• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسٹیٹ بینک نے آئی ایم ایف کو قرض کی ادائیگیوں کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر میں تشویشناک حد تک کمی کے پیش نظر روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے مہنگائی میں مزید اضافے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ اسٹیٹ بینک کی جانب سے مالی سال 2013 ء کی پہلی اوردوسری سہ ماہی رپورٹ پیش کی گئی ہے جس کے مطابق اسٹیٹ بینک کے پاس 6 ارب 69کروڑ ڈالر کے زرمبادلہ کے ذخائر ہیں جو 2 ماہ سے کم ہمارے درآمدی بل کے برابر ہیں، معیشت بے یقینی کا شکارہے، انتخابات کے باعث مقامی کمپنیاں سرمایہ کاری سے ہچکچارہی ہیں، رپورٹس کے مطابق آئے دن کی ہڑتالیں ، امن و امان کی موجودہ صورتحال اور توانائی کا بحران بھی تجارتی سرگرمیوں میں رکاوٹ بنا رہا جس کی وجہ سے رواں مالی سال ملکی شرح نمو 3%سے 4% اور مالیاتی خسارہ 7.5% رہے گا جبکہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجے جانے والے ترسیلات زر 14 ارب روپے سے زائد متوقع ہے۔ سہ ماہی رپورٹ کے مطابق مالیاتی خسارہ پورا کرنے کیلئے حکومت اسٹیٹ بینک سے قرضے لے رہی ہے اور حکومت کے بینکوں سے لئے گئے قرضوں میں گزشتہ سال کے مقابلے میں اس سال صرف سود کی ادائیگی 42.4% بڑھ گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق حکومت کے موجودہ اخراجات میں 31% اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے رواں مالی سال کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ملکی جی ڈی پی کا ایک فیصد تک رہنے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے جبکہ رواں مالی سال افراط زر اوسطاً 8% سے 9% متوقع ہے۔اسٹیٹ بینک نے اپنی اپریل اور مئی 2013ء کی مانیٹری پالیسی پر نظرثانی کرتے ہوئے ڈسکاؤنٹ ریٹ کو 9.5% کی شرح پر برقرار رکھا ہے جبکہ بزنس کمیونٹی کا مطالبہ تھا کہ ڈسکاؤنٹ ریٹ میں کمی سے بینکوں کے قرضوں کے شرح سود میں کمی کی جائے تاکہ ملکی صنعتی سیکٹر میں سرمایہ کاری ہو اور ملازمتوں کے نئے مواقع پیدا کئے جاسکیں۔ سارک ریجن میں اس وقت افغانستان کے علاوہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا ڈسکاؤنٹ ریٹ سب سے زیادہ 9.5% ہے۔ انڈیا کا 7.5%، بنگلہ دیش کا 7.25%، سری لنکا کا 7.5%، مالدیپ 7%، نیپال اور بھوٹان 6% اور افغانستان کا 15% ہے۔ رپورٹ کے مطابق آنے والے چند مہینے ملکی معیشت کیلئے نہایت اہم ہوں گے جس میں حکومت نے آئی ایم ایف کو اپریل اور مئی 2013ء میں 785 ملین ڈالر کے قرضوں کی ادائیگی کرنی ہے جس کیلئے وزیر خزانہ کی عدم موجودگی میں خزانہ و معاشی امور کے سیکریٹریز اور گورنر اسٹیٹ بینک پر مشتمل مذاکراتی ٹیم آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے نئے قرضوں کے حصول کیلئے واشنگٹن ڈی سی روانہ ہوگئی ہے۔ پاکستان کی بڑے درجے کی صنعتوں (LSM) نے رواں مالی سال کی دوسری سہ ماہی میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے جس میں آٹوموبائل، شوگر، سیمنٹ، فرٹیلائزر اور اسٹیل سیکٹرز شامل ہیں۔ اس سال ملک میں 5 ملین ٹن شکر کی پیداوار متوقع ہے جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 7.9% زیادہ ہے۔
ملکی ترسیلات زر میں 6.35% اضافہ ہوا ہے اور پہلے 9 ماہ میں یہ 10.3 بلین ڈالر تک پہنچ گئی ہیں۔ امید کی جارہی ہے کہ یہ ترسیلات زر جون2013ء تک 14 بلین ڈالر سے تجاوز کرجائیں گے۔ سب سے زیادہ ترسیلات زر سعودی عرب (3 ارب ڈالر) اور یو اے ای (2 ارب ڈالر) سے موصول ہوئے ہیں جس کے بعد امریکہ (1.6 ارب ڈالر) ، برطانیہ (1.4 ارب ڈالر)، خلیجی ممالک (1.2 ارب ڈالر) جبکہ ناروے، سوئٹزرلینڈ، آسٹریلیا، کینیڈا اور جاپان سے اس سال 752 ملین ڈالر کی ترسیلات زر موصول ہوئی ہیں جس کی وجہ سے ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر کو سپورٹ ملی ہے۔ حال ہی میں مجھے ملکی معیشت پر تجزیئے کیلئے ایک ٹی وی چینل کے پینل ڈسکشن میں لاہور مدعو کیا گیا تھا جس میں میرے ساتھ دیگر سیاسی جماعتوں کے سینئر رہنما بھی شریک تھے۔ میں نے انہیں بتایا کہ نگراں حکومت کو اپنی مدت کے دوران خطیر قرضوں کی ادائیگی کے پیش نظر آئی ایم ایف سے نئے قرضوں کے حصول کیلئے مذاکرات کرنے ہوں گے اور ایف بی آر کو اپنے ریونیو کی وصولی کو بہتر بنانا ہوگا نہیں تو ہم اسی طرح اسٹیٹ بینک کے ذریعے بینکوں سے اونچی شرح سود پر اور آئی ایم ایف سے قرضے لے کر حکومتی خرچے پورے کرتے رہیں گے۔ میں نے ہمیشہ اپنے کالموں میں پاکستان میں جی ڈی پی میں ٹیکسوں کی شرح جو خطے میں سب سے کم 9.5%ہے کو بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا ہے جس کیلئے حکومت کو ایک بار سخت اقدامات کرنے ہوں گے۔ زراعت اور خدمات سیکٹرز پر ٹیکس نہ صرف نافذ کرنا ہوگا بلکہ اس کی وصولی کو بھی موثر اور یقینی بنانا ہوگا۔ ایف بی آر کی براہ راست ٹیکسوں کی وصولی رواں مالی سال کے پہلے 6 ماہ میں گزشتہ مالی سال کے اسی دورانئے کے مقابلے میں 30.9% سے کم ہوکر 5.9% رہ گئی ہے۔ ہمیں بالواسطہ (Indirect) ٹیکسوں کی وصولی کو مرحلہ وار کم کرکے دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح براہ راست (Direct) ٹیکسوں کی وصولی کے نظام کو موثر بنانا ہوگا۔
حال ہی میں ایف بی آر کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے مجھے بتایا کہ غیر رجسٹرڈ گاڑیوں کی ایمنسٹی اسکیم کے ذریعے حکومت کو اربوں روپے حاصل ہوئے ہیں اور ایف بی آر نے لائف اسٹائل کی بنیاد پر لاکھوں افراد کا ڈیٹا حاصل کرلیا ہے جن سے کالے دھن کو سفید کرنے کی ایمنسٹی اسکیم کے بعد اربوں روپے ٹیکس کی وصولی کی جائے گی اور ساتھ ہی ساتھ یہ لاکھوں ٹیکس نادہندگان ٹیکس نیٹ میں بھی آجائیں گے۔ سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے زیر اہتمام ورلڈ اکنامک فورم کا کراچی کے مقامی ہوٹل میں ایک اہم اجلاس ہوا جس میں مجھے بھی شرکت کی دعوت دی گئی۔ اجلاس میں ورلڈ اکنامک فورم ایشیاء کے سینئر ڈائریکٹر سوہانت پالکرتھی راؤ نے پاکستان کے کارپوریٹ سیکٹر کے سربراہان سے ملاقات میں بتایا کہ پاکستان کو ورلڈ اکنامک فورم جس کی دنیا بھر کی سرفہرست 1000 ملٹی نیشنل کمپنیاں ممبرز ہیں اور اس میں 300 گلوبل گروتھ کمپنیاں ایسی ہیں جن کی ہر کمپنی کی سرمایہ کاری 5 ارب ڈالر سے زائد ہے۔اس وقت ورلڈ اکنامک فورم میں پاکستان کی صرف 11 ملٹی نیشنل کمپنیاں ممبرز ہیں لہٰذا پاکستان کی زیادہ سے زیادہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کو ملک میں بیرونی سرمایہ کاری لانے کیلئے ورلڈ اکنامک فورم کے ان اجلاسوں میں شرکت کرنی چاہئے۔ ملک میں بیرونی سرمایہ کاری لانے کے سلسلے میں، میں انڈیا اور انڈونیشیا کی کامیاب مثالیں دے سکتا ہوں۔ورلڈ اکنامک فورم کے پاکستان آئے ہوئے عہدیداران نے کراچی اسٹاک مارکیٹ کی کارکردگی کو بھی سراہا جس نے اس سال خطے میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔میں ہمیشہ سے پاکستان کے پوٹینشل کے بارے میں پرامید رہا ہوں۔ حال ہی میں کراچی میں پاکستان بزنس کونسل نے مستقبل میں ملکی معیشت پر پاکستان اکنامک فورم کا انعقاد کیا تھا جس میں ملک کی 42 ملٹی نیشنل کمپنیوں نے پاکستان کے معاشی مستقبل کو موجودہ حالات میں بھی مثبت قرار دیتے ہوئے نئی حکومت کیلئے سفارشات مرتب کی ہیں۔مجھے امید ہے کہ بڑھتے ہوئے مالی خسارے کو کم کرنے کیلئے ہم جی ڈی پی میں ٹیکسوں کی شرح میں اضافے سے ٹیکس نادہندگان کو ٹیکس نیٹ میں لاکر ریونیو میں خاطر خواہ اضافہ کرسکتے ہیں۔ سرکولر ڈیٹ کو ایک جامع پالیسی کے تحت ختم کرکے بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں کمی لاسکتے ہیں، پبلک سیکٹر میں خسارے میں چلنے والے اداروں کے انتظامی بورڈز کی تشکیل نو سے ان اداروں کی کارکردگی کو بہتر بناسکتے ہیں، فرنس آئل سے مہنگی بجلی پیدا کرنے کے بجائے چھوٹے اور درمیانے درجے کے ہائیڈرو پروجیکٹ سے سستی بجلی پیدا کرکے اپنی انرجی مکس بہتربناسکتے ہیں، پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ ملک کی صنعتی ترقی میں اہم کردارکا حامل ہے جسے مطلوبہ وقت میں مکمل کرنا ضروری ہے ۔اسکے ساتھ حکومت کو ملک بڑے شہروں میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانا ، آنے والے وقت میں بہتر معاشی کارکردگی کیلئے گڈ گورننس، شفافیت، احتساب اور کرپشن کا خاتمہ نئی حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہونا چاہئے۔
تازہ ترین