• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کچھ زخم ہی کھائیں چلو کچھ گل ہی کھلائیں
ہر چند بہاراں کا یہ موسم تو نہیں ہے
مجروح سلطان پوری کا یہ شعر سابق صدر پاکستان اور چیف آف آرمی اسٹاف کی پولیس لائنز میں رات گزارنے کی خبر پڑھ کر ذہن میں آیا، سوچا قارئین کی نذر کر دوں۔ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے۔ تقریباً تمام امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مختلف مراحل سے ہوتے ہوئے آخر کار منظور ہو ہی گئے سوائے غریب مشرف کے۔ سنا ہے کہ ان کے کاغذات بھی لاہور ہائیکورٹ نے مشروط طور پر قبول کرلئے ہیں کیا شرائط ہیں اس کا علم نہیں مجھ سے ایک عام آدمی پوچھ رہا تھا کہ سر اگر سب کے کاغذات منظور ہی کرنے تھے تو پھر اتنا واویلا کیوں مچایا اور ایک عدالت سے دوسری عدالت اور پھر تیسری عدالت کی سیر امیدواروں کو کیوں کروائی؟ میں نے اسے کہا کہ ہر ”کیوں“ کا جواب نہیں ہوتا کچھ ”کیوں“ زیب داستاں کے لئے ہوتی ہیں اور ان کا جواب پوچھنے والے کو خود سوچنا چاہئے۔ ہر کام دوسروں پر نہیں چھوڑنا چاہئے۔ انتخابی عمل کا یہ مرحلہ بھی خوش اسلوبی سے طے ہوگیا فائنل امیدواروں کی لسٹ اور نشانات کے الاٹمنٹ کا مرحلہ ہے جو شاید اس کالم کے شائع ہونے تک مکمل ہوگیا ہوگا۔ اب انتخابات آخری مرحلے میں داخل ہو رہے ہیں اور شکوک و شبہات کی افواہیں پھیلانے والے ابھی بھی باز نہیں آ رہے۔ روز کوئی نیا شوشہ چھوڑ کر یہ باور کروانا چاہتے ہیں کہ انتخابات ملتوی ہو جائیں گے یا سرے سے ہوں گے ہی نہیں۔ کچھ لوگ جنرل پرویز مشرف کی گرفتاری اور ان کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک کو انتخابات کے انعقاد کے ساتھ لنک کر رہے ہیں اور کسی بڑی خبر کے منتظر ہیں۔ ہمارے ملک میں بڑی خبریں زلزلے کی طرح اچانک آتی ہیں اس سے پہلے صرف موسمی کیفیت کا اظہار کیا جاتا ہے یا کچھ لوگوں کو نظر آ جاتا ہے کہتے ہیں کہ دیکھنے والوں کے لئے نشانیاں کافی ہیں۔ خیر ہم تو ٹھہرے عقل کے اندھے۔ ہمیں نہ تو کچھ نظر آتا ہے نہ ہی محسوس ہوتا ہے ہر وقت سنی سنائی کے چکر میں پڑے رہتے ہیں کہ کہیں سے کوئی سن بن مل جائے جوکہ آج کل ملتی ہوئی نظر نہیں آتی صرف افواہیں ہی ملتی ہیں جنہیں پھیلانے سے ہم قاصر ہیں۔ آج جنرل پرویز مشرف کی گرفتاری پر ایک جہاندیدہ شخص جس نے انگریزوں کا دور بھی دیکھا ہے تبصرہ کرتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ پاکستان میں سابق چیف آف آرمی اسٹاف کی گرفتاری کی رسم کا بھی آغاز ہوگیا ہے جوکہ خوش آئند نہیں ہے اور اس کے اچھے اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔
مشرف کے جہاں تک فوجداری مقدمات کا تعلق ہے بطور فوجداری وکیل میرا یہ خیال ہے اور یہ قانون بھی ہے کہ ملزم اس وقت تک بے گناہ ہوتا ہے جب تک اس پر اس کا جرم ثابت نہ ہو جائے۔ لہٰذا ابھی تو مشرف کے مقدمات کی ابتداء بھی نہیں ہوئی۔ معاملہ صرف پولیس ریمانڈ اور جوڈیشل ریمانڈ کے گرد گھوم رہا ہے۔ آگے دیکھئے کیا ہوتا ہے۔ لوگ منتظر ہیں کہ عدالتیں کیا کرتی ہیں مشرف کے کاغذات نامزدگی کی منظوری اور نامنظوری کی حد تک تو لوگوں نے فیصلے دیکھ لئے ہیں اب آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟ اس موقع پر جاں نثار اختر کے دو اشعار یاد آئے حسب حال ہیں اور قارئین کی نذر کرتا ہوں۔
حدود ذات سے باہر نکل کے دیکھ ذرا
نہ کوئی غیر، نہ کوئی رقیب لگتا ہے
یہ دوستی، یہ مراسم، یہ چاہتیں، یہ خلوص
کبھی کبھی مجھے سب کچھ عجیب لگتا ہے
پرویز مشرف کا چودہ روزہ جوڈیشل ریمانڈ دیدیا گیا ہے اور اب مقدمات آگے کی طرف بڑھیں گے۔ بقول ساحر لدھیانوی
حقیقتیں ہیں سلامت تو خواب بہتیرے
ملال یہ ہے کہ کچھ خواب رائیگاں نکلے
مشرف کی گرفتاری نے امیدواروں کی انتخابی سرگرمیوں کی خبروں اور تبصروں پر پانی پھیر دیا ہے۔ تمام چینلز رات دن مشرف کی خبروں پر مرکوز ہو گئے ہیں اور انتخابی مہم والوں کا گزارا فی الحال صرف ان کے ذاتی پیسوں سے دیئے ہوئے کمرشل اشتہارات تک محدود ہوگیا ہے۔ ایک لحاظ سے چینل والوں کے لئے یہ خوش آئند بات ہے۔ اشتہارات زیادہ ملیں گے اور عوام کا لوٹا ہوا پیسہ چینلز کو لوٹا دیا جائیگا۔ چلو کسی کا تو بھلا ہوا۔ ہم تو ہمیشہ کی طرح دعا گو ٹھہرے۔ آئندہ آنے والے دن خبروں کے لحاظ سے بہت ہی دلچسپ ہیں۔ مشرف کی گرفتاری نے اس کے ہمدردوں کی تعداد میں راتوں رات اضافہ کر دیا ہے اور اب نجی محفلوں میں صرف اس کا ذکر ہوتا ہے۔ لوگ مہنگائی، لوڈ شیڈنگ، اقرباء پروری، حکومتی لوٹ مار، خزانے کا خالی ہونا، بے روزگاری، ملازمتوں کی فروخت کی باتیں آج کل کم کر رہے ہیں بقول احمد وصی
اک ہاتھ آسماں کی سرحد کو چھو گیا
اور دوسرا ہوا میں فقط جھولتا رہا
اک اک کر کے چاند کی کرنیں بکھر گئیں
رہ رہ کے چاندنی کا بدن ٹوٹتا رہا
تازہ ترین