• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی تاریخ میں اپریل راؤنڈ تبدیل کرنے کا مہینہ ہے۔ اس مہینے میں ڈینگی کا مچھر واپس آتا ہے۔ خزاں واپس جاتی ہے اور بہار نئے شگوفے لاتی ہے۔ اسی مہینے میں پہلے منتخب عوامی وزیرِ اعظم کا عدالتی قتل ہوا۔2013ء کا اپریل ہر اعتبار سے فائنل راؤنڈ کا سیزن ہے۔ موسمیات سے سیاسیات تک۔ اس فائنل راؤنڈ کے کھلاڑی مقامی تو ہیں ہی انکے علاوہ علاقائی بھی اور بین الااقوامی بھی۔ مگر یہ سارا راؤنڈ” گرے ایریا“۔میں کھیلا جائے گا۔ بظاہر سفید نظر آنے والی ٹیم بلیک کارنر کی طرف سے ،اور کالی نظر آنے والی ٹیم وائٹ کارنر سے دفاعی کھلاڑی کا کردار ادا کرے گی، مگر کیسے…؟ یہ ہے ملین ڈالر سوال۔ آج کل الیکشن کے نظر آنے والے ہدایت کار اور نہ نظر آنے والے ریفری دونوں ہی اسی سوال کا جواب ڈھونڈ رہے ہیں۔ ایک دن پہلے ہفتوں بعد مارگلہ کے شاہین نے بھی ایک بار پھر نئے سرے سے پھڑپھڑانے کا مظاہرہ کیا۔ یہ پھڑپھڑاہٹ نئی طاقتِ پرواز کیلئے ہے؟ یا محض اسے لہو گرم رکھنے کا بہانہ کہا جا سکتا ہے۔ یہ بھی فائنل راؤنڈ کے کھیل کا لازمی حصہ ہے۔
فائنل راؤنڈ کے اصل ہدایت کاروں نے کہیں بھی الیکشن الائنس نہیں ہونے دیا جس کے نتیجے میں چاندی کی دیوار نہ ٹوٹی، تارے توڑنے والوں سے ۔ اور اب کالے سفید اور خاکی رنگ ملا کر آج سے تین ہفتے بعد" ہنگ پارلیمنٹ "کے خاکے کا ناک نقشہ درست ہو رہا ہے۔ میں نے دو کالم پہلے جس "مدر آف آل دی کریمنل ٹرائلز" کا ذکر کیا تھا اس میں مدّعی اب بھی سست ہیں، لیکن گواہ برق رفتاراور چست۔ میں بات کر رہا ہوں سلطانی گواہوں کی، لیکن فائنل راؤنڈ کے لئے کھیل کے میدان کا چناؤ کون کرے گا ؟ اس کا فیصلہ بہت جلد ہونیوالا ہے۔ جب ایک طرف کے زور آور اپنے سامان ِ حرب اور بارود سمیت جنگی مشق پر نکلیں جسے عسکری ماہرین وار گیم کہتے ہیں۔ تو پھر دوسرا فریق بلکہ ظاہری طور پہ خاموش نظر آنے والا فریق پوری تیاری کر چکا ہوتا ہے۔ جب لشکری بال ٹو بال اور آئی ٹو آئی کی پوزیشن میں ڈال دئیے جائیں تو ایسے میں غلطی سے چلنے والا پٹاخہ بھی سرد جنگ کو فائنل راؤنڈ میں تبدیل کر سکتا ہے۔ آپ اسے سازشی تھیوری مت سمجھئے گا میں قانون کا طالب علم اور دُنیا بھر کے ممالک کے آئین کا مستقل قاری ہوں۔ اس لئے اپنے آئین کو سب سے زیادہ کھولتا ہوں ۔اور جس آرٹیکل نمبر 6 کا ہر طرف "ورد" ہو رہا ہے اس میں استعمال ہونے والے ہائی ٹریزن کے لفظ کا مطلب ہے غداری۔ یہ جرم سرزد کرنے والا ٹریٹر یا غدار کہلاتا ہے۔ جنگ کے ایک رپورٹر نے بالکل درست لکھا ہے کہ اگر پاکستان میں آرٹیکل نمبر6 کا مقدمہ چلا تو وہ دُنیا کی مسلح افواج میں سے پہلے آرمی چیف کو غدار کہہ کر، اسے غدار لکھ کر، غداری کا ٹرائل چلانے والی عدالت میں بھیجا جائے گا جسے متعلقہ قانون میں اسپیشل جج سینٹرل کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ کالم چھپنے تک یہی ملزم دس دنوں میں دوسری دفعہ دہشت گردی کی عدالت میں حاضر ہو چکا ہے۔ یہاں یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ ان دونوں جرائم کی سزا پھانسی ہے۔ اور اس کے مجرموں میں جرم کرنے والے کے ہمراہیوں ، اس کے مددگاروں اور معاونوں اور اُس کو تحفظ فراہم کرنیوالوں کو بھی ہائی ٹریزن کے قانون میں برابر کا مجرم گردانا گیا ہے۔ کسی بھی ٹیم کیلئے چھوٹے میچ فکس کرنا بہت آسان کام ہے لیکن ورلڈ کپ جیسے”میگا ایونٹ“ کے بڑے میچ کا فائنل راؤنڈ تو درکنار اس کی اسپاٹ فکسنگ بھی اس جدید دور میں چھپانا ایسے ہی ہے جیسے کوئی ایٹم بم پھینک کر کہے کہ وہ ایٹمی دھماکے کو چھپا سکتا ہے۔ حالیہ الیکشن کے منیجروں کی تعیناتی کی طرح اس انتخاب کے نتائج بیان کرنے والے طوطے شہر اقتدار کی ہر دیوار پر چہچہا رہے ہیں۔ اوران انتخابات کا نتیجہ فرفر بول کر سُنا رہے ہیں۔
کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ فائنل راؤنڈ کے اصل کھلاڑی ابھی میدان ہی میں نہیں اُترے۔ ابھی تو بالک اور پٹھے اُتارے گئے ہیں جو نمائشی پنجہ آزمائی کے ذریعے دوسرے فریق کی طاقت یا اس کے استعمال کا ارادہ جانچ رہے ہیں۔ اصل راؤنڈ میں یا تونئے کھلاڑی ہوں گے یا بڑے گُرو اُستاد۔ اگر آپ ذرا سا بھی غور کریں تو آپ کو الیکشن کے حوالے سے عوام میں پائی جانے والے بے یقینی کی کیفیت کی اصل وجہ صاف نظرآ سکتی ہے۔وہ وجہ ان سے منسوب نہیں ہو رہی جو اکھاڑے کے اندر ہیں بلکہ خبر کی تلاش میں گھومنے والے ڈیروں کا طواف کر رہے ہیں۔ نجانے کیوں مجھے ایک انگریزی کہانی یاد آ رہی ہے جسے فلمایا بھی گیا ہے۔ اس میں وکیل برادری کو سامنے رکھ کر یہ ثابت کیا گیا ہے کہ زندہ کوّے یا صحتمندکوّے ایک دوسرے کا خیال نہیں کرتے لیکن جونہی کسی ایک کا پر کٹنے لگے یا وہ بجلی کے تاروں میں پھنس کر کھمبے سے اُلٹا لٹکنے لگے یا بے پرواہ ڈرائیور کی ونڈ اسکرین سے ٹکرا جائے تو پھر وہ اسے تنہا نہیں چھورتے، ایسے موقع پر ان کا اتحاد دیکھنے کے قابل ہوتا ہے اور ان کا ری ایکشن بھی۔بات چلی اتحاد کی تو اگلے الیکشن کے سب سے مظلوم اور محروم فریق یعنی ووٹر کو یہ بات بھی یاد رکھنی ہو گی کہ پاکستان میں طاقتور مافیائیں، وڈیروں، سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور چور بازاروں پر مشتمل پاکستان کے مستقل مالکان کے درمیان مکمل اتحاد ہے۔ کبھی اس مظلوم جمہوریہ کے محض ایک سو گھرانے ظلِ الٰہی کہلایا کرتے تھے۔اُس وقت پاکستان کی کُل آبادی پانچ کروڑ تھی اب یہ آبادی بیس کروڑ ہے۔ مگر اب ان کی تعداد چار سو گھرانے نہیں رہی۔ یہ تعداد بڑھ کر ایک ہزار گھرانوں تک پھیل چکی ہے۔ یہ سارے اکٹھے اور متحد ہیں۔ کہیں پر خاندانی رشتہ داریوں کے ذریعے اور کہیں کاروباری شراکت داریوں کے ذریعے اور کہیں جائیدادوں میں شریک ِکھاتہ بن کر ان کے مفادات اکٹھے ہیں۔بلکہ ان کے مفادا ت ہی نہیں ان کی سوچیں بھی یکساں ہیں۔ یہ ایک دوسرے کو اکاموڈیٹ کرتے ہیں۔ ان کی مفاہمت ضرورت کی ماں ہے۔ اس کے مقابلے میں وہ جنھیں فائنل راؤنڈ میں ہانک کر دھکیلا جاتا ہے یعنی انیس کروڑ ننانوے لاکھ ننانوے ہزارعام آدمی۔ ان کے درمیان مخالفت، رنجش، آویزش اور تقسیم پیدا کرنے والے ذرائع کی تعداد چالیس کروڑ سے بھی زیادہ ہے۔ اس زمینی حقیقت کا لازمی نتیجہ دُنیا کی واحد اسلامی، ایٹمی طاقت میں یہی ہو سکتا ہے کہ محض ایک ہزارگھرانوں کے دو ہزار مکےّ عام آدمی کو ایک ایک کر کے باری باری پڑیں گے۔ اس طرح آنے والے پانچ سال بھی مار کھانے والے پھر مار کھائیں گے اور مال کھانے والوں کیلئے نہ جانے کچھ بچے گا بھی یا نہیں۔۔۔۔؟
فائنل راؤنڈ کے علاقائی کھلاڑی 2014ء کیلئے لنگر لنگوٹ کس رہے ہیں۔ افغانستان میں عام آدمی کو اقتدار ملے گا یا نہیں اب یہ سوال زیرِ بحث ہے۔ کیونکہ کابل کے امریکی صدر نے ایک ایک کرکے پہلے اپنے ساتھیوں کو بھنبھوڑا اور پھر اتحادیوں کو جھنجھوڑا۔ اس لئے عزتِ سادات اگر کوئی ہے تو اُسے بچانے کیلئے وہ یک و تنہا باغِ بالا سے چہار اسیاب تک دیوانہ وار دوڑ لگاتے نظر آتے ہیں۔ مئی 2013 سے مئی 2014 کے درمیان بھارت خطے میں ہونیوالی تبدیلیوں کے فائنل راؤنڈ کی تیاری کر رہا ہے۔ پاکستان پر دباؤ بڑھانے کیلئے وہ زبانی بڑھکوں سے ایک قدم آگے جا سکتا ہے۔ جبکہ افغانستان سے قابضین کی واپسی کے بعد بھی فائنل راؤنڈ ہو گا۔ پاکستان کے اندر اقتدار کی مثلث کے تین بڑوں میں سے دو کے نام تقریباً سامنے آ چکے ہیں۔ تیسرے عہدے کیلئے سنیارٹی نہیں پارلیمانی نمبر گیم کا راستہ کھلے گا، جس کا حتمی مہینہ ستمبر ہے، لیکن اُس کی تاریخ 11 مئی کے انتخابی نتائج سے تبدیل بھی ہو سکتی ہے۔ شہزادو کمیشن رپورٹ نے قصاص و دیت کے شرعی قوانین کا روڈ بلاک دُور کر دیا ہے۔ اس کا فائنل بھی اس سال کے دسمبر سے پہلے ہی ممکن ہے۔ فائنل راؤنڈ میں پاکستان کی طرف سے کون کھیلے گا؟ ابھی کوئی ایسا نظر نہیں آتا۔
اکثر تجزیہ کار بڑے صلاح کاروں کے ہتھے چڑھے ہوئے ہیں، لہٰذا ہر کوئی ان ہونی کو روکنے کی بات کرتا ہے، لیکن یہ کوئی نہیں بتاتا کہ فائنل راؤنڈ شروع ہے اور اس میں ہوگا کیا؟ پاکستان ایک ایسی بدقسمت تاریخ بنا رہاہے جہاں کوئی انا کے پہاڑ سے نیچے اترنے پر تیار نہیں۔ ہر طرف سے انتقام کا نعرہِ مستانہ بلند ہو رہا ہے، انصاف ،اصول اور رواداری سہمے ہوئے بلکہ دبکے ہوئے ہیں۔ اصولی موقف کہاں ہے اور وصولی موقف کیوں ہے ؟ سارے نظرئیے، نظریہِ ضرورت کی جیب سے کیوں برآمد ہو رہے ہیں؟ اس کا جواب وہ کیا دینگے جو آج کل خود لاجواب ہیں اور حالات کی کاک ٹیل اردو شاعری میں پنجابی کا سب سے پہلا مکسچر ڈالنے والے راجہ مہدی علی خان کے تصورات سے ملتی جلتی ہے۔
وہ" بالِ جبریل " کھو گئی ، لے گئے ہیں شاید اُسے فرشتے
سنبھال کر ورنہ طاقِ نسیان میں رکھی تھی، معاف کیجیے
”کلامِ اکبر“کو میرے اصغر نے چار آنے میں بیچ ڈالا#
زیادہ پیسے نہیں ملے چونکہ، پھٹ گئی تھی، معاف کیجیے
وہ " نقش فریادی "روس چل دی کہ روس اس کو پسند آیا
ہمارے گھر میں بہت ترقی نہ کر سکی تھی، معاف کیجیے
تازہ ترین