• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جس طرح باقی چیزوں میں جدت آئی ہے اسی طرح ہماری سیاست اور طرز حکمرانی کے طریقے بھی تبدیل ہو ئے ہیں۔البتہ مقاصد وہی پرانے ہیں۔حکمرانوں کا مقصد اقتدار کو طول دینا اور اپوزیشن کا مقصد حصول اقتدار ہی ہے۔جس طرح کمپیوٹرز آنے سے کاتب حضرات بے روزگار ہو گئے تھے اسی طرح ان جدید سیاسی اور حکمرانی طریقوں سے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس بات کا کریڈٹ تحریک انصاف کو ہی جاتا ہے کہ اس نے انداز سیاست اور انداز حکمرانی دونوں کو بدل کر رکھ دیا ہےاور ان دونوں میدانوں میں جدید طرز و طریقے ایجاد کئے۔مثال کے طور پر توہین آمیز الفاظ کا ایسا بے دریغ اور بلا جھجک استعمال پہلے نہیں تھا۔ اس کا موجد پی ٹی آئی کو قرار دیا جا رہا ہے۔جدت کا ایک اور انداز دوران اپوزیشن پی ٹی آئی ہی نے اپنایا ۔بلند بانگ دعوئوں اور وعدوں کی صورت میں ۔یہاں تک کہ نوے دن کا ہدف بھی مقرر کیا۔صرف یہی نہیں بلکہ سرعام اعلان بھی کیا گیا کہ اگر حکومت ملی تو آئی ایم ایف وغیرہ سے قرضہ لینے سے بہتر ہوگا کہ خود کشی کر لی جائے۔بجلی کے بل نذر آتش کئے گئے کہ زیادہ آتے ہیں اور یہ عوام کے ساتھ بڑی زیادتی ہے۔

عوام کو مشورہ دیا گیا کہ ٹیکس نہ دیا جائے اور بیرونی ممالک میں مقیم پاکستانی رقوم ہنڈی کے ذریعے بھیجا کریں۔یہ پہلے نہ کسی نے کیا تھا نہ کہا تھا۔اب کی بات کرتے ہیں ۔حکومت میں آنے سے پہلے جو بڑے بڑے دعوے اور وعدے کئے گئے تھے وہ تو ہوا ہو گئے۔حکومت ملنے کے بعد کونسا وعدہ وفا ہوا؟ رات گئی بات گئی۔ جب اقتدار ملا تو پتہ چلا کہ یہ تو کار گراں ہے۔اسی آئی ایم ایف سے قرضے کے حصول کے لئے بھاگ دوڑ شروع ہوئی یہاں تک کہ جناب عمران خان نے خود آئی ایم ایف کے سربراہ سے ملاقات کی۔آئی ایم ایف سے قرضہ ابھی ملا نہیں تھا کہ اس مقصد کے حصول کے لئے آئی ایم ایف سے منظور شدہ افراد کو مستعار لیا گیا اور پھرقرضہ بھی لیا۔ان میں سے ایک صاحب کو سابقہ حکمرانوں نے بھی ساتھ رکھا تھا۔شاید اس ملک میں کوئی ایسا نہیں ہے جو پاکستان کے معاشی مسائل کو سمجھتا ہو اور ان کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔صحت اور آئی ٹی وغیرہ وغیرہ کے نام نہاد ماہرین بھی درآمد کئے گئے۔اس تمام درآمدی سامان کی کار کردگی بحق پاکستان اور عوام کے سب کے سامنے ہے۔یہ بھی معیشت اور صحت وغیرہ کی ترقی کے جدید طریقے تھے۔اب حکومت تو چل رہی ہے لیکن ملک نہیں چل رہا۔متعدد سرکاری ادارے سربراہان کے بغیر مفلوج پڑے ہیں لیکن حکومت جدید طریقوں سے چل رہی ہے۔جدت کی ایک اور مثال دیکھیں کہ حکومت میں شامل افراد ہی اربوں روپے کی لوٹ مار میں ملوث ہیں۔کیا چینی، گندم، پٹرول اور بجلی کے مافیاز کے خلاف کارروائی اس لئے نہیں کی جاتی کہ وہ اپنے ہیں؟ حکومت نے ایسا جدید طریقہ ایجاد کیا ہے کہ جب تک موجودہ حکومت ہے ان کے خلاف کارروائی بھی نہیں ہوگی اور ان مافیاز کے بارے میں تیز و تند بیان بھی مہینے میںایک بار آئے گا۔طریقہ یہ بنایا گیا ہے کہ تحقیقاتی کمیشن بنائو اس کو رپورٹ پیش کرنے کے لئے ایک یا دو ماہ کا وقت دو۔پھر اس رپورٹ پر ،کمیٹی پر اس پر کمیشن،پھر کمیٹی،پھر کمیشن ،پھر کمیٹی۔ نہ وزیر اعظم ان رپورٹوں سے مطمئن ہوں گے نہ ان لوگوں کے خلاف کارروائی ہوگی۔کتنا جدید اور زبردست طریقہ ہے۔اور اگر کسی ساتھی کے خلاف اسکینڈل آجائے تو اس پر تحقیقاتی کمیٹی اور پھر رپورٹ کے مطابق وہ بے گناہ قرار۔اگر میڈیا میں کچھ شہادتیں آجائیں تو پھر کیس نیب کو بھیجو۔وہاں سے وہ مستند بے گناہ اور اجلا ہوا نکل کر پھر اپنی ’’ ذمہ داریاں‘‘ سنبھال لیتا ہے۔

اپوزیشن والے بھی جدید طریقے اپنائے ہوئے ہیں۔میڈیا پر شدید تنقید کرو۔اندر خانہ حکومت کی حمایت کرو لیکن یہ کریڈٹ صرف مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کو جاتا ہے جو اس جدید طریقہ پر عمل کر رہے ہیں۔اور یہ سمجھتے ہیں کہ جان بچی سو لاکھوں پائے کے مصداق سیاست اور عوام کو چھوڑیں جان بچائیں۔سیاست پھر ہو جائے گی عوام پھر بیوقوف بن جائیں گے۔موجودہ حکومت کا ایک اور جدید طریق حکمرانی یہ ہے کہ صحافتی اور سیاسی مخالفین کو جتنا رگڑا دے سکتے ہو دو اور ان کو نیب کے چکر میں ڈالے رکھو اور حکومت کرتے جائو،صحافیوں کو دبا کے رکھو، نوکریوں سے نکلوائو،جو بھی سچ بولے اس کو دوسروں کے لئے عبرت کا نشان بنا دو۔بیورو کریسی او رپولیس کے اعلیٰ افسران پر بھی نیب اور تبادلوں اور تنزلیوں کی تلوار لٹکائے رکھو اور حکومت کرتے رہو۔لیکن یہ تمام طریقے نظام قدرت کے سامنے بے کار ہیں۔اب سب کچھ تبدیل ہونے کا وقت آنیوالا ہے۔خدا کے فیصلے اور ہوتے ہیں ان کے سامنے تمام انسانی تدبیریں ناکام ہیں۔ سمجھنے والوں کے لئے اتنا ہی کافی ہے۔

تازہ ترین