• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہاتھیوں کی لڑائی میں چیونٹیاں بھی پاؤں تلے روندی جاتی ہیں۔ زندگی بھر کا سرمایہ جب لمحوں میں لٹ جائے اور کوئی سہارابھی نظر نہ آئے اور کوئی فریاد بھی نہ سنے تو آپ یہی نوحہ لکھتے ہیں کہ مجھے مقتل تک پہنچانے والے ہی میرے جنازے کو کاندھا دینے آگئے۔ میرے دل کی کیفیت و جذبات آپ سمجھ سکتے ہیں کہ مایوسی کس انتہا کو چُھو رہی ہے اور حالات کس نہج پر پہنچ چکے ہیں۔ حکومت کی دو سالہ کارکردگی کے شادیانے تو ببانگ دہل بج رہے ہیں لیکن اطمینان کسی بھی طرف نہیں اور یہ سمجھ ہی نہیں آرہی کہ آخر حکومت کی اصل سمت کیا ہے۔ اشرافیہ، مافیاز سے چھٹکارا پانے کے دعوے محض باتوں سے آگے کچھ بھی نہیں۔ حکومت میڈیا کشمکش کے دوسالہ دور میں ہر روز ایک نئے امتحان سے گزرنا پڑ رہا ہے کوئی دن ایسا نہیں جہاں میڈیا انڈسٹری کے تابوت میں کوئی نیا کیل نہ ٹھونکا جاتا ہو۔ اب تو صورت حال یہ ہوچکی ہے کہ حکومت اور چند بڑے میڈیا ہاؤسز کی کشمکش میں علاقائی اخبارات اور میڈیا ہاؤسز کا دھڑن تختہ ہی کردیا گیاہے۔ ہاتھیوں کی یہ لڑائی بڑھتے بڑھتے علاقائی اخبارات کوکچلنے تک پہنچ چکی ہے۔ ان اخبارات سے زندہ رہنے کا حق چھینا جارہا ہے اور یہ بات سمجھ نہیں آرہی کہ حکومت ان اخبارات سے کس بات کا انتقام لے رہی ہے کہ یہ علاقائی اخبارات ہی ہیں جو اپنی اپنی حیثیت میں ضلعی یا علاقائی سطح پر ہمیشہ سے ریاست کے وفادار رہے، ان کی سوچ کبھی بھی قومی و داخلی سلامتی کی حکومتی پالیسیوں سے ٹکراؤ کا باعث نہیں بنی۔ پنجاب، سندھ، بلوچستان، خیبرپختونخوا، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان سے شائع ہونے والے یہ اخبارات ہمیشہ ریاست پاکستان کی تعمیر و ترقی میں اپنا دیانت دارانہ کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ ان اخبارات ہی کی وجہ سے حکومتوں کی تمام تر کوتاہیوں ، کمزوریوں کے باوجود مثبت کاروبار زندگی کی سوچ کو آگے بڑھایا اور انہی کی وجہ سے علاقائی مسائل کی نشان دہی کرکے حکومت کی معاونت کا راستہ ہموار کیا جاتا رہاہے۔ تحریک انصاف کی حکومت آنے سے علاقائی اخبارات توقع رکھتے تھے کہ غریب پرور سوچ کے مالک وزیراعظم عمران خان ان اخبارات کے سر پرشفقت کا ہاتھ رکھتے ہوئے سرپرستی کریں گے اور انہیں مضبوط کرکے نئے پاکستان کی بنیاد رکھنے میں شریک سفر کریں گے اور ایسی سہولتیں اورمراعات دیں گے جو ان کی سیاسی طاقت بن سکیں لیکن گزشتہ دو سال میں سرخ فیتے والی بابو سرکار نے ان اخبارات کے ساتھ جو سلوک کیا اور جس انداز میں نت نئی پالیسیاں بنائیں وہ وزیراعظم کی سوچ کے بالکل برعکس ہیں، ایسے محسوس ہونے لگا ہے کہ سرکار آٹا، چینی مافیاز کے ساتھ ساتھ سرخ فیتے والی میڈیا بیورو کریسی کے ہتھے بھی چڑھ گئی ہے اور بابو بیورو کریٹس پاکستان سے علاقائی اخبارات کا وجودہی ختم کر دینا چاہتے ہیں۔ محدود سوچ کے پالیسی سازوں کی یہ روش کہ چند میڈیا ہاؤسز کی اجارہ داری قائم کرکے علاقائی ، میڈیم سائز اخبارات کا وجود ہی ختم کر دیا جائے انتہائی خطرناک ہے۔ گزشتہ دو سالوں میں وفاقی وزارت اطلاعات و نشریات کے تین بار قلم دان تبدیل ہوئے۔ فواد چودھری نے بیورو کریسی کی معاونت سے علاقائی اخبارات کا گلا گھونٹنے کی ابتداکی اور ایسی پالیسیوں پر عمل کیا جس کا خمیازہ آج پوری علاقائی اخباری صنعت بھگت رہی ہے۔ پھر فردوس عاشق اعوان کو لایا گیا اگرچہ وہ تجربہ کار تھیں، کسی حدتک علاقائی اخبارات، میڈیا فرینڈلی بھی۔ لیکن انہیں ہاتھ پاؤں باندھ کر لایا گیا اور اسی طرح رخصت بھی کر دیا گیا۔ اسی دوران فوادچوہدری اینڈ کمپنی کی تیار کردہ پالیسیوں پر بھی خاموشی سے عمل ہوتا رہا۔ اب جب سے آزادی اظہار کے حقیقی علمبردار احمد فراز(مرحوم) کے صاحبزادے شبلی فراز نے وزارت کا قلم دان سنبھالا ہے تو توقع یہی تھی کہ وہ اپنے دھیمے مزاج کے مطابق علاقائی اخبارات کے زندہ رہنے کی کوئی تدبیر کریں گے لیکن تمام تر دعوؤں کے باوجود تاحال تباہی کے سوا کچھ نہیں۔ وزیراعظم عمران خان کی سوچ اگرچہ اس کے بالکل برعکس نظر آتی ہے وہ وفاقی کابینہ کے گزشتہ کئی اجلاسوں میں مسلسل پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے بقایاجات کی فوری ادائیگی، اشتہارات جاری کرنے کے حوالے سے فکر مند نظر آتے ہیں اور متعلقہ حکام کی سخت باز پرس بھی کرتے ہیں لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر عملی طور پر اس کے مثبت اثرات ظاہر ہونے کی بجائے منفی اثرات ہی پھیل رہے ہیں۔ اخباری مالکان کی تمام تر جدوجہد، وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات شبلی فراز سے متعدد بار ذاتی ملاقاتوں، اجتماعی مذاکرات اور کوششوں کے باوجود اخبارات کو شفافیت سے بقایا جات کی ادائیگیاں ہوئیں اور نہ ہی علاقائی اخبارات کاپچیس فیصد کوٹہ من و عن بحال کیا گیا۔ وعدوں، طفل تسلیوں کے باوجود انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے علاقائی دفاتر کو اشتہارات جاری کرنے کے اختیارات بھی نہ سونپے گئے،اُلٹا اشتہارات کی ادائیگیوں کا ایک ایسا مبہم اور پیچیدہ نظام مسلط کر دیا گیا جس کے نتیجے میں گزشتہ چار ماہ سے پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ اسلام آباد کے دفاتر میںاخباری اشتہارات کے بلوں کے انبار لگے پڑے ہیں اور کچھ معلوم نہیں کہ آیا حکومت مستقبل میں کس طریقہ کار کے تحت اخبارات کو ماہانہ بنیادوں پر کروڑوں روپے کی ادائیگیاں کرے گی۔ ابھی یہ تمام مسائل حل طلب ہی تھے کہ پنجاب کابینہ نے علاقائی اخبارات پر راتوں رات نئی میڈیا پالیسی مسلط کرکے ایسا شب خون مارا ہے جس سے تحصیل، ضلع، ڈویژن کی سطح پر شائع ہونے والے اخبارات سوفیصد بند ہو جائیں گے اور کسی حد تک چند قومی اخبارات بھی متاثر ہونگے۔ اس مجوزہ پالیسی کے تحت مخصوص میڈیا ہاؤسز کی اجارہ داری قائم کردی جائیگی۔ (جاری ہے)

تازہ ترین