• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
21ویں صدی عیسوی کے13ویں سال میں ایک جمعے کا دن قطب شمالی کی تاریخ میں یادگارہوگیا کہ اس دن یہاں کے ایک ملک سوئیڈن کی فضاؤں میں اللہ کی کبریائی کی صدا بلند ہوئی۔ وہ جمعے کا دن تھا اور اسٹاک ہوم کی مسجد سے بلند ہونیوالے الفاظ کا سلسلہ شہر مدینہ سے بلند ہونیوالے الفاظ کیساتھ قائم ہوگیا۔ سوئیڈن کی ایک مسجد کو جمعے کے دن اذان دینے کی اجازت ملی ہے۔
یورپ کے شہروں میں مسجدوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور ان میں اضافہ بھی ہوتا جارہا ہے لیکن اکثر ملکوں میں اذان کی صدا بلند کرنے کی اجازت نہیں ہے… میں جب پہلی بار اپنی بیگم کو لندن لے گیا( کہ یہ میرا پسندیدہ شہر ہے) تو دوسری صبح لندن پر ان کاتبصرہ تھا۔ ”کیسا بے رونق شہر ہے، یہاں اذان کی آواز ہی نہیں آتی۔“ اس دن میں نے اُن سے کہا کہ چلو آج مشرقی لندن چلتے ہیں وہاں بچوں کے کپڑے بہت اچھے مل جاتے ہیں۔ ہم آل گیٹ ایسٹ پہنچے اور دوپہر کے وقت بازار میں تھے کہ وہاں لاؤڈ اسپیکر پر ”اللہ اکبر“ کی صدا گونجی۔ آل گیٹ ایسٹ کی مسجد میں ظہرکی اذان ہورہی تھی۔ میری بیگم کے چہرے پر حیرانی اور خوشگواری کا حسین امتزاج نظر آرہا تھا۔ یہ وہ مسجد ہے جب ایسٹ لندن میں قائم ہوئی تو محمد علی جناح اسکے ٹرسٹیوں میں سے تھے۔ یہ انگلینڈ کی دو مساجد میں سے ایک ہے۔ جن کو اذان کی آواز بلندکرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔
اِس دنیا میں مصروف کار انسانوں کیلئے اذان ایک یاد دہانی ہے۔ دوپہر کے وقت جب وہ کاروبار زندگی میں اُلجھا ہوتا ہے تو اذان کہتی ہے کاروبار نہیں اللہ بڑا ہے۔ یہ دنیا کے جھمیلے نہیں‘ اللہ بڑا ہے۔ نیند کی وادی نہیں اللہ کا دربار بڑا ہے۔ دنیا کی زندگی چھوٹی ہے اللہ بڑا ہے۔
اسلام آباد میں ایک بار عجیب واقعہ ہوا۔ ایوان صدر میں ایک قاری کو طلب کیا گیا۔ ان کو وہاں پہنچانے کی ذمہ داری اسلام آباد ریڈیو کے ڈائریکٹر جناب سعید نقشبندی کو سونپی گئی۔ چنانچہ رات کو وہ ان قاری صاحب کو اطلاع دینے ان کے گھر کیلئے روانہ ہوئے۔ ان قاری صاحب کا مدرسہ اور گھر غالباً ایف 10میں تھا۔ میں اور دو تین دوست اور بھی گاڑی میں تھے۔ اس زمانے میں ایف 10کا علاقہ کم آباد تھا۔ ہر طرف اندھیرا تھا۔ تقریباً45منٹ تک گاڑی مختلف سڑکوں اور گلیوں میں گھومتی رہی۔ نقشبندی صاحب کبھی دن کے وقت یہاں آئے تھے لیکن اب پتہ بھول گئے تھے۔ بھٹکتے بھٹکتے جب کافی دیرہوگئی تو انہوں ڈرائیور سے کہا۔”گاڑی روکو!“ کچھ دیر وہ گاڑی میں خاموش بیٹھے رہے پھر اچانک بولے۔” چلو۔ آگے سے سیدھے ہاتھ مڑجاؤ۔ چلو اب الٹے ہاتھ مڑجاؤ۔ اگلی گلی میں پھر الٹی طرف لے لو۔“ اس گلی میں داخل ہوئے تو مدرسے کا بورڈ نظر آگیا۔ قاری صاحب کو صبح آنے کا پیغام دیکر نقشبندی صاحب گاڑی میں بیٹھے تو میں نے پوچھا۔ آپ کو ایک دم پتہ کیسے یا د آگیا؟“ انہوں نے بتایا ” مجھے جب احساس ہوا کہ میں رستہ بھول گیا ہوں تو میں نے گاڑی رکوائی اور ذہن میں اذان دی۔ اچانک مجھے رستہ یاد آگیا یا میری رہنمائی کی گئی۔ اور منزل پر پہنچ گئے۔“ اس پر مجھے یاد آیا کہ آج بھی صحراؤں میں جب لوگ بھٹک جاتے ہیں اور کہیں کوئی نشانی نہیں ملتی، خوراک ، پانی سب کچھ ختم ہوجاتا ہے اور موت نظر آنے لگتی ہے تو لوگ صحرا میں باآواز بلند اذان دیتے ہیں۔ یہ صدیوں سے ہورہا ہے اور آج بھی صحرائے اعظم میں ہوتا ہے کہ اذان کی آواز کے بلند ہونے کے بعد کہیں نہ کہیں سے کوئی آجاتا ہے اور ان لوگوں سے پوچھتا ہے کیا مسئلہ ہے؟ کہاں جانا ہے؟ اور پھر وہ ان کو صحیح رستے پرڈال کر چلا جاتا ہے۔ قرآن پاک میں حضرت خضر علیہ السلام کو ”اللہ کا ایک بندہ“ کہا گیا ہے۔ صحرا والوں کی اس بات کو سلیم احمد نے اپنے خوبصورت شعر میں اس طرح کہا ہے۔
شائد کوئی بندہ خدا آئے
صحرا میں اذان دے رہا ہوں
اسلام آبا د میں اس رات گاڑی میں حمید اختر بھی تھے جو بعد میں امریکہ چلے گئے اور اب ریاست کیلی فورنیا میں مقیم ہیں۔ پچھلے دنوں وہ پاکستان آئے تو پرانی یادوں کا سلسلہ نکلا اور پھر انہوں نے بتایا کہ امریکہ میں اکثر ہوا کہ ہم امریکہ کی ہائی ویز کے جال میں پھنس کر رستہ بھول گئے۔ جب راستہ ڈھونڈتے ڈھونڈتے تھک جاتے تو گاڑی ایک طرف روک کر اذان دیتے۔ اور ہر بار کہیں سے کوئی مسافر نمودار ہوتا ۔ گاڑی روک کر ہم سے پوچھتا اور پھر پورا پتہ سمجھا کر چلاجاتا۔
قطب شمالی اس دنیا کے نقشے پر بلندی کی مقام ہے لیکن اس جمعے کو یہاں سے اللہ پاک کی کبریائی کی آواز بلند ہوئی ہے، جس سے اس خطے کو حقیقی بلندیوں کی طرف گامزن کردیا گیا ہے۔ اسٹاک ہوم کے مسلمانوں کو یہ خوش نصیبی مبارک ہو!!! اور پاکستان کے لوگ اگر کبھی سوچیں کہ وہ رستہ بھول گئے ہیں یا ان کو پاکستان کی زندگی کا راستہ نظر نہیں آرہا تو اذان بہترین پکار ہے کسی اللہ کے بندے کو راہنما بناکر لے آتی ہے۔
تازہ ترین