1996ء میں عمران خان نے ا پنے چند ساتھیوں کے ساتھ مل کر پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھی، اس سے قبل وہ بحیثیت کرکٹر اور کپتان ورلڈ کپ جیت کر شہرت کی بلندیوں پر پہنچ چکے تھے۔ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد عمران خان نے شوکت خانم کینسر اسپتال کی بنیاد رکھی جس کے لئے اندرون و بیرون ملک سے لوگوں نے بے تحاشا عطیات دیے اور اس پروجیکٹ کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا، اس اسپتال کی تعمیر نے عمران خان کی شہرت اور قدر میں مزید اضافہ کر دیا۔ سیاسی سفر کے آغاز میں جو دوست عمران خان کے ساتھ تھے ان میں سے احسن رشید اور نعیم الحق اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں۔ حفیظ خان کینیڈا جبکہ محمود اعوان اور مواحد حسین امریکہ میں مستقل قیام پذیر ہیں اور پارٹی معاملات سے تقریباً لاتعلق ہیں۔
اوورسیز پاکستانی کرکٹ میچوں سے لے کر کینسر اسپتال کی تکمیل اور پھر سیاست کے میدان میں عمران خان کی کامیابی کیلئے اپنے تمام تر وسائل کے ساتھ ان کے شانہ بشانہ کھڑے رہے۔ امریکہ میں ابتدائی سالوں میں محمود اعوان، میکس شوکت، عارف سونی، اکرم مرزا، سجاد برکی سمیت عام پاکستانیوں نے جن میں کنسٹرکشن ورکرز اور ٹیکسی ڈرائیورز شامل تھے عمران خان اور تحریک انصاف کے لئے دن رات کام کیا۔ اس دوران پارٹی لیڈران نے شمالی امریکہ کے تمام بڑے شہروں میں پاکستانی کمیونٹی کو تحریک انصاف کے لئے متحرک کیا اور فنڈ ریزنگ پروگرامز کیے۔ امریکہ میں پاکستانیوں کی سب سے موثر اور متحرک ڈاکٹروں کی تنظیم ’’اپنا ‘‘کے ڈاکٹرز نے بھی بڑی تعداد میں عمران خان کو نہ صرف سپورٹ کیا بلکہ امریکی سینیٹ اور کانگر میں موجود اپنے دوستوں کے ذریعے ان کی لابنگ بھی کی۔ ڈاکٹر سہیل چیمہ، ڈاکٹر ملک عمران سمیت بہت سے مشہور و معروف ڈاکٹروں نے اپنا قیمتی وقت اور سرمایہ تحریک انصاف کے لئے صرف کیا۔ تحریک انصاف کی انتخابات میں کامیابی کے بعد اعلیٰ ملازمتوں پر فائز پارٹی کے ہمدرد بیرون ملک سے پاکستان آئے تو اقتدار میں آنے والوں کی سردمہری دیکھ کر خاموشی سے واپس لوٹ گئے۔ ایک طرف پارٹی کیلئے ہر قسم کی قربانی دینے والوں کے ساتھ بے رخی دوسری طرف سفارش یا تعلقات کی بنا پر لوگوں کو اعلیٰ عہدوں سے نواز دیا گیا۔ تانیہ ایدروس امریکہ سے ایم بی اے کی ڈگری اور گوگل میں اوسط درجے کی ملازمت مگر تگڑی سفارش کی وجہ سے ڈیجیٹل پاکستان پروگرام کی انچارج بنا دی گئیں اور چند روز بعد ہی انہوں نے ذاتی ڈیجیٹل فائونڈیشن (DPF) بنا لی۔ بیرون ملک ہزاروں نوجوان بچے بچیاں اعلیٰ درسگاہوں سے پی ایچ ڈی کر کے ملک کا نام روشن کر رہے ہیں اور ملک کی ترقی کی خاطر واپس آنے کو تیار ہیں مگر شاید حکومتی سطح پر میرٹ اور قابلیت کو فوقیت نہیں دی جا رہی۔
امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کی اکثریت ابھی بھی عمر ان خان پر اعتماد کرتی ہے اور امید کرتی ہے کہ ان کا لیڈر عمران خان ملک سے کرپشن، ناانصافی اور اقربا پروری کا خاتمہ کر کے ملک کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل کرے گا۔ گزشتہ برس عمران خان کے واشنگٹن ایرینا جلسے میں دور دراز ریاستوں سے ہزاروں پاکستانی امریکیوں نے شرکت کی تھی اور لوگوں کو اپنے ملک کے وزیراعظم اور پارٹی پر اعتماد اور اعتبار قائم رکھنا پی ٹی آئی حکومت کی ذمہ داری ہے۔
برطانیہ میں چونکہ عمران خان طویل عرصہ قیام پذیر رہے اس لئے وہاں پارٹی کو منظم کرنا نسبتاً آسان تھا تاہم یورپ کے دوسرے ممالک میں پی ٹی آئی کے نوجوان ورکرز نے بڑی جانفشانی سے کام کیا۔ پیرس، میلان، ڈیووس اور یورپ کے مختلف شہروں میں کپتان کے جلسوں میں پورے یورپ سے نوجوان اپنی نوکریوں، کاروبار اور موسمی سختیوں کی پروا کئے بغیر پہنچتے تھے۔ موجودہ حکومت میں شامل اکثریت لاعلم ہو گی جس طرح اٹلی سے ندیم یوسف، شبیر خان اور ان کے رفقا، فرانس سے ذوالفقار جتالہ، یاسر قدیر وغیرہ، ناروے سے شاہد جمیل، آسٹریا سے بابر فہمی، ڈنمارک سے ثاقب تسنیم، عامر درانی اور ان کی ٹیموں نے پی ٹی آئی اور کپتان کے لئے دیوانہ وار کام کیا اور اوورسیز معاملات دیکھنے والوں کو شاید ان کی پہچان بھی نہ ہو۔ افسوس اور دکھ ہوتا ہے جب عمران خان کے ہراول دستے اوورسیز پاکستانی آنکھوں میں خواب سجائے ملک آتے اور حکومت میں موجود لوگوں کا رویہ دیکھ کر خاموشی سے واپس لوٹ جاتے ہیں۔
(صاحب مضمون سابق وزیر اطلاعات پنجاب ہیں)