• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کے اندر اور باہر معاشی ماہرین متفق ہیں کہ ملکی معیشت کبھی اتنی خستہ حال نہ تھی جتنی آج ہے۔ پانچ سالہ ابتر طرز حکمرانی نے نہ صرف معیشت کو تباہ کیا بلکہ ملک کے کلیدی اداروں کو بھی کمزور کیا۔ سابقہ حکومت کے چلے جانے کے بعد بھی ملکی معیشت کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا جارہا ہے۔ نگراں حکومت معیشت کے غیر معمولی چیلنج کے مقابلے کیلئے اب تک ایک قابل اعتماد وزیر خزانہ کا تقرر کرسکی او نہ ہی پیشہ ورانہ معاشی ٹیم تعینات کر سکی۔ قرضوں کی ادائیگی کے بحران کا خطرہ سرپر منڈلارہا ہے اور ارباب اختیار کو کوئی پروا نہیں ہے۔ جنہیں معاشی صورتحال کی سنگینی کا ادراک ہے وہ آنے والے مشکل حالات سے خوفزدہ ہیں اور جنہیں ادراک نہیں ان کے لئے سب معمول کے مطابق ہے۔
میں عرض کرناچاہوں گا کہ کس قسم کے مشکل حالات کا ملک کو سامنا کرنا ہوگا۔ اسٹیٹ بنک کے زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے گرتے ہوئے خطرناک طور پر کم ترین سطح تک کم ہوچکے ہیں۔ پچھلے دس ماہ میں زرمبادلہ کے ذخائر میں4.1/ارب ڈالر کی کمی آئی ہے جبکہ پچھلے محض 5ہفتوں میں1.16/ارب ڈالر کی کمی واقع ہوئی ہے۔ 5/اپریل کو زرمبادلہ کی مالیت6.697/ارب ڈالر تھی جس میں رواں برس30جون تک آئی ایم ایف کے قرضوں کی واپسی کی مد میں 83کروڑ ڈالر کی کمی واقع ہوگی۔ اس عرصے میں اگر بیرونی آمد زر کم یا بالکل نہ ہوئی تو رواں مالی سال کے آخر تک زرمبادلہ کے ذخائر5.8/ارب ڈالر تک رہ جائیں گے۔ اگر کمرشل بنکوں سے فارورڈ بائینگ کے ذریعے حاصل کردہ رقم بھی اسٹیٹ بنک کے ذخائر میں گھٹادی جائے تو پھر اس کے زرمبادلہ کے ذخائر کی مالیت 30جون تک 3.5/ارب ڈالر رہ جائے گی جو کہ اعتماد کے بحران کا موجب بننے کیلئے کافی ہے۔
ہم اس ملک کو کہاں لے کر جارہے ہیں؟ سب کیوں خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں؟ کیا 18کروڑ نفوس پر مشتمل جوہری قوت کے حامل ملک کو چلانے کا یہی طریق کار ہے؟ ہرگز نہیں صاحب! اب انتہا ہو چکی ہے۔ برادر اور دوست ممالک سمیت سب اور بین الاقوامی مالیاتی ادارے ہماری تباہی کا تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ جب تک ہم شدید بحران کا ادراک کرکے اپنے اندرونی معاملات درست نہیں کرتے، کوئی ہماری مدد کیلئے آگے نہیں بڑھے گا۔
اسٹیٹ بنک اپنی رپورٹوں سے عوام کو گمراہ کررہا ہے اس نے اپریل2013ء میں جولائی 2012ء تا دسمبر 2012ء تک کی رپورٹ شائع کی تاہم ان چار ماہ میں صورتحال میں بہت ابتری آچکی ہے۔ اسٹیٹ بنک کی رپورٹ صورتحال کی مجموعی سنگینی کا احاطہ نہیں کرتی لیکن جن لوگوں کو معاشی امور کا ادراک ہے انہیں اچھی طرح پتہ ہے کہ اسٹیٹ بنک کی رپورٹ میں عوام کو جان بوجھ کر گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اسٹیٹ بنک کے زرمبادلہ کے ذخائر بیرونی آمد زر کی غیر موجودگی میں انتہائی نچلی ترین سطح تک پہنچ چکے ہیں۔ رواں مالی سال کے اختتام پر پاکستان اپنے بیرونی قرضوں کی ادائیگی کس طرح کرے گا؟ پھر کیا ہوگا؟ ایک تو اسٹیٹ بنک روپے کی شرح مبادلہ کو بچانے کیلئے زرمبادلہ کی خاصی مقدار مارکیٹ میں مداخلت کرکے گنوا چکا ہے۔ اب روپے کی شرح مبادلہ پر شدید دباوٴ ہے جس کے باعث روپے کی قدر میں کمی کے معیشت اور عوام پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ دوسرے اگر پاکستان اپنی کسی قرضے کی قسط جمع نہ کراسکا جس کے قوی امکانات ہیں تو پھر نادہندگی کے داغ کے سبب ملک کا لیٹر آف کریڈٹ(ایل سی) ناقابل استعمال ہوجائے گا، یہ محض درآمدات کیلئے موثر رہیں گا وہ بھی اس حد تک جہاں اس کے پاس نقد ڈالر ادائیگی کیلئے موجود ہیں۔ اس ضمن میں پیٹرولیم مصنوعات کی درآمدات میں کمی کا امکان ہے جس کے معیشت پر ابتر اثرات پڑیں گے۔ سوم معاشی سرگرمیوں میں کمی اور درآمدات میں بڑے پیمانے پر کمی سے ٹیکس محصولات میں بھی کمی واقع ہوگی۔
عام آدمی پر معاشی ابتری کے اثرات مرتب ہونے سے لازمی بدامنی پیدا ہوگی۔ ملک سے زرمبادلہ کے باہر جانے پر پابندی عائد ہوجائے گی۔ ملک میں قابل اعتماد معاشی ٹیم کی عدم موجودگی میں اعتماد کا بحران پیدا ہوگا۔ بس بہت ہوگیا ملک کو اس طرح نہیں چلایا جاتا ہے۔ یہ سب ملک کا مذاق اڑانے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ میری تجاویز یہ ہیں کہ بغیر کسی تاخیر سب سے پہلے ایک قابل اعتماد وزیر خزانہ اور پیشہ ورانہ اقتصادی ٹیم کا تقرر کیا جائے۔ آئی ایم ایف سے بیل آوٴٹ پیکیج کے حصول کے لئے مذاکرات کا آغاز کیا جائے اس سے قبل کہ بہت دیر ہوجائے۔ ہم بحران میں گرفتار ہیں، جب تک ہم اقتصادی محاذ پر سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کریں گے کوئی ہمیں بچانے نہیں آئے گا۔
تازہ ترین