• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت کے دو سال کیا مکمل ہوئے،پورے ملک میں ایک ہنگامہ بپا ہے۔ حضرتِ غالبؔ نے اپنی خداداد قوتِ تخیلہ سے کام لیتے ہوئے ڈیڑھ صدی پہلے اِس کا نقشہ ایک شعر میں کھینچ دیا تھا؎ ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق / نوحۂ غم ہی سہی نغمۂ شادی نہ سہی۔ ہمارے اہلِ وطن اِس اعتبار سے بہت خوش نصیب ہیں کہ اِن دنوں بیک وقت دونوں کیفیتیں اپنے عروج پر ہیں۔ میں نے چند روز پہلے چند وفاقی وزیروں کو ٹی وی اسکرین پر پریس کانفرنس کرتے دیکھا۔ اُنہوں نے قوالی کا سماں باندھ رکھا تھا، وہ ہاتھ بھی لہرا رہے تھے اور گردنوں کو بھی خم دے رہے تھے اور نہایت اونچی آواز میں حکومت کی کارکردگی کے گیت گا رہے تھے۔ اُن کا شوق بےاختیار نئی بلندیوں کو چھو رہا تھا اور اُن کی آنکھوں سے شادمانی کے سوتے پھوٹ رہے تھے۔ مجھے وہ منظر بہت اچھا لگا تھا۔

وزرا فاتحانہ انداز میں کہہ رہے تھے کہ کپتان کریز پر جم چکا اور اَب وہ لمبی اننگ کھیلے گا۔ اُنہوں نے اپنے سیاسی حریفوں پر بڑی تمکنت کے ساتھ واضح کیا کہ بحران ختم ہو چکا اور ہم اُنہیں اپنے ساتھ ملائیں گے نہ اُنہیں این آر او دیں گے۔ اُن کی باتیں خوشگوار موسم کی رعنائیوں میں ڈھل کر سازِ دل کو چھیڑ رہی تھیں۔ وزیرِخارجہ جناب شاہ محمود قریشی نے قدرے مدبرانہ انداز میں اعلان کیا کہ ہم نے دوست ممالک سے تعلقات مستحکم کرنے کی پالیسی اپنائی اور مسئلۂ کشمیر کو عالمی سطح پر بڑے مؤثر انداز میں اُجاگر کیا۔ ماضی کی حکومت یہ کام اِس لیے نہ کر سکی تھی کہ اُس کا کوئی وزیرِ خارجہ ہی نہیں تھا۔ محترم قریشی صاحب نے جس شوکت ِ الفاظ سے مسئلۂ کشمیر کا ذکر کیا، تو مجھے محترمہ ڈاکٹر شیریں مزاری بےاختیار یاد آئیں جو انسانی حقوق کی وزیر ہیں۔ اُنہوں نے بڑی خفگی اور شدید برہمی کی حالت میں باربار کہا کہ ہمارے دفترِ خارجہ نے مسئلۂ کشمیر کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے، کیونکہ اعلیٰ منصب پر فائز لوگ فقط بیانات دیتے اور ٹیلی فون پر بات چیت پر اکتفا کرتے رہے۔ وہ اگر صحیح معنوں میں فعال ہوتے، تو بھارت کو مقبوضہ کشمیر ہڑپ کرنے کی جرأت نہ ہوتی۔ جناب شاہ محمود قریشی کی باتوں سے مجھے یہ بھی یاد آیا کہ جناب نوازشریف کی حکومت میں بہت منجھے ہوئے سیاست دان اور اُمورِ خارجہ کے رمز شناس جناب سرتاج عزیز مشیرِ خارجہ تھے جنہوں نے پاکستان کا وقار بلند کرنے میں قابلِ قدر کردار اَدا کیا تھا۔

اِس پریس کانفرنس میں وزیرِ منصوبہ بندی جناب اسدعمر بھی ایڑیاں اُٹھا اُٹھا کر بلندبانگ دعوے کر رہے تھے کہ بعض غلطیوں کے باوجود حیرت انگیز کامیابیاں حاصل کی گئی ہیں۔ جناب عبدالحفیظ شیخ جن کے بارے میں تاثر یہ ہے کہ اُنہوں نے پاکستان کو آئی ایم ایف کے ہاتھوں گروی رکھ دیا ہے، اُن کا ارشاد تھا کہ ہم نے پائیدار معیشت کی بنیاد رَکھ دی ہے۔ اُن کی بلند بانگ باتیں سنتے ہوئے میرے ذہن میں جناب عمران خان کے دو جملے کلبلانے لگے جو اُنہوں نے پورے تیقن سے ادا کیے تھے کہ میں حکومت میں آ کر کاسۂ گدائی توڑ دُوں گا اور آئی ایم ایف سے بھیک مانگنے کے بجائے خودکشی کرنے کو ترجیح دوں گا۔ پریس کانفرنس سے ڈاکٹر ثانیہ نشتر اور حماد اَظہر نے بھی خطاب کیا اور ایک عالمِ سرشاری میں حکومت کے کارناموں کا سُر اُٹھاتے رہے۔ منگل سے اَخبارات میں اور ٹی وی پر حکومت کی شاندار کامیابیوں کے بڑے پیمانے پر چرچے جاری ہیں اور تحریکِ انصاف پر ایک ’نغمۂ شادی‘ کا سحر طاری ہے۔

اب دوسری طرف دو سالہ نشیب و فراز کی جو تصویر اپوزیشن نے پیش کی ہے، وہ کسی طرح ’نوحۂ غم‘ سے کم نہیں۔ حزبِ اختلاف کی تمام جماعتوں کا مجموعی تاثر یہ ہے کہ حکومت نے دو سال میں تباہی کے سوا کچھ نہیں دیا اور قوم کو مسئلۂ کشمیر سے سعودی عرب تک ناکامیاں ہی ناکامیاں ملی ہیں۔ قومی اُمور میں بدانتظامی بہت پھیلی، عوام کو سیاسی انجینئرنگ کی سخت سزا ملی اور عام شہری زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم کر دیئے گئے۔ سیاسی تجزیہ نگار اِس امر پر متفق نظر آتے ہیں کہ آدرش تو وزیرِاعظم عمران خان کے قابلِ تعریف ہیں، مگر اُن میں حکومت چلانے، اہل اور باصلاحیت افراد کی ٹیم بنانے اور سوسائٹی کے مختلف طبقات اور سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت نہیں، چنانچہ مافیاؤں نے حکومت کو بالکل بےبس کر دیا ہے اور اشیائے صَرف کی قیمتیں عوام کی پہنچ سے باہر ہو گئی ہیں۔ ہماری بدنصیبی یہ بھی ہے کہ جناب وزیرِاعظم جس معاملے میں تحقیقات کراتے ہیں، وہ معاملہ پہلے سے کہیں زیادہ بگڑ جاتا ہے ۔

سنجیدہ سیاسی حلقوں میں یہ شدید احساس بھی طاقت ور ہوتا جا رہا ہے کہ جناب وزیرِاعظم اور اَپوزیشن لیڈر جناب شہبازشریف نے اپنی طویل غیرحاضری سے پارلیمان کا وقار بری طرح مجروح کیا ہے۔ مزیدبرآں تواتر کے ساتھ جھوٹ بولتے جاؤ یہاں تک کہ تمہیں خود اِس پر سچ کا یقین ہونے لگے، یہ حکمتِ عملی ہٹلر کے وزیرِاطلاعات گوئبلز نے اپنائی تھی ،جو بد قسمتی سے ہمارے حکومتی حلقوں میں بھی رائج ہے۔ اُسے ہمارے قابلِ احترام دوست مشاہد حسین سید ’سرکاری سچ‘ کہتے ہیں۔ ایک ایسے عہد میں جس میں سوشل میڈیا کراماً کاتبین کی طرح انسان کے ہر خفیہ اور علانیہ عمل کی تصویریں لے رہا ہو، وہاں اب جھوٹ کا راج قائم نہیں ہو سکتا۔ آج سب سے زیادہ تشویش اور فکرمندی کی بات یہ ہے کہ ہمارے سیاسی منظرنامے پر وفاق اور سندھ کے مابین کشمکش کا جو آسیب اُمڈا چلا آ رہا ہے، وہ بہت بڑے خطرے کی گھنٹی ہے۔ جناب وزیرِاعظم نے ایک مفصل ٹی وی انٹرویو میں حوصلہ افزا باتیں کی ہیںاور اسرائیل اور بھارت کے بارے میں دو ٹوک موقف اختیار کیا ہے لیکن وہ تیئس کروڑ کے وزیرِاعظم کے بجائے ایک بےبس واعظ نظر آئے۔ وقت اِس امر کا متقاضی ہے کہ اُنہیں اپنی اَنا کے خول سے باہر آنا، پارلیمانی نظامِ حکومت کے تقاضوں کو بنیادی اہمیت دینا، اپنے متوازن رویوں سے اتفاقِ رائے کی ثقافت کو فروغ دینا، قومی وسائل کی منصفانہ تقسیم کا اہتمام کرنا اور قومی اداروں کو بااختیار بنانا ہو گا۔ اِس طرح بڑے شہروں کے مسائل بھی حل ہوں گے اور حکومت کی رِٹ بھی قائم ہو گی۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین