• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کراچی اور سندھ میں قبضہ مافیا کی سچی یا جھوٹی سیکڑوں بلکہ ہزاروں کہانیاں ہر خاص و عام کی زبان پر ہیں مگر میں جو کہانی لکھنے جارہا ہوں وہ جھوٹی نہیں اور نہ ہی کسی خاص و عام کی زبان سے اب تک سنی ہے ہاں جب گوگل (Google)کیا تو ایک انگریزی اخبار کی ایک خبر ضرور کمپیوٹر کی اسکرین پر آگئی۔ پڑھ کر افسوس ہوا اور حیرانی بھی کیونکہ میں جو کہانی لکھنے جارہا تھا وہ عدالت میں داخل کی گئی درخواست کی کاپی سے نقل کی گئی ہے افسوس اس لئے ہوا کہ جنوری 29، 2011کے اخبار میں یہ خبر چھپی ہوئی ملی جو میں سمجھ رہا تھا شاید ایک بڑا Scoop ہو یعنی صحافتی زبان میں ایک ایسی تہلکہ مچا دینے والی خبر، جسے پہلی دفعہ بریک کیا جارہا ہو۔ غور سے پڑھا تو تفصیل ساری دی گئی تھی مگر پھر سوچنا شروع کیا تو عجیب عجیب سوالات ذہن میں آنا شروع ہوئے۔ کہانی کسی اور کی نہیں خود بھٹو صاحب کی بیٹی اور بے نظیر بھٹو کی بہن صنم سیما بھٹو کی ہے۔ 2011 میں صنم بھٹو نے سندھ ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی اور ملک کے مشہور و معروف وکیل جناب منیر اے ملک کو اپنا وکیل کیا۔ یہ درخواست دو حضرات ا میر مصطفی ولد غلام مصطفیٰ ساکن 105/1 ، اسٹریٹ 29، ڈیفنس فیز 5 ، خیابان محافظ کراچی اور فرمان علی ولد سائیں داد پھلپوٹو ساکن گڑھی خدا بخش پھلپوٹو، ٹپال گھر، رتو ڈیرو ضلع لاڑکانہ کے نام تھی اور تیسرا فریق اس میں کراچی کی سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کو بنایا گیا تھا۔ یہ درخواست کیوں اور کیسے داخل ہوئی ایک بڑا معمہ ہے کیونکہ بھٹو کی بیٹی کو ایک ایسے سیاسی دور میں جب خود بھٹو کی پارٹی کی صوبے میں حکومت تھی، خود بھٹو صاحب کے داماد ملک کے صدر مملکت تھے ان کا بھانجا اور بھٹو کا نواسہ ملک کی سب سے بڑی حکومتی پارٹی کا چیئرمین تھا اور بھٹو کی پارٹی کا کراچی کی ضلعی حکومت پر بھی قبضہ تھا، عدالت عظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹانے کی کیوں ضرورت پیش آئی۔ مسئلہ کوئی اربوں کھربوں کا بھی نہیں تھا۔ کراچی کے کلفٹن کے علاقے KDA اسکیم 5، بلاک 5 میں پلاٹ نمبر D-164 کا مسئلہ تھا اور یہ کوئی ایسی بات نہیں تھی کہ صنم بھٹو کو عدالت جانا پڑتا۔ اپنی پارٹی اور اپنے ہی خاندان کی حکومت کے دور میں اگر بھٹو کی واحد اولاد اور بے نظیر کی سگی بہن، بلاول کی وہ خالہ جس نے بلاول کو پالا اور آج تک وہ بلاول کیلئے ماں کی حیثیت رکھتی ہے اس کا مسئلہ کیوں گھر کے اندر اور اپنی حکومت نے طے نہیں کیا۔ اپنی درخواست میں جو وکیل منیر ملک نے دائر کی، کہا گیا کہ صنم بھٹو نے 1981 میں مذکورہ پلاٹ گل حسن ولد آغا محمد جام سے 11-1-1981 کو خریدا اور اس کے کاغذات اپنی بہن بینظیر بھٹو کے پاس رکھا دیئے کیونکہ صنم بھٹو زیادہ تر ملک سے باہر رہتی تھیں صنم بھٹو پھر پاکستان سے چلی گئیں اور 1996ء میں مختصر عرصے کیلئے دو مرتبہ پاکستان آئیں پہلے ستمبر میں جب ان کے بھائی میر مرتضیٰ کا قتل ہوا اور دوبارہ دسمبر میں۔ پھر دسمبر2007ء میں بے نظیر کا قتل ہوگیا۔ 2010 کے آخر میں صنم بھٹو جب پھر پاکستان آئیں تو سوچا کہ اس 1083گز کے پلاٹ کو جس کی مارکیٹ میں قیمت کچھ کرو ڑتو ہوگی بیچ دیں۔ کیونکہ اصلی کاغذات وہ بے نظیر سے لے نہیں سکی تھیں اور کسی نے انہیں دیئے بھی نہیں تو کراچی کی ضلعی حکومت سے معلوم کروایا تو انہیں اس دھماکہ خیز بات کا انکشاف ہوا کہ وہ پلاٹ تو کسی اور یعنی ایک فرمان علی صاحب نے امیر مصطفیٰ کے نام منتقل کروادیا ہے۔ فرمان علی نے کیسے یہ کام کیا۔ صنم بھٹو اپنی درخواست میں لکھتی ہیں کہ ایک پاور آف اٹارنی داخل کرائی گئی جس میں کہا گیا کہ صنم بھٹو نے 1996 میں فرمان علی کو اپنا اٹارنی مقرر کیا ہے اور انہیں یہ اختیار دے دیا ہے کہ وہ ان کا پلاٹ بیچ دیں۔ صنم کا کہنا ہے کہ انہوں نے کسی فرمان علی کو کوئی کاغذ نہیں دیا اور یہ سب جعلی کام ہوا ہے ۔ ان کا یہ استدلال ہے کہ یہ حق دینے کے لئے رجسٹرار کے سامنے پیش ہوکر دستخط کرنے ہوتے ہیں اور وہ کسی رجسٹرار کے سامنے نہیں گئیں۔ انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ 30-4-2008 کو جو ٹرانسفر آرڈر جاری کیا گیا وہ منسوخ کیا جائے اور انہیں ایک لاکھ روپے مہینے کے حساب سے اب تک کا معاوضہ بھی دیا جائے اور پلاٹ کا قبضہ واپس کیا جائے۔ اخباری خبر کے مطابق جب صنم بھٹو کا کیس جمعہ 28جنوری 2011 کو جسٹس محمد تسنیم کی عدالت میں سنا گیا تو جج صاحب نے حکم جاری کیا کہ امیر مصطفی اور ضلعی حکومت کے نام نوٹس جاری کئے جائیں اور صنم بھٹو کو اجازت دی گئی کہ وہ ایڈیشنل رجسٹرار کو اپنے انگوٹھے اور انگلیوں کے نشانات دے دیں تاکہ جب اس کیس کی تفتیش ہو تو ان کے انگلیوں اور انگوٹھے کے نشان کو اس پاور آف اٹارنی پر لگائے گئے نشانات سے ملایا جاسکے۔ پھر صنم بھٹو لندن روانہ ہوگئیں۔ یہ تو تھی 2011 تک کی کہانی۔ اس کے آگے کی اب داستان مجھ سے سن، سن کے تیری نظر ڈبڈبا جائے گی۔ یہ فلم مقدر کا سکندر کا گانا جو امتیابھ بچن نے ریکھا کے ساتھ گایا تھا مجھے یاد آگیا۔ عدالت کے نوٹس بھیجے گئے مگر جو پتے لکھوائے گئے تھے وہ جعلی نکلے۔ جب معلوم کیا گیا تو پتہ چلا کہ امیر مصطفیٰ کلفٹن ہی میں سمندر کے قریب ایک ایسے محل میں رہتے ہیں جہاں سیکڑوں پولیس والے پہرہ دیتے ہیں اور کسی عدالت کے کارندے کا نوٹس پہنچا کر وصولی کروانے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ سندھ حکومت کے ماتحت کراچی کی انتظامیہ نے بھی عرف عام میں حالات کی نزاکت کو بھانپ کر ٹھنڈکرادی۔ صنم بھٹو نے کل 9کروڑ کا دعویٰ کیا تھا مگر قبضہ مافیا تو بھٹو کی بیٹی کو بھی معاف کرنے کو تیار نہیں تھی۔ وکیل منیر ملک صاحب کے گھر پر فائرنگ کے بعد وہ بھی خاموش ہوگئے اور کیس داخل دفتر ہی ہوگیا۔ مگر اس سارے واقعے کے سیاسی اثرات اور ذرات کہاں تک پہنچے۔ صنم بھٹو نے توبہ کرلی کہ وہ اب اپنے والد کی پارٹی کے کسی کام نہیں آئیں گی اور اب جبکہ 5سال کی ایک تباہ کن حکومت کے بعد پی پی پی سخت مشکلات میں ہے صنم توکہیں نظر نہیں آرہیں۔ ان کا اثر بلاول پر اتنا زیادہ ہے کہ ہم جو روز بلاول کے ناراض ہونے کی خبریں سنتے ہیں اور روز انہیں مناکر ایک تقریر یہاں اور ایک تقریر وہاں کرنے کے لئے لایا جاتا ہے وہ اب لگتا ہے مجبوری ہی میں ہورہا ہے ورنہ بلاول اپنی خالہ کے پاس رہنا پسند کرتے ہیں اور خالہ کے ساتھ جو ہاتھ ہوا ہے وہ ان کو سخت اذیت دے رہا ہوگا۔ مگر یہ مسئلہ کیوں گھر کے اندر حل نہیں ہوا اور پوری سیاسی اور حکومتی طاقت کی موجودگی میں بھٹو کی بیٹی کو عدالت کا دروازہ کیوں کھٹکھٹانا پڑا۔ دیکھنے میں تو یہ آیا ہے کہ کلفٹن کا وہ علاقہ جہاں بے نظیر بھٹو رہتی تھیں اب ایک قلعے کی طرح عام لوگوں کیلئے بند کردیا ہے اور ارد گرد کی تمام جائیدادیں خرید لی گئی ہیں یہ سب سڑکیں اور گھر اور بنگلے کروڑوں اور اربوں کی مالیت کے ہیں سو بے چاری صنم بھٹو کو ایک جائز طریقے سے خریدے ہوئے پلاٹ سے بھی محروم کردیا قبضہ مافیا نے اور کوئی ان کی مدد کو نہیں آیا۔ میں اور آپ اور ہزاروں لوگ تو ایسی کہانیاں سن کر اور سنا سنا کر تھک گئے ہیں اور انتظار میں ہیں کہ ہماری آزاد عدلیہ کبھی کسی کو انصاف دے لیکن کیا عدلیہ صنم بھٹو کو بھی انصاف نہیں دے سکتی اور نہ صرف جج صاحب بلکہ خود وکیل منیر ملک جو کہ چیف جسٹس افتخار چوہدری کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے تھے اب صنم بھٹو کو بھی انصاف نہیں دلا سکتے۔ اگر ایسا ہے تو ہم اور آپ کیا بیچتے ہیں اور کس کھیت کی سڑی ہوئی مولیاں ہیں اور کیا آزاد عدلیہ ڈھونگ ہے ایک نعرہ ہے اور یہ کہانی پڑھ کر جب نظر ڈبڈبانے والا منظر آیا وہ درخواست کا وہ حصہ ہے جس میں صنم سیما بھٹو نے اپنے وارثوں کے نام عدالت میں لکھوائے ہیں کیونکہ لگتا ہے انہیں امید نہیں تھی کہ ان کی زندگی میں فیصلہ ہوجائے۔ یہ وارث ان کی بیٹی آذارہ حسین، ان کا بیٹا شاہ میر حسین اور ماں بیگم نصرت بھٹو ہیں۔آج تک شاید ہی کسی نے ان دو ، بھٹو کے نواسے نواسی کا نام سنا ہو ان حالات میں ان کا نام منظر عام پر آناایک دل ہلا دینے والی بات ہے بیگم نصرت بھٹو تو اب موجود نہیں بچے ہی انتظار کریں گے کسی فیصلے کا!
تازہ ترین