• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: مکلی ٹھٹھہ میں ایک مسجد حضرت سید عبداللہ شاہ اصحابیؒ کے مزار سے منسلک ہے اور دوسری مسجد حضرت مخدوم شاہ فضیل قادریؒ کے مزار سے منسلک ہے ۔دونوں مساجد کے درمیان آدھا کلو میٹر کا فاصلہ ہے ۔ عبداللہ شاہ اصحابی ؒکے مزار سے منسلک مسجد میں نمازِ جمعہ میں20-25افراد ہوتے ہیں ، مسجد شاہ فضیل قادریؒ میں پنج وقتہ نمازمیں 10-15نمازی ہوتے ہیں ۔دونوں مساجد کے قریب دو چھوٹی آبادیاں اور ایک چھوٹا بازار ہے ،اس صورت میں کیا مسجد شاہ فضیل قادریؒ میں نمازِ جمعہ اداکی جاسکتی ہے؟(شیخ مبشرعالم قادری ،مکلی ٹھٹھہ )

جواب: نمازِ جمعہ کا اجتماع اسلام کی شوکت کا مظہر ہے ، شِعارِ اسلام ہے ۔آپ نے دونوں مساجد میں نمازیوں کی جو تعداد لکھی ہے ، اسے ایک ہی مسجد میں جمعہ قائم کرنے دیں ، تقسیم نہ کریں ۔جن مساجد میں جمعہ نہیں ہوتا ،اُنہیں جمعہ کے دن ظہر کے وقت بند رکھیں ۔صدرالشریعہ علامہ امجد علی اعظمی ؒ لکھتے ہیں: ’’شہر میں متعدد جگہ جمعہ ہوسکتاہے ،خواہ شہر چھوٹا ہو یا بڑا اور جمعہ دو مسجدوں میں ہو یا زیادہ ۔ (درمختار)مگر بلاضرورت بہت سی جگہ جمعہ قائم نہ کیاجائے کہ جمعہ شعائرِ اسلام میں سے ہے اور جامع جماعات ہے اوربہت سی مسجدوں میں ہونے سے وہ شوکت اسلامی باقی نہیں رہتی ،جو اجتماع میں ہوتی ہے، نیز دفع حرج کے لیے تعدد جائز رکھاہے توخوامخواہ جماعت پراگندہ کرنا اور محلہ محلہ جمعہ قائم کرنانہیں چاہیے ۔ 

نیز ایک بہت ضروری امر جس کی طرف عوام کو بالکل توجہ نہیں ،یہ ہے کہ نمازِجمعہ کو اورنمازوں کی طرح سمجھ رکھاہے کہ جس نے چاہا ،نیاجمعہ قائم کرلیا اور جس نے چاہا پڑھا دیا ،یہ ناجائز ہے، اس لیے کہ نمازِجمعہ قائم کرنا بادشاہِ اسلام یا اس کے نائب کاکام ہے اور جہاں سلطنتِ اسلامی نہ ہو ،وہاں جوسب سے بڑا فقیہ سُنّی صحیح العقیدہ ہو ،اَحکام شرعیہ جاری کرنے میں سلطان اسلام کے قائم مقام ہے، لہٰذا وہی جمعہ قائم کرے ،بغیر ا س کی اجازت کے نہیں ہوسکتا اوریہ بھی نہ ہوتو عام لوگ جسے امام بنائیں ،عالم کے ہوتے ہوئے عوام بطور خود کسی کو امام نہیں بناسکتے، نہ یہ ہوسکتا ہے کہ دوچار شخص کسی کو امام مقر رکرلیں،ایسا جمعہ کہیں سے ثابت نہیں۔(بہارِ شریعت ،جلداول)

امام اہلسنّت امام احمد رضا قادری ؒسے سوال ہوا:’’ایک قصبے میں جامع مسجد ہے کہ ہمیشہ اُس میں جمعہ ہوتا ہے، اب ایک مسجد بناء ہوئی اُس کو جامع مسجد بنانا اور قدیم کی جامع مسجد کو ترک کردینا یا دونوں جگہ جمعہ پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟‘‘آپ نے جواب میں لکھا: ’’قصبہ وشہر جہاں جمعہ جائز ہے، وہاں نماز جمعہ متعدد جگہ ہونابھی جائز ہے، اگر چہ افضل حتّی الوسع ایک جگہ ہوتا ہے اور اگلی مسجد جامع کو ترک کردینے کے اگر یہ معنی کہ اُس میں نماز ہی چھوڑدی جائے ، تو قطعاً نا جائز کہ مسجد کا ویران کرنا ہے او راگر یہ مراد کہ نماز تو وہاں ہوا کرے ،مگر جمعہ وہاں کے بدلے اب اس مسجد جدید میں ہو، اس میں اگر وہاں کے اہل اسلام کوئی مصلحتِ شرعیہ قابل قبول رکھتے ہوں توکیا مضائقہ ، ورنہ مسجد جامع وہی مسجد قدیم ہے او راس میں نماز جمعہ کا ثواب زائد، (فتاویٰ رضویہ ، جلد8،ص:312)‘‘۔ 

امام اہلسنّت امام احمد رضا قادریؒ اور صدرالشریعہ علامہ امجد علی اعظمیؒ کی تصریحات کے مطابق اگر مذکورہ مسجد میں جمعہ کی نماز قائم کرنے کی ضرورت نہیں ہے یا قرب وجوار کی مساجد میں پہلے سے قائم جمعے کااجتماع متاثر ہوتاہے توآپ اپنی مسجد میں جمعہ قائم نہ کریں ۔بہتر یہ ہوگا کہ اس کے لیے آپ ٹھٹھہ میں اہلسنّت کے جو معتمد اور مسلّم مفتی ہیں ،اُن سے رجوع کریں ،وہ یقیناً مقامی حالات اور اُس کے تقاضوں سے واقف ہوں گے ، وہ بہتر فیصلہ اور رہنمائی کرسکتے ہیں ۔

تازہ ترین