• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اِس بار یوم آزادی پاکستان کی 73 ویں سالگرہ پر واٹس اپ پر دوست احباب کے مبارکباد کے بے شمارپیغامات موصول ہوئے ۔ مبارکباد کے اِن پیغامات میں ایک ایسا ویڈیو پیغام بھی شامل تھا جس کے الفاظ نے مجھے بے حد متاثر کیا کہ اس پیغام میں پاکستان سے محبت پنہاں تھی۔ یہ پیغام پاکستان میں تعینات سعودی سفیر نواف بن سعید المالکی کی جانب سے بھیجا گیا تھا جس میں وہ اردو میں پاکستانی قوم کو جشن آزادی پر مبارکباد دیتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ ’’میں اور میرا ملک سعودی عرب پاکستان اور اپنے پاکستانی بھائیوں سے محبت کرتے ہیں اور پاکستان کی آزادی کی 73ویں سالگرہ پر پاکستان اور عوام کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ پاکستان کو اپنا گھر سمجھتے ہیں، پہلے تنہا چھوڑا تھا، نہ آئندہ چھوڑیں گے۔ پاک سعودیہ لازوال دوستی زندہ باد۔‘‘

سعودی سفیر کے اِس ویڈیو پیغام میں پاکستان سے محبت کےساتھ ساتھ اُن کے چہرے پر ایک اُداسی بھی نظر آئی ۔ شاید اِس اداسی کا سبب وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا وہ حالیہ بیان تھا جس میں انہوں نے او آئی سی کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور چونکہ او آئی سی کو سعودی عرب کی سرپرستی حاصل ہے، اِس لئے اِسے سعودی عرب پر تنقید تصور کیا گیا۔ اپوزیشن جماعتوں اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے وزیر خارجہ کے بیان کو غیر ذمہ دارانہ قرار دیا جبکہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے پاک سعودی تعلقات کو باعث فخر قرار دیتے ہوئے سعودی عرب کو مسلم اُمہ میں مرکزی حیثیت سے تعبیر کیا تاہم بعد ازاں میڈیا اور سوشل میڈیا پر وزیر خارجہ کے بیان کو مختلف انداز میں پیش کیا گیا جس سے غلط فہمیوں نے جنم لیا اور دشمن عناصر کو افواہیں پھیلاکر پاک سعودی تعلقات مزید خراب کرنے کا موقع ملا ۔البتہ یہ بات قابل ستائش ہے کہ اس معاملے پر سعودی عرب نے بڑے تحمل کا مظاہرہ کیا اور وزیر خارجہ کے بیان پر کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا جس کا تمام تر سہرا سعودی سفیر نواف بن سعید المالکی کو جاتا ہے جنہوں نے گزشتہ دنوں پاکستان پہنچتے ہی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی جس کے بعد آرمی چیف نے سعودی عرب جانے کا اعلان کیا۔

پاکستان اور سعودی عرب کو قریب لانے میں سعودی سفیر نواف بن سعید المالکی کی کاوشیں اور خدمات قابل قدر ہیں۔ انہوں نے موجودہ صورتحال میں جس تدبر کا مظاہرہ کیا ہے، وہ قابل تحسین ہے۔ پی ٹی آئی کے برسراقتدار آنے کے بعد جب پاکستان کی معیشت دبائو کا شکار تھی، ایسے میں سعودی عرب سے 3 ارب ڈالر کی مالی امداد اور 3 ارب ڈالر ادھار تیل کے معاہدے میں سعودی سفیر نے کلیدی کردار ادا کیا۔ واضح رہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان معاشی، سیاسی اور فوجی تعلقات چند سال کی بات نہیں بلکہ یہ تعلقات کئی دہائیوں پر مشتمل ہیں۔ سعودی عرب، پاکستان کا دیرینہ دوست ہے جس نے ایٹمی دھماکوں، قدرتی آفات اور عالمی سطح پر حمایت میں پاکستان کا بڑھ چڑھ کر ساتھ دیا ہے جو تاریخ کا حصہ ہے۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں سعودی عرب نے پاکستان کی توقعات سے بڑھ کر مالی مدد کی، 1967ء میں شاہ سلطان بن عبدالعزیز کے دورہ پاکستان کے موقع پر سعودی مسلح افواج کے دستوں کی پاکستان کی بری، بحری اور فضائی افواج میں تربیت کا معاہدہ طے پایا، 1970-80ء میں سوویت افغان جنگ کے دوران افغان جہاد کیلئے سعودی عرب نے پاکستان کو اربوں ڈالر فراہم کئے۔ اسی طرح 1998ء میں ایٹمی دھماکے کے بعد جب پاکستان کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر صرف 200 ملین ڈالر تھے، سعودیہ نے پاکستان کی اربوں ڈالر کی مدد کی جبکہ حالیہ دنوں میں سعودی ولی عہد شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز کے دورہ پاکستان کے موقع پر سعودی عرب نے پاکستان میں مختلف شعبوں میں 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا۔ سعودی عرب میں 40 لاکھ سے زائد پاکستانی روزگار سے وابستہ ہیں جو سالانہ 5 ارب ڈالر سے زائدکی ترسیلات زر اپنے وطن بھیج رہے ہیں۔ اسی طرح حج اور عمرے کی سعادت کیلئے ہر سال لاکھوں پاکستانی سعودی عرب جاتے ہیں۔

پاکستان نے نہ صرف مسئلہ کشمیر اور فلسطین بلکہ دنیا بھر میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف عالمی سطح پر موثر آواز بلند کی ہے مگر مقبوضہ کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضے، بابری مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر اور کشمیریوں پر بھارتی مظالم کے معاملے پر پاکستان تنہا نظر آیا جس کی بڑی وجہ کچھ برادر اسلامی ممالک کا بھارت اور اسرائیل کے ساتھ تجارتی مفادات کو ترجیح دینا ہے۔ او آئی سی کو چاہئے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی مظالم پر اپنی آواز بلند کرے لیکن اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہتی ہے تو مسلمانوں کا او آئی سی پر سے اعتماد اٹھ جائے گا۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مقبوضہ کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضے اور مسئلہ کشمیر پر او آئی سی اور عرب ممالک کی جانب سے حمایت حاصل نہ ہونے پر حکومت شدید دبائو کا شکار ہوئی جس کی نشان دہی وزیر خارجہ کے حالیہ بیان سے ہوتی ہے تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ سعودی عرب کی مخالفت اور برادر عرب ممالک کو ناراض کئے بغیر معاملے کو افہام و تفہیم سے حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ افسوس کہ کل تک موجودہ حکومت ،سعودی عرب اور ایران میں صلح کرانے کے دعوے کررہی تھی لیکن آج اُسی حکومت کی سعودی عرب سے صلح کیلئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو سعودی عرب جانا پڑا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین