• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حالیہ بارشوں میں کراچی کو دریا بنتے دیکھ کر بڑے بڑے ادارے کراچی کی مدد کو دوڑ پڑے۔ لیکن ان سے بھی صورتحال کنٹرول نہ ہو سکی ۔ جس کی وجہ ان کی نااہلی نہیں بلکہ پانچ دہائیوں پر مشتمل پرانے مسائل ہیں جن کی جڑ تک پہنچے بغیر ان مسائل سے چھٹکارا ممکن نہیں۔ صرف چند بڑے ندی نالوں کی صفائی سے مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ یہاں تو گلی گلی نکڑ نکڑ پر نکاسی آب اور سیورج سسٹم میں رکاوٹ ڈلی ہوئی ہے۔ یہ کس قسم کی ہیں اور انہیں کیسے ختم کیا جاسکتا ہے یہ جاننا بہت ضروری ہے۔ اس پر کام ضرور ہونا چاہیئے ۔ ایک اربن ڈیویلپر کی بقول سب سے پہلے تمام نالوں کو کھولا جائے یعنی جن کو اوپر سے پکا کر کے کار پارکنگ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے یا گرین بیلٹ میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ وہاں دونوں طرف چھوٹی سی دیوار بنا کر انہیں کھلا رکھا جائے۔ دوسرے کوئی ایسی نگرانی کا نظام لایا جائے کہ ان ندی نالوں میں کچرا پھینکنے والوں کی پکڑ ہو سکے ۔ جب کچھ لوگوں کو جرمانہ ہوگا یا سزا ملے گی تو وہ اس قسم کی حرکات سے باز آئیں گے۔ دوسری طرف انتظامیہ چاہے شہری ہو، صوبائی ہو،دفاعی ہو یا نجی ۔کچرے کے ڈرمز ہر گلی اور محلے میں رکھ دے۔ اور کم از کم دن میں دو دفعہ اڈرمز کو خالی کروایا جائے اور ڈرمز کے باہر کچرا پھینکنے والوں اور ڈرمز چوری کرنے والوں کو سخت سزا دی جائے۔ پاکستان میں پلاسٹک کی کثرت ہے۔ تو کیا ڈرمز لوہے کے بجائے پلاسٹک کے بنا کر نہیں رکھے جا سکتے؟ ان پر آنے والے اخراجات ہر گلی کے مکین سے جمع کرکے پورے نہیں کئے جاسکتے؟ یونین کونسل کے افراد کے لئے کوئی مشکل کام نہیں وہ یہ رقم اکھٹا کرسکتی پے۔ دوسرے وہ حضرات جو شہرت کے لئے ایسے کام کرنے کا جذبہ رکھتے ہوں۔ ان کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ تو یقینا وہ بھی شہرت کے نام پر کچرے کے ڈرمز فراہم کردیں گے۔ لیکن سب سے اہم مسئلہ ان ڈرمز کو بروقت خالی کروانا ہے۔ جو کے صرف اور صرف انتظامیہ ہی کر سکتی ہے۔ چاہے وہ کوئی سی بھی ہو۔۔۔۔۔۔ دوسری طرف جو بڑے نالوں کی صفائی کی گئی ہے۔ اس سے مسئلہ کم تو ہو گا ختم نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ اس مسئلہ کی اصل وجہ ان ناولوں پر قبضہ ہے۔ شروع میں نالے چوڑے ہوتے ہیں۔ جیسے جیسے اندر کی طرف جائیں یہ تنگ ہوتے جاتے ہیں ۔ کیونکہ ان پر رہائشی کالونیاں آباد ہیں ۔ اور انھیں کسی نہ کسی سیاسی جماعت کی سرپرستی حاصل ہوتی ہے۔ جن کے یہ باقاعدہ ووٹرز ہوتے ہیں۔ ندی نالوں پہ قابض افراد بعد میں سیاسی جماعتوں کے ووٹرز بن کے ان سے زمین کے پکے کاغذات کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ جس کو پورا کرنے کے لئے لیے یہ سیاسی جماعتیں ان کو اپنے پکے ووٹرز تصور کرتے ہوئے۔ ان کے لئے آواز بلند کرتی ہیں۔ یہی وہ ووٹرز ہوتے ہیں جو نعرے لگانے، کسی لیڈر کا استقبال کرنے اور جلسے جلوس کروانے میں استعمال کئے جاتے ہیں ۔ کراچی کے رہنے والوں کے بارے میں رائے دی جاتی ہے ہے کہ یہاں پکے گھروں کے رہنے والے ووٹ نہیں دیتے اس لئے کچے علاقے خاص طور سے یہاں آباد کروائے جاتے ہیں ۔ اس کا آغاز ایوب خان کے دور میں ہوا تھا اور سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ جہاں خالی اراضی دیکھی سب سے پہلے مسجد قائم کی پھر اس کے ساتھ ساتھ گھر بننا شروع ۔ مسجد کی تعمیر کو ناجائز کہنے کی کوئی ہمت نہیں کرئے گا ورنہ کفر کا فتوی جاری ہوجائے گا۔ لہذا مشکل آسان بناتے جائیے دو کے بعد تین پھر چار پانچ منزلہ مکان بغیر بنیادوں کے کوئی پوچھنے والا نہیں۔۔ یوں مختلف علاقوں میں یہ سیاسی جماعتیں اپنے ووٹ بنک بنا رہی ہیں۔ اسی لیے لیے کراچی میں قبضہ مافیا مضبوط ہوتی جارہی ہے۔اور قبضہ بڑھتا چلا جا رہا ہے ۔سرکاری زمین ہو یا عوامی تفریح کے لیے ۔ ہر زمیں پر قبضہ کیا جاتا ہے ہے اور کسی قسم کی کوئی آواز نہیں ہوتی اور جب شدید بارشوں کے موسم میں میں یہ ندی نالے ابل پڑتے ہیں۔ اور ان قابضین کے گھروں میں داخل ہوجاتے ہیں تو یہی سیاسی پارٹیاں اپنے ووٹرز کے لئے آواز اٹھاتی ہیں۔ اور ان کی غربت کا رونا روتی ہے اور یہ بات بھول جاتے ہیں کہ غلط جگہہ ناجائز قبضہ کرکے ان لوگوں کا نقصان کیا جو اپنی محنت کی کمائی سے اپنے گھر بناتے ہیں اور پابندی سے ٹیکس بھی دیتے ہیں ۔لیکن افسوس ان کے لئے کوئی آواز نہیں اٹھاتا۔۔۔۔

minhajur.rab@janggroup.com.pk

تازہ ترین