• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں جوں جوں عام انتخابات کے دن قریب آرہے ہیں اس دوران ملک میں امن و امان کے حوالے سے کئی افسوسناک واقعات کے رونما ہونے کا سلسلہ بھی بڑھ گیا ہے جس سے تجارتی اور معاشی سرگرمیاں بہرحال متاثر ہورہی ہیں۔ ملکی و غیر ملکی کمپنیوں نے عام انتخابات کے ا نعقاد بلکہ نئی متوقع مخلوط حکومت کے قیام تک مختلف شعبوں میں نئی سرمایہ کاری کی منصوبہ بندی کی فائلوں کو شلف میں رکھنا شروع کردیا ہے۔ اس وقت عام انتخابات کے انعقاد میں انتظامی نقطہ نظر سے23-22دن رہ گئے ہیں لیکن جس رفتار سے امن و امان کی صورتحال خراب ہورہی ہے اس سے کئی حلقوں کا خدشہ ہے کہ انتخابات کا معاملہ گول بھی ہوسکتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ مطالبہ انتخابات میں حصہ لینے والی بڑی پارٹیوں کی طرف سے ماہ مئی کے آغاز میں کردیا جائے، اللہ کرے ایسا نہ ہو کسی نہ کسی طرح عام انتخابات توہونے دینے چاہئیں ۔ ہمیں فکر بعد از انتخابات کی صورتحال کی کرنی چاہئے جو اگر موجودہ سے بھی زیادہ خراب ہوتی ہے تو پھر سب سیاسی پارٹیاں اور گروپ ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔ ویسے بھی اس وقت حقیقی صورتحال یہ بتارہی ہے کہ عوام بڑی سیاسی جماعتوں کی کارکردگی یا ان کے منشور میں دئیے گئے نعروں یا وعدوں سے مطمئن نظر نہیں آرہے۔ عام انتخابات کے حوالے سے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر تو تینوں بڑی سیاسی جماعتوں میں ایک بھرپور جنگ کا آغاز ہوچکا ہے جبکہ عملی طور پر شہروں اور دیہاتوں میں وہ انتخابی سرگرمیاں نظر نہیں آرہیں جو عموماً آیا کرتی ہیں۔ اس کی وجہ صرف امن وامان نہیں کئی اور عوامل بھی ہیں جس کے باعث عوام ابھی خاموش ہیں تاہم ہر سیاسی پارٹی سوچ رہی ہے کہ اس دفعہ انہیں ریکارڈ ووٹ ملیں گے جبکہ عوامی حلقوں میں تینوں پارٹیوں کے منشور کے حوالے سے کہا جارہا ہے کہ سب کو معاشی مسائل پر تشویش تو ہے مگر کوئی قابل ذکر اقدام کسی نے تجویز نہیں کیا۔ مثال کے طور پر پیپلز پارٹی کے پانچ بنیادی نکات ہیں”عوام کی بنیادی ضروریات میں ا ضافہ ،سب شعبوں کی بہتری، متوازن گروتھ، مستقبل کے لئے انفراسٹرکچر کی سہولتوں میں اضافہ اور نئے عمرانی معاہدے کی روشنی میں سماجی شعبوں کی ترقی “پر زور دیا گیا ہے۔
مسلم لیگ ن اقتصادی بحالی، انرجی سیکورٹی اور اس کی یقینی فراہمی ،زراعت، فوڈ سیکورٹی، سماجی شعبوں میں ترقی اور گورننس کی بہتری کے ایجنڈے کیساتھ میدان میں اتری ہے۔ پاکستان تحریک انصاف داخلی اور پرامن سیکورٹی ،افراط زر میں کمی ، روزگار کی فراہمی میں اضافہ اور کرپشن کے خلاف جنگ کے نعرے کیساتھ الیکشن لڑرہی ہے۔ اس طرح پی ٹی آئی مجموعی گروتھ میں اضافہ، بجٹ خسارہ میں کمی، غیر ملکی اور ملکی قرضوں میں کمی اور ملکی خود مختاری پر کوئی سمجھوتہ نہ کرنے کا اعلان کرچکی ہے جبکہ مسلم لیگ ن مضبوط معیشت ،مضبوط پاکستان اور معیشت کی ترقی کو خود مختاری سے لنک کرنے پر یقین رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ وہ ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاروں کی سرمایہ کاری کے تحفظ اور اووسیز پاکستانیوں کو سرمایہ کاری کے ز یادہ مواقع فراہم کرنے کا پلان بنارہی ہے۔ مسلم لیگ کے منشور میں 32 وعدے کئے گئے ہیں دیکھنا یہ ہے کہ یہ کیسے پورے ہوتے ہیں۔
پیپلز پارٹی اپنے پانچ سال کو کئی آئینی اصلاحات اور انتظامی فیصلوں کی بنیاد پر اپنی مہم چلا رہی ہے۔ ان جماعتوں کے دعوے ایک طرف ہیں اس وقت سوچنے والی بات یہ ہے کہ اگر مشکل ترین حالات میں عام انتخابات منعقد ہوبھی جاتے ہیں تو نئی حکومت یقینا مخلوط بنے گی، چاہے ایک پارٹی120سے بھی زائد سیٹیں لے جائے، جس میں اسے پنجاب میں90 سے زائد سیٹیں مل جائیں اس کے باوجود اسے سینٹ میں پیپلز پارٹی کو مات دینے کے لئے3-2سال درکار ہوں گے اگر واقعی ایسا ہو جاتا ہے تو پہلے سو دنوں میں نئی حکومت معاشی اصلاحات اور معیشت کی بحالی کے لئے کچھ کرسکے گی، فی الحال تو اس کا جواب نفی میں آئیگا۔ اس سے بے چارے عوام بڑے مایوس ہوں گے حالانکہ جو پارٹی اقتدار میں آئے اسے فوری طور پر تمام باقی سیاسی جماعتوں سے مشاورت کے بعد اقتصادی بحالی کا شارٹ ٹرم پلان بنانا ہوگا جس میں مجموعی قومی پیداوار میں اضافہ، بجٹ خسارہ کو7.5فیصد یا8فیصد سے کم کرکے4فیصد پر لانا وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے اخراجات میں 30فیصد سے40فیصد عملی کمی، جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں کی شرح 9فیصد سے بڑھا کر 15 فیصد کرنے ،افراط زر میں کمی کے لئے گورننس کا موثر نظام اور ادائیگیوں کے توازن میں بہتری کے لئے کئی اقدامات کرنے ہوں گے اس کے لئے بزنس کمیونٹی سے مشاورت کو نظر انداز نہ کیا جائے اور زراعت ،انرجی اور دیگر شعبوں کو پہلی ترجیح کے طور پر لیا جائے اس سے جب صنعتوں کی بحالی کا عمل شروع ہوگا تو اس سے جہاں بے روزگاری میں بتدریج کمی کا سلسلہ شروع ہوجائیگا وہاں اس سے دہشتگردی کے خاتمہ اور امن و امان کی صورتحال میں بہتری کے حوالے سے کافی مدد مل سکے گی۔ اس وقت ہماری معیشت ملکی و غیر ملکی بوجھ کی ادائیگی کے مسئلہ کی وجہ سے خاصے دباؤ میں ہے۔ اس سے زرمبادلہ کے ذخائر بھی بتدریج کم ہورہے ہیں، جو کہ3سے4ہفتوں کے لئے بتائے جاتے ہیں اگر ماہ مئی کے آخر یا جون کے شروع میں قائم ہونے والی نئی حکومت اقتصادی بحالی کے ایجنڈے پر فوری عمل نہ کرسکی تو پھر قرضوں کی واپسی کے دباؤ کی وجہ سے پاکستان غیر اعلانیہ طور پر بین الاقوامی مارکیٹ میں ڈیفالٹ کرسکتا ہے۔ ایسی صورتحال میں اگر پاکستان کو آئی ایم ایف سے5پانچ ارب ڈالر یا اس سے زائد کی سپورٹ مل بھی جاتی ہے تو اس کے ساتھ سخت شرائط کی نئی جیکٹ ہماری مشکلات کو حل کرنے کی بجائے ان میں اضافہ کا باعث بن سکتی ہے اس وقت قرضوں کے بوجھ میں اضافہ سے ہمارے روپے کی قدر مسلسل کم ہورہی ہے۔ اس سے ہمارا پچاس فیصد ریونیو قرضوں کی واپسی پر خرچ ہورہا ہے جبکہ کوئی بھی سیاسی پارٹی سیاسی مفادات کی وجہ سے سروسز سیکٹر، زراعت اور دیگر غیر پیداواری شعبوں(خاص کر ٹریڈ وغیرہ) کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا کوئی قابل عمل حل قوم کے سامنے نہیں لارہی۔ اس کے علاوہ پی آئی اے، ریلوے، سٹیل مل وغیرہ کو سالانہ300سے350ارب روپے کی سبسڈی ختم کرنے کی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے اور مجموعی گروتھ 6 فیصد کرنے سے سالانہ25سے30 لاکھ روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لئے انرجی کے بحران، گورننس کی بہتری اور رول آف لاء کو یقینی بنانے پر توجہ دینا ہوگی۔ اس کے لئے ہماری سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے پر اعتماد کرکے نئی پارلیمنٹ میں پہلی ترجیح کے طور پر معاشی اصلاحات کے جامع پروگرام پر عمل کرنا پڑیگا ورنہ پاکستان خدا تعالیٰ کی طرف سے دی جانے والی سب نعمتوں کے باوجود ان سے فیض یاب ہونے سے محروم رہے گا لیکن اس سے پہلے دعا کرنی چاہئے کہ11مئی کے الیکشن خونی یا انقلابی نہ ہوں پرامن طریقے سے انتقال اقتدار کا مرحلہ طے پاجائے اور سب جماعتیں وفاق کو مضبوط بنانے کے لئے انتخابی نتائج کو تسلیم کرلیں اس سے پاکستان کی سلامتی کو لاحق کئی نئے خطرات ختم ہوسکتے ہیں۔
تازہ ترین