• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیر تعلیم سندھ کے حالیہ بیان پر پر راقم کو کئی پیغامات موصول ہوئے. جن میں قارئین کی طرف سے سے شدید رد عمل کا اظہار کیا گیا. اور درخواست کی گئی کہ کسی طرح ان کی رائے اور آواز کالم میں شامل کرکے حکام بالا تک پہنچائی جائے۔ یقینا پاکستان کی معاشی پست ماندگی کی بہت بڑی وجہ تعلیم و شعور سے دوری اور صحت کی ناکافی سہولیات کی موجودگی ہے۔ کورونا کے اس دور میں جب کاروبار زندگی منجمد ہو گیا تھا سب سے پہلے تعلیمی سلسلے کو بند کیا گیا تھا۔ یقیناً یہ ایک ضروری قدم تھا۔ کیونکہ ہماری آبادی کا پچاس فیصد سے زیادہ حصہ پچیس سال یا اس سے کم عمر لوگوں پر مشتمل ہے۔ لہذا ان کی حفاظت بہت ضروری تھی۔ لیکن جیسے جیسے کورونا کا زور ٹوٹنا شروع ہوا اور سماجی و کاروباری سرگرمیاں شروع کرنے کے لئے فیصلے کیے جانے لگے۔ تو افسوس تعلیمی اداروں کا ذکر اس میں ناپید تھا۔ وجہ یہ بتائی گئی کہ تعلیمی اداروں کا کھلنا بچوں کے لئے نقصان دہ ہے۔ کیونکہ اگر اسکول کھل جائیں اور بچے اسکول جانا شروع کردیں تو ان کی صحت کے لئے خطرہ ہیں۔ کیونکہ بچے ناسمجھ ہوتے ہیں اور منہ ، ناک میں غیر ضروری ہاتھ لگاتے ہیں ایسے میں کورونا کے امکانات بڑھ جاتے ہیں ۔ لہذا انہیں گھر میں رکھیں اور آن لائن کلاسوں کے ذریعے انہیں پڑھائیں۔ ایک قاری نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا " یقینا بچے منہ اور ناک کو ہاتھ لگاتے ہیں، لیکن وہ بہت چھوٹے بچے ہوتے ہیں ۔ چھ سات سال کے بچے ایسا نہیں کرتے کیونکہ اسے تہذیب کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔ اگر کوئی پانچ سال سے بڑی عمر کا بچہ ایسا کرتا ہے تو عام طور پہ ایسا سمجھا جاتا ہے کہ یا تو بچے کی درست تربیت نہیں کی گئی یا پھر یہ دماغی طور پر کمزور ہے۔ اب وزیر صاحبہ نے کس کو ذہن پہ رکھتے ہوئے بیان دیا؟" دوسری طرف اسکولوں میں بچے پھر بھی ذرا فاصلہ سے بیٹھتے ہیں ہر کوئی اپنی اپنی کتاب اور کاپی پر کام کرتا ہے اپنا پینسل باکس الگ لاتا ہے عموما اسکولوں میں لکڑی کی کرسیاں ہوتی ہیں جن میں جراثیم لگنے اور جذب ہونے کے امکانات کم ہوتے ہیں لیکن دوسری طرف ہیں سینما گھر جنہیں سب سے پہلے کھول دیا گیا کیا وہ کورونا پھیلانے کا ذریعہ نہیں بنیں گے؟ ہر سینما گھر سینٹرلی ایئرکنڈیشنڈ ہوتا ہے۔ ایک چہار دیواری میں کئی سو افراد قریب قریب بیٹھ کر فلم دیکھتے ہیں۔ چاروں طرف سے بند ہونے کی وجہ سے کوئی وینٹیلیشن نہیں ہوتی۔ سب ایک ہی ماحول میں سانس لے رہے ہوتے ہیں۔ کیا یہ خطرناک نہیں ہے؟ لاکھ آپ لوگوں کو ماسک پہنادیں۔ لیکن کتنی دیر؟ سانس لینے میں مشکل ہونے کی وجہ سے مسلسل اسے پہنا نہیں جاتا اور ویسے بھی زیادہ تر اسی وجہ سے کپڑے کے ماسک استعمال کرتے ہیں اور یہ کپڑے کے ماسک کتنے موثر ہوتے ہیں۔ سب کو با خوبی اندازہ ہے۔ جب کہ ان سینما گھروں میں فوم کے اور کپڑے کے کشن کے ساتھ کرسیاں ہوتی ہیں جن میں جراثیم زیادہ تیزی سے جذب ہوتے ہیں اور سینما گھروں میں میں فلموں کے سیشنز یکے بعد دیگرے ہوتے ہیں۔ جن کی وجہ سے اتنا ٹائم نہیں ہوتا کہ سیٹوں کو سینی ٹائز بھی صاف کیا جا سکے ۔ لہذا سینما گھر کا کھلنا اتنا ضروری نہ تھا۔ کیونکہ ان کے نعمل البدل نیٹ فلیکس اور یوٹیوب موجود ہیں ۔ خاص طوع پر نیٹ فلیکس دنیا بھر میں بننے والی عالمی معیار کی فلمیں اور مختلف موضوعات پر بننے والی فلموں کو پیش کرتا۔ ایسے میں یہ کہنا کہ یہ عوام الناس کی تفریح طبع کے لئے کیا گیا درست نہ ہوگا۔کچھ لوگوں کا کہنا یہ ہے ہے کہ پچھلے چھ ماہ سے سکولوں کی بندش کی وجہ سے سے بچوں کی دماغی صلاحیت تنزلی کا شکار ہو تی جارہی ہے۔ پڑھائی سے مسلسل دوری اور ویڈیو گیمز اور انٹرنیٹ کے کھیلوں میں مسلسل دلچسپی نے بچوں کو پڑھائی سے دور کردیا ہے ۔ وہ اب انٹرنیٹ کی تصوراتی دنیا میں محو رہتے ہیں اور حقیقی دنیا سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ ایسے میں والدین بہت پریشان ہیں۔کیونکہ آن لائن کلاسوں کے نام پر ہونے والے ڈھونگ نے انہیں ذہنی طور پر بےسکون کردیا ہے۔ اصل میں یہ کلاسیں بچوں سے زیادہ ان کے والدین کے لئے بوجھ بنی ہوئی ہیں۔ صبح اسکول جانے کی فکر نہ ہونے کی وجہ سے بچے رات دیر تک جاگتے ہیں اسکول والے صبح کلاسیں رکھتے ہیں۔ بچوں کو اٹھانے سے لیکر آن لائن تک جوڑنا ایک درد سر ہوتا خاص طور پر چھوٹے بچوں کو۔ عموما بہت سی جگہہ یہ دیکھا گیا ہے کہ بچے کی بجائے والدین کلاس اٹینڈ کر رہے ہوتے ہیں۔ پھر اسکول والے فیس نا ملنے کے خوف سے بچوں کو گھر کا کام دیتے ہیں اور انہیں چیک کرنے کے لئے کاپیاں اسکول منگوائی جاتی ہیں جن کے لانے لیےجانے کی بالآخر ذمہ داری والدین کی ہی ہوتی ہے ہوم ورک ختم کرنے کی۔ کیونکہ اگر بچے خود جائیں گے تو چھاپا پڑ جائے گا اور اسکول کو جرمانہ ادا کرنا پڑے گا ۔ لہذا بچے اسکول کی پہنچ سے دور رہیں۔ایسے میں تو "نئی روشنی اسکول" کی یاد آتی ہے۔جس یقین سے وزیر صاحبہ نے فرمایا تھا کہ میرا مشورہ ہے چودہ سال کی عمر کے بچوں کو صرف آن لائن تعلیم دی جائے۔ ذرا وہ روشنی ڈالیں گی کہ جس ملک بجلی گھنٹوں گھنٹوں غائب رہتی ہو ۔ بقول وزیراعظم پچاس فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے رہتی ہو۔( جو کہ حقیقت نہیں ہے) ۔ جہاں ہر سیاسی جماعت صرف اور صرف غریبوں کی غربت کا ذکر کرتی ہو، جہاں گاوں میں اسکول کے نام پر بچے درخت کے نیچے بیٹھ کر پڑھتے ہیں۔ چھوٹے شہروں میں بھوت (گھوسٹ) اسکولوں کا رواج ہو۔ ایسے میں ایک کمانے والا اپنے پانچ بچوں کے لئے مختلف لیپ ٹاپ، موبائل وہ بھی 4 جی انٹرنیٹ کے ساتھ کیسے میسر کرسکتا ہے؟ واقعی کہنے میں کیا حرج ہے۔ جس کو کرنا ہے وہ بھگتے۔

minhajur.rab@janggroup.com.pk

تازہ ترین