• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کورونا وائرس کا لفظ لکھ لکھ کر اب سات ماہ ہونے کو ہیں ، ہر کالم كکے بعد امید رکھتا ہوں ك اگلے کالم میں ضرورت نہیں پڑے گی لیکن کبھی ادھر سے اور کبھی اُدھر سے یہ کہیں نا کہیں آ ہی جاتا ہے ۔ کورونا کا تعلق صرف صحت سے ہی نہیں بلکہ زندگی ك کے ہر شعبہ کو اِس نے بری طرح متاثر کیا ہے اور جہاں اِس کے اثرات سے نمٹنے كکے لیے مختلف اقدامت کیے گئے وہاں کئی جگہ نا انصافیاں بھی ہوئی ہیں ، اور شاید سب سے زیادہ نا انصافیاں اِس پورے عمل میں ہمارے طلباء كکے ساتھ ہوئیں ہیں جن میں سے یہ تین ناانصافیاں سر فہرست ہیں۔

پہلی نا انصافی ،جس کا میڈیا میں بھی بہت ذکر ہوا ہے وہ ہمارے اے لیول اور او لیول كکے طلباء كکے ساتھ ہوئی ہے ۔ان کو گزشتہ امتحانات كکے نتائج پر پریڈکٹڈ گریڈ دیئے گئے ہیں ، یعنی اندازے كکے گریڈ اگر وہ امتحان دیتے تو کیا نتیجہ آتا۔ اِس میں اعداد و شمار اور ماضی کی اسکولوں کی کارکردگی کو مد نظر رکھ کر گریڈز ترتیب دیئے گئے لیکن بہت سے بچوں کی شکایات سامنے آئیں ك۔ ان كکے گریڈ کافی برے آئے اور کافی بچوں کا یہ بھی سوال رہا كکہ اگر پہلے ہم کبھی فیل نہیں ہوئے تو ہمیں یہاں کیسے فیل کر دیا گیا ۔ انگلینڈ اور سکاٹ لینڈ میں بھی ایسے ہی مسائل پیش آئے ، وہاں بھی حکومت نے نوٹس لیا اور مختلف آپشنز كکے تحت بچوں كکے مسائل حل کرنے كکی کوشش کی ۔ اچھی بات یہ ہےکہ ك حکومت پاکستان نے بھی اِس کا نوٹس لیا اور امتحانی بورڈ نے خود فیڈ بیک کا اعتراف کرتے ہوئے 18 اگست کو رد عمل کی مزید تفصیلات بتانے کا کہا ہے۔ میں امید کرتا ہوں كکہ ان کا یہ مسئلہ حل ہو جائے گا ۔ مگر اصل نا انصافی یہ ہے كکہ کچھ یونیورسٹیز نے ابھی سے طلباء كکے داخلے کینسل کرنا شروع کر دیئے ہیں ، جس کی وجہ سے بہت سے والدین بھی پریشان ہیں۔یونیورسٹیوں کو چاہیے کہ طلباء کی پرانی کارگردگی پر بھی غور کریں اور بورڈ کی طرف سے رد عمل آنے سے پہلے کوئی بھی داخلہ منسوخ نہ کریں۔

دوسری نا انصافی آن لائن کلاسز سے متعلق ہے ۔ ہم نے پہلے بھی دیکھا ك کہ آن لائن کلاسز میں طلباء کو متعدد مسائل کا سامنا ہوا ۔ اس پر ایک کالم میں تفصیلی تذکرہ بھی کیا ۔ بالخصوص وہ طلباء جو غریب گھرانوں اور دور دراز كکے علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں ان کوزیادہ مسائل پیش آتے ہیں ۔کہیں انٹرنیٹ نہیں ہوتا اور کہیں دو کمروں میں جہاں چار یا پانچ لوگ رہیں وہاں آن لائن کلاس کدھر لی جا سکتی ہے ؟ بڑے بنگلوں میں بہترین انٹرنیٹ كکے ساتھ الگ کمروں میں رہنے والوں كکے لیے تو کوئی مسئلہ نہیں لیکن بہت سے لوگوں كکے لیے یہ مسئلہ ہے۔ اب لاک ڈاؤن بھی ختم ہے اور تعلیمی ادارے بھی ستمبر سے کھولے جارہے ہیں لیکن کچھ اداروں نے ابھی سے پلان کر لیا ہےکہ وہ اگلے 6 ماہ آن لائن کلاسز ہی جاری رکھیں گے ۔ ایسے طلباء كکے لیے یہ بہت بڑا چیلنج ہے اور یقینی طور پر ان کا تعلیمی سفر اِس سے بری طرح متاثر ہو گا ۔ ان كکے بارے میں بھی سوچنا ہمارے لیے ضروری ہے ۔ یا تو ان کو واپس یونیورسٹی میں ہی آن لائن کلاس لینے کی اجازت دی جائے یا باقی ملک کی طرح یونیورسٹیز کو بھی کھول دیا جائے ۔

تیسری ناانصافی، انٹرمیڈیٹ کے امپروومینٹ کے اسٹوڈنٹ كکے ساتھ اور اے لیولز كکے بچوںکے ساتھ ہو رہی ہے۔ جن بچوں نے اس سال امتحان دینے تھے اُنہیں تو پچھلے سال كکے مارکس ڈبل کرکےساتھ 3 فیصد اضافی مارکس بھی دیئے جا رہے ہیں ۔ مسئلہ ان بچوں کا نہیں ہے لیکن ان اضافی مارکس کی وجہ سے جن بچوں نے امپروو کرنے كکے لیے سال اپنا ضائع کیا ، ان کا اصل مسئلہ ہے ۔ ان کو کوئی اضافی مارکس نہیں ملے ، ان كکے امتحان ہونے ہیں اور ان کے نتائج بھی یونیورسٹی میں داخلوں کی آخری تاریخوں سے آگے چلے جائیں گے،یہاں ان کا مقابلہ اضافی مارکس والوں كکےساتھ ہو گا تو پِھر بھی وہ گھاٹے میں ہوں گے اور میرٹ لسٹ میں نیچے آئیں گے ۔ اسی طرح اے لیول ك کے بچوں کی جب مارک کنورژن ہوتی ہے تو انہیں ایک خاص حد سے زیادہ نمبر نہیں دیئے جاتے، جس کی وجہ سے میرٹ میں وہ نیچے آجاتے ہیں اور اب اضافی مارکس کی وجہ سے وہ میرٹ میں اور نیچے آئیں گے ۔ یہ بالخصوص میڈیکل یونیورسٹیز میں ایڈمیشن لینے والے بچوں كکے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ ہے اور جنہوںنےپہلے ہی ایک سال ضائع کیا ان کو شاید ایک اور سال ضائع کرنا پڑجائے گا ۔

کورونا کی وباء کو ہم سب نے بڑھ چڑھ کرشکست دینا ہے ۔ لیکن اِس کو ہراتے ہراتے ہمیں اپنے اسٹوڈنٹس، جو ہمارا مستقبل ہیں ، كکے ساتھ کہیں بھی ناانصافی نہیں کرنی چاہیے ۔ میں امید کرتا ہوںکہ حکام ان نا انصافیوں کا نوٹس لیں گے اور ہمارے ہزاروں ، لاکھوں طلباء کا مسئلہ حَل کریں گے ۔ وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود صاحب نے بڑھ چڑھ کر بچوں كکے لیے کام کیا ہے ، ان کی توجہ ان معاملوں پر بھی ضروری ہے۔

تازہ ترین