظ کا شکار ہوگئے جس کی وجہ سے سعودی عرب اور اس کے قریبی اتحادیوں نے حماس کی سرپرستی سے ہاتھ اٹھا لیا لیکن اس کے ہاتھ اٹھاتے ہی ایران اور قطر نے اسے گلے لگا لیا۔

دوسری طرف طیب اردوان کی قیادت میں ترکی نے انگڑائی لی اور وہ مسلم دنیا کی قیادت کی خواہش کے ساتھ سعودی عرب اور یو اے ای کے مقابل آگیا۔ایک زمانہ تھا کہ تیل کی وجہ سے امریکہ عرب ممالک کامحتاج تھا لیکن اب معاملہ الٹ ہوگیا ہے اور عرب ممالک دفاع اور معاشی حوالوں سے امریکہ کے محتاج بن گئے ہیں۔

اس تناظر میں امریکہ نے بھی عرب ممالک پر اسرائیل کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کیلئے دبائو بڑھا دیا ہے۔ یوں امریکہ کے دبائو اور ایران و ترکی کے خطرے کے پیش نظر سعودی عرب اور یواے ای وغیرہ نے اسرائیل کے ساتھ اپنی مخاصمت کم کرنے کا فیصلہ کیا اور تازہ اقدام امریکہ کی ثالثی سے متحدہ عرب امارات کا اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کا سامنے آیا لیکن نہ جانے پاکستان کی بعض مذہبی جماعتیں کیوں اس بنیاد پر متحدہ عرب امارات کو دشمن بنانے پر تل گئی ہیں؟

ہماری اپنی حالت یہ ہے کہ اس وقت مقبوضہ کشمیر کو ہندوستان نے ہڑپ کرلیا ہے اور دنیا پاکستان کا ساتھ نہیں دے رہی ۔ علاوہ ازیں پاکستان بدترین معاشی بحران سے گزر رہا ہے اور اس تناظر میں اسے دوستوں کی اشدضرورت ہے ۔ ہر ملک اپنے مفادات کو دیکھ کر فیصلے کرتا ہے ۔

خود پاکستان کو قطعااسرائیل کو تسلیم نہیں کرنا چاہئے کیونکہ پاکستان کےعوام کی واضح اکثریت ایسا نہیں چاہتی لیکن دوسرے ممالک کے فیصلوں پر ہماری برہمی کاکیا جواز؟۔ کیا ہم کل ترکی اور چین کے خلاف بھی جلوس نکالیں گے کیونکہ ان دونوں ممالک کے بھی تو اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں؟۔

کیا اب ہم ایران کے خلاف بھی مظاہرے کریں گے کہ اس کی ہمارے دشمن نمبرون ہندوستان کے ساتھ دوستی کیوں ہے؟ ۔ ہمیں اپنے ملک کی فکر کرنی چاہئے لیکن یہ کوئی عقل مندی نہیں کہ اس نازک موڑ پر جبکہ سعودی عرب کو حکومت نے ناراض کیا ہے،متحدہ عرب امارات کو ہماری مذہبی جماعتیں ناراض کرنے لگی ہوئی ہیں۔

تازہ ترین