• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مغربی ماہرین نے آج سے سو سال بعد کے حوالے سے ’’دی اسمارٹ تھنگز فیوچر لیونگ‘‘ نامی رپورٹ میں پیش گوئی کی ہے کہ 2116ء میں تھری ڈی پرنٹڈ گھر ، زیر آب شہر اور موجودہ فلک بوس عمارتوں سے کہیں زیادہ بلند عمارتیں حقیقت بن جائینگی ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگلے سو برس کے دوران زیر زمین 25منزلہ عمارتیں تعمیر کی جائینگی ، زیر آب شہر وجود میں آئیں گے ، جنہیں ’’ببل سٹی‘‘ کہا جائے گا۔ لوگوں کے پاس ذاتی ڈرون طیارے ہوں گے ، جن کی مدد سے وہ نقل و حرکت کرینگے اور دنیا بھر کی سیر کرسکیں گے ۔ گھروں میں موجود فرنیچر تھری ڈی پرنٹڈ ہو گا جبکہ گھروں کی نقل اور ساخت کو بھی پرنٹ کیا جا سکے گا۔ ان ماہرین نے یہ بھی کہا ہے کہ اگلی صدی میں ہم اپنے پسندیدہ شیفس کی ڈشیں ڈائون لوڈ کر کے پرنٹ کرنے کے اہل ہو جائینگے اور یہ چند لمحوں ہی میں کھانے کے قابل ہوں گی ۔ اسکے علاوہ چاند اور مریخ پر آباد کاری بھی ہو جائے گی اور خلا میں جانے کیلئے باقاعدگی سے کمرشل فلائٹس روانہ ہوں گی ۔ نیز گھروں کی دیواریں ایل ای ڈی ا سکینرز پر مشتمل ہوں گی ، جنہیں موڈ کے مطابق تبدیل اور سجایا جا سکے گا۔ برادرانِ ملت ! مالک حقیقی ہی بہتر اور خوب جانتا ہے مگر قرائن بتاتے ہیں کہ جس دارالکفار کی صنعتی ترقی اور سائنسی ٹیکنالوجی نے زمین کی طنابیں کھینچ کر رکھ دی ہیں اور صدیوں کے فاصلے لمحو ں میں طے ہونے لگے ہیں ، جن کی انفارمیشن ٹیکنالوجی پوری دنیا کے علوم اور تاریخ کو سمیٹ کر انٹر نیٹ پر لے آئی ہے اور ہر کسی کو ہر لمحہ دنیا بھر سے رابطہ میسر ہے ۔جن کی سائنس نے انسانی جسم کے ہر خلیے ، اس کی ساخت کے ہر ریشے اور اس کی بافت کے ہر گوشے کو بے نقاب کردیا ہے ، جن کی ٹیکنالوجی نے ہر انسان پر کائنات کے اسرار و رموز پر ناقابل یقین تحقیق کے در وَا کردیئے ہیں اور جنہوں نے اپنے جدید علوم کی بدولت فطرت کی ان قوتوں کو زیر پا کرلیا ہے جو ماضی میں انسان کیلئے ناقابل فہم معمہ تھیں ، ان سے کیا بعید کہ وہ آئندہ صدی میں یہ سب کچھ بھی کر گزریں ۔ ہمارے ’’ایمان کی مضبوطی ‘‘ اپنی جگہ لیکن اگر ہم آج سے سو برس قبل کی اپنی ’’بے آب و گیاہ‘‘ زندگی اور موجودہ دور کی سہولتوں کا تقابل کریں تو ان سائنسی پیشگوئیوں پر یقین نہ کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ گزشتہ صدی کے ہمارے آبائو واجداد ،جن کے سفر کیلئے فقط ان کے اپنے پائوں یا گھوڑے اور خچر ہی دستیاب تھے ، اگر آج کے ڈیجیٹل زمانے اور سیٹلائٹ عہد کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے یہاں آ سکیں تو حیرت سے دوبارہ فوت ہوجائیں ۔ کیا مہینوں اور سالوں کا پاپیادہ یا بحری جہازوں کا سفر کر کے حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے والے سوچ سکتے تھے کہ ان کے بچے چارٹرڈ فلائٹس سے چند گھنٹوں میں مکہ مکرمہ یا مدینہ منورہ میںاپنے بچوں کے نکاح پڑھوا کر واپس بھی آ جائیں گے یا لنچ دبئی اور ڈنر کراچی میں کریں گے ؟ رفتگان کو چھوڑئیے ، کیا خود ہم لوگ چند برس قبل موبائل فون ،آئی پیڈ ، ٹیبلٹ ، لیپ ٹاپ ،انٹر نیٹ ،واٹس ایپ ، فیس بک ، ٹوئٹر اور انسٹا گرام جیسی محیرالعقول اشیاء کا تصور بھی کر سکتے تھے ؟
مالک حقیقی بہتر اور خوب جانتا ہے مگر حالات و واقعات کی روشنی میں تو کوئی بھی آنکھوں اور کانوں والا سو برس بعد کی اس حیرت انگیز زندگی سے انکار نہیں کر سکتاکہ جو غیر مسلم ہماری خدمت کیلئے لائف سیونگ ڈرگز ،بائیسکل ، موٹر سائیکل ، موٹر کار ،ٹرین ،جہاز،بجلی ،فون ،کمپیوٹر ، انٹر نیٹ، سیٹلائٹ ، لائوڈ اسپیکر ، فریج ، پنکھے ، سلائی مشین ، واشنگ مشین ، فائر بریگیڈ ، ایمبولینس حتیٰ کہ عینک اور بال پوائنٹ جیسی لا تعداد چیزیں ایجاد کر سکتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جو اپنے ہاں جمہوریت ،مساوات ،بنیادی حقوق ،شخصی آزادیاں ،احترام آدمیت، رواداری اور قانون کی حکمرانی کا معتبر نظام کامیابی سے متعارف کر اکے قابل تقلید وسیع النظر سماج قائم کر سکتے ہیں،وہ کائنات کی وسعتوں اور سمندر کی تہوں کو چیر کر شہر بھی آباد کر سکتے ہیں ۔ آج اگر ناسا دوربین کی مدد سے خلا میں 13ارب40کروڑ نوری سال دور واقع جی این زیڈ 11نامی کہکشاں کی تصاویر جاری کر سکتا ہے ، امریکی ماہرین فلکیات نظام شمسی کا 9واں سیارہ دریافت کر سکتے ہیں ،خلا میں عالمی اسپیس اسٹیشن میں پھول کھلا سکتے ہیں ، ان کا خلائی جہاز4ارب70کروڑ کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے پلوٹو کو چھو سکتا ہے ، اگر ان کے سائنسدان اپنی مریخ گاڑی کیو روسٹی کی لیبارٹری میں مریخ کے ’’کمبر لینڈ‘‘ پتھروں کا زمین پر بیٹھ کر تجزیہ کر سکتے ہیں کہ یہ اربوں سال پہلے پانی کی جھیل میں پڑے تھے ، اگر قتالہ مغرب کے ماہرین فلکیات اور سائنسدان تحقیق سے زمین جیسے 8.8ارب سیاروں کا ’’گولڈی لاک زون‘‘ دریافت کر سکتے ہیں ،اپنے خلائی روبوٹ زمین سے کروڑوں میل دور دمدار ستاروں پر اتار سکتے ہیں ، اپنے خلائی اسٹیشن سے اس کے مدار پر دنیا بھر میں سوا چار کروڑ طالب علموں تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں ، خلامیں 180سے زائد مرتبہ چہل قدمیاں کر سکتے ہیں ، سوچنے والی مشینیں بنا سکتے ہیں ، چار سالہ بچے کو مصنوعی پتہ لگا سکتے ہیں اور ماں کے پیٹ میں بچے کے دل کا آپریشن کر سکتے ہیں تو سو برس بعد ان کیلئے 3Dپرنٹڈ گھر ، چاند اور مریخ پر انسانی آبادکاری اور زیر زمین اور زیر آب شہر بسانے جیسے ’’ مافوق الفطرت‘‘ کام بھی ممکن ہیں ۔
یاد رہے کہ یہ سو سال بعد کی صرف ایک دنیا کی جھلک ہے ، جبکہ اس کے مقابلے میں وہاں ایک دوسری ’’دنیا‘‘ بھی ’’آباد و شاد‘‘ ہو گی جسے لوگ ’’نرالی دنیا‘‘ کے نام سے یاد کریں گے ۔ مالک حقیقی ہی بہتر اور خوب جانتا ہے مگر قرائن بتاتے ہیں کہ سو سال بعد نرالی دنیا کے پارسا لوگ پہلی دنیا کی ایجاد سے مستفید ہو کر اپنی پسندیدہ ڈشیں ڈائون لوڈ کر کے تناول فرماتے ہوئے انکے معاشروں کے اند رسے کھوکھلا ہونے اور کسی بھی وقت دھڑام سے زمین بوس ہونے کی پیش گوئیاں کر رہے ہوں گے ۔اگلی صدی میں جس دن اول الذکر دنیا مریخ پر پہلی اینٹ لگائے گی ، اسی دن موخر الذکر دنیا والے بجلی کی لوڈ شیڈنگ پر قابو پانے کیلئے سنجیدگی سے غور شروع کر دینگے …اس نرالی دنیا کی باتیں اگلے کالم میں۔
تازہ ترین