• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پہلی بار سندھ کی قوم پرست پارٹیاں الیکشن کے میدان میں داخل ہوگئی ہیں اور اس بات سے قطع نظر کہ ان کے کتنے امیدوار کامیاب ہوتے ہیں ان کے متعدد امیدوار انتخاب لڑ رہے ہیں۔ سندھ کے سیاسی مبصروں نے اس بات کی تعریف کی ہے کہ سندھ کے قوم پرست اب عام انتخابات میں زور آ زمائی کررہے ہیں مگر اس بات پر ضرور مایوس ہیں کہ تین سندھی قوم پرست پارٹیوں نے ”سپنا“ کے نام سے جو اتحاد بنایا تھا وہ تو غائب ہو گیا ہے مگر وہ الیکشن کے لئے کوئی ایک متفقہ ”سندھ پروگرام“ بھی ابھی تک جاری نہیں کرسکے۔
بہرحال امید ہے کہ کسی بھی وقت وہ ایسا کریں گے مگر سندھ کی سول سوسائٹی بانجھ نہیں ہوئی۔ سندھ کی سول سوسائٹی نہ فقط اس سلسلے میں سرگرم ہے اور کسی بھی وقت کوئی ڈیکلیریشن جاری کرسکتی ہے مگر اس وقت سندھ کی سول سوسائٹی قبائلی علاقوں اور کے پی صوبے میں اٹھنے والے ”طوفان“ اور پنجاب میں کچھ حلقوں میں سے جاری ہونے والے شاؤنسٹ رجحانات کا بغور جائزہ لے رہی ہے۔ اب شاید سندھ کی پہلی اولیت یہ ہے کہ سب سے پہلے ان خطرناک رجحانات کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ آخر کار ان رجحانات سے سندھ کو کیا نقصان ہوسکتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ سندھ کی قوم پرست پارٹیوں اور سول سوسائٹی نے انتخابات کے حوالے سے ”سندھ ایجنڈا“ یا ”سندھ پروگرام جاری کرنے میں جان بوجھ کر سستی کی ہو اور شاید وہ سب سے پہلے ان رجحانات کے رخ کا تعین کرنے اور اس کا توڑ کرنے میں مشغول ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے آج کے کالم کا عنوان ”سندھ دیکھ رہا ہے“ رکھا ہے۔ اور اس سلسلے میں،میں اپنی معروضات پیش کروں گا۔
سندھ کی ایک پرانی کہاوت ہے کہ گھوڑوں نے اس دن سے رونا شروع کردیا جب ”آتھر“ (سندھی میں آتھر ا مخصوص چادر کو کہتے ہیں جو گھوڑے کی پیٹھ پہ رکھ کے اس پر سوار بیٹھتا ہے اور سوار گھوڑے کی سواری کرتا ہے) بنائے جا رہے تھے۔ اسی طرح کچھ عرصے سے قبائلی علاقوں اور کے پی اور بعد میں پنجاب میں مذہبی انتہا پسندوں کی بمباری اور خاص طور پے خود کش بمباری کی وجہ سے انسانوں کا قتل جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل رہے ہیں کو سندھ کے لوگ کافی تشویش سے دیکھتے رہے ہیں۔ ان دنوں سے سندھ چیخ رہا ہے کہ یہ خطرناک طوفان سندھ کی طرف بڑھ رہا ہے اور کسی بھی وقت سندھ کے لبرل اور صوفی معاشرے سے ٹکرا کر اسے پاش پاش کرسکتا ہے۔ یہ اندیشے کچھ عرصے پہلے کسی حد تک درست بھی ثابت ہوئے جب خود کش بمباروں نے جیکب آباد میں دو خود کش حملے کئے اور سندھ کی درگاہوں کے ایک متولی اور ایک اللہ والے بزرگ کے خاندانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ مگر اب تو حد ہوگئی ہے کئی دنوں سے کوئی دن نہیں جاتا جب الیکشن مہم کے دوران پاکستان کی ایک لبرل پارٹی اے این پی کے جلسوں اور جلوسوں میں موجود ان کے رہنماؤں اور کارکنوں کو نشانہ نہ بنایا جا رہا ہو۔
اب تک اے این پی کے کئی رہنما اور کارکن ان حملوں میں ضائع ہوچکے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ دور حکومت میں وہاں کے لوگوں کو بھی اے این پی سے شکایات ہوں گی۔ مگر اس کے باوجود اب اے این پی ہی پاکستان کی واحد بڑی پارٹی رہ گئی ہے جسے پاکستان کی لبرل سیاست کرنے والی پارٹی کہا جاسکتا ہے۔ لگتا ہے کہ ان علاقوں کے انتہا پسند اس پارٹی کو بھی برداشت نہیں کررہے ہیں یا اے این پی کو نشانہ بنا کے انتہا پسند سارے ملک کے لبرل حلقوں کو پیغام دے رہے ہیں کہ اس ملک میں فقط ملائیت کا راج چلے گا۔ لوگوں کے ذہنوں میں سوال اٹھتا ہے کہ انتہا پسندوں کا نشانہ انتخابات نہیں ورنہ اے این پی کے علاوہ اور جماعتوں کو بھی نشانہ بنایا جاتا۔ حالانکہ وہاں جے یو آئی، جے آئی اور نواز مسلم لیگ والے بھی جلسے کررہے ہیں اور جلوس نکال رہے ہیں مگر اب تک ان میں سے کسی کو بھی نشانہ نہیں بنایا گیا۔
اطلاعات کے مطابق کے پی میں اب تک اے این پی اور شاید ایک بار پی پی کے رہنماؤں کو نشانہ بنایا گیا ہے توکیا یہ نہ سمجھا جائے کہ ان انتہا پسندوں کی حکمت عملی یہ ہے کہ برائے نام لبرل قوتوں کو بھی روکا جائے اور انتخابات پر مکمل طور پر دائیں بازو اور مذہبی جماعتوں کی بالادستی قائم ہو جائے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ مذہبی انتہا پسندوں کے پنجاب میں ایک سے زیادہ مقامات پر ہیڈکوارٹرہیں اوراب تک یہ عناصرپنجاب میں بھی دہشت گرد سرگرمیاں کرتے رہے ہیں مگر کم سے کم اس بار اب تک پنجاب میں ان کی طرف سے انتخابات کا عمل شروع ہونے کے بعد سے ایسی کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ حالانکہ نواز شریف عمران خان وغیرہ پنجاب میں بڑے بڑے جلسے کررہے ہیں مگر وہ اللہ پاک کی مہربانی سے اب تک محفوظ رہے ہیں۔
یہ اچھی بات ہے کہ کم سے کم نواز مسلم لیگ اور تحریک انصاف اورپنجاب کی دیگر دائیں بازو کی جماعتیں محفوظ ہیں مگر ذہن میں سوال ضرور ہے کہ انتہا پسندوں کی طرف سے پنجاب پر یہ مہربانی کیوں؟ اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی نے خبردار کیا ہے کہ اگر پھر ان کے ساتھ کوئی ایسا واقعہ ہوا تو ایف آئی آر آرمی چیف آف اسٹاف، صدر زرداری اور پاکستان کے چیف جسٹس کے خلاف کٹوائیں گے۔ اس بات میں وزن تو ہے۔ کیا یہ سمجھا جائے کہ ان مذہبی انتہا پسندوں کو ہماری اسٹیبلشمنٹ یا کم سے کم اسٹیبلشمنٹ کے ایک حصہ کی Patronage حاصل ہے۔ مگر سوال یہ بھی ہے کہ ہمارے قابل احترام چیف جسٹس صاحب کو اور مقامات خاص طور سے سندھ میں باریک سے باریک چیز بھی نظر آجاتی ہے مگر کے پی میں ہونے والی یہ خونریز ہلاکتیں نظر نہیں آ رہی ہے؟ میرے کالم کا عنوان ”سندھ دیکھ رہا ہے“ یہ عنوان اس وجہ سے ہے کہ سندھ کے لوگ کے پی میں ہونے والی اس دہشت گردی کو بڑی تشویش سے دیکھ رہے ہیں وہ محسوس کررہے ہیں کہ قبائلی علاقوں کے پی کے اور پنجاب سے اٹھنے والے اس مذہبی انتہا پسندی کے طوفان کا اصل نشانہ سندھ ہے۔ کیونکہ سندھ کا معاشرہ اب تک مذہبی تعصب سے پاک ہے اور ایک لبرل معاشرہ ہے۔یہاں تو ایک ہی درگاہ کی حاضری مسلمان بھی دے رہے ہیں تو ہندو بھی دے رہے ہیں۔ سندھ میں یہ جو ہندو لڑکیوں کو مبینہ طور سے زبردستی مسلمان کرنے، شادیاں کرنے کا سلسلہ چلا ہے اس کے خلاف ہندوؤں کے مقابلے میں مسلمانوں نے احتجاج کیا ہے یہ نہیں کہ سندھ کے مسلمانو ں کو اسلام عزیز نہیں۔ اگر معاف کیا جائے تو سندھ کے مسلمانوں کا یہ دعوی یہاں ریکارڈ پر لایا جائے کہ سندھ کے مسلمان خود کو برصغیر میں سب سے سینئر مسلمان تصور کرتے ہیں۔ (جاری ہے)
تازہ ترین