میری فرمائش پر میرے محترم دوست جناب ریاض احمد چوہدری، جو آج کل ’بزمِ اقبال‘ کے سیکرٹری ہیں، نے بڑی دلچسپ کتاب ارسال کی جس میں حکیم الامت ڈاکٹر محمد اقبال کا خطبۂ الٰہ آباد قدرے تفصیل سے درج تھا جو اُنہوں نے 29 دسمبر 1930ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں صدر کی حیثیت سے ارشاد فرمایا تھا۔ اِسی خطبے کے حوالے سے وہ ’’مصورِ پاکستان‘‘ کے لقب سے پکارے جاتے ہیں۔ اِس تاریخی خطبے کی بنیاد پر لاہور کے منٹو پارک میں 23 مارچ 1940ء کی شام آل انڈیا مسلم لیگ نے حضرت قائدِاعظم محمد علی جناح کی صدارت میں ایک لاکھ کے لگ بھگ مندوبین نے اتفاقِ رائے سے قراردادِ لاہور منظور کی تھی۔ اِس موقع پر قائدِاعظم نے بڑے سرشار لہجے میں فرمایا تھا کہ اگر آج اقبال زندہ ہوتے، تو بہت خوشی محسوس کرتے۔
ہمیں آزادی حاصل کیے ہوئے 73 سال گزر چکے ہیں جن میں عظیم معرکےبھی سر ہوئے اور سانحے بھی پیش آئے۔ بہت بڑا سانحہ یہ ہے کہ پاکستان کے عوام زندگی کی اُن رفعتوں کو نہیں چھو سکے جو ’’مصورِ پاکستان‘‘ علامہ اقبال اور حضرت قائدِاعظم کا وژن تھا۔ بدقسمتی سے ہم پر زیادہ تر ایسے حکمران مسلط ہوتے رہے جو یا تو انتخابات میں جھرلو کے ذریعے یا بندوق کی بیرل کے بل بوتے پر آگے آئے یا باہر سے درآمد کیے جاتے رہے۔ اُن کے سینے بالعموم اُس روشنی سے خالی تھے جو خطبۂ الٰہ آباد کے چشمۂ انوار سے پھوٹی تھی۔ اِس کے علاوہ ہمارے بعض خودساختہ دانش وروں، تاریخ نویسوں اور سیاسی تجزیہ کاروں نے علامہ اقبال کے تصورات اور نظریات کے بارے میں ایسے ایسے مغالطے پیدا کیے جن سے قوم کی یک سوئی، قوتِ عملی اور جذبۂ وحدت کو شدید ضعف پہنچا اور آج بھی پہنچ رہا ہے، چنانچہ قوم کے اندر وہی روح ازسرِنو پھونکنے کی اشد ضرورت ہے جو ’’مصورِ پاکستان‘‘ نے اپنے انقلاب آفریں خیالات سے مسلمانانِ ہند کے وجود میں سرایت کر دی تھی۔
الٰہ آباد کے اجلاس میں حکیم الاُمت ڈاکٹر محمد اقبال کی تقریر سننے کے لیے پورے ہندوستان سے بڑی تعداد میں نوجوان آئے تھے، کیونکہ اُن کی شاعری نے اُن میں بہت بیداری اور توانائی پیدا کی تھی۔ تب ڈاکٹر محمد اقبال برِصغیر کے علاوہ پوری اسلامی دنیا اور مغرب میں اسلام کے ایک نابغۂ روزگار مفکر، فلسفی اور سیاسی دانش ور اَور زَبردست شاعر کی حیثیت سے اپنا نام پیدا کر چکے تھے۔ اُن کے خطبات، تصانیف اور شعری مجموعوں کے انگریزی، فرانسیسی اور جرمن زبانوں میں ترجمے ہو رہے تھے۔ اُن کی رائے کو مشرق اور مغرب میں بڑی اہمیت دی جا رہی تھی۔ وہ 1910ء میں حیدرآباد دَکن گئے اور وَاپسی پر اورنگزیب عالمگیر کی تربت پر حاضری دی، اُن پر خاص کیفیت دیر تک طاری رہی اور اِسی کیفیت میں علامہ اقبال نے اُنہیں ہندوستان میں مسلم قومیت کا بانی قرار دیا تھا۔
ڈاکٹر محمد اقبال نے اپنے خطبے کے آغاز میں ایک بہت بڑا تاریخی انکشاف کیا ’’یہ مبالغہ نہیں کہ دنیا بھر میں شاید ہندوستان ہی ایک ملک ہے جس میں اسلام کی وحدت خیز قوت کا بہترین اظہار ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر ہندوستان میں کوئی قوم بستی ہے، تو وہ مسلمان ہی ہیں۔ یہ یک رنگی آپ کو اسلام نے عطا کی ہے جو اَب بھی ایک زندہ قوت ہے جو ذہنِ انسانی کو نسل و وَطن کی قیود سے آزاد کر سکتی ہے۔‘‘ پھر اُنہوں نے دوٹوک الفاظ میں فرمایا ’’میں صرف ہندوستان اور اسلام کی فلاح اور بہبود کے خیال سے ایک منظم اسلامی ریاست کا مطالبہ کر رہا ہوں۔ اِس سے ہندوستان کے اندر توازنِ اقتدار کی بدولت امن و امان قائم ہو جائے گا اور اِسلام کو اِس امر کا موقع ملے گا کہ وہ اِن اثرات سے آزاد ہو جائے جو عربی شہنشاہیت کی رُو سے اب تک اِس پر قائم ہیں، وہ اِس جمود کو توڑ ڈَالے گا جو اِس کی تہذیب و تمدن اور تعلیم پر صدیوں سے طاری ہے۔‘‘
آگے چل کر علامہ اقبال نے اس علاقے کی نشان دہی فرمائی جہاں اسلامی ریاست قائم ہو سکتی ہے۔ ’’میری خواہش ہے کہ پنجاب، صوبہ سرحد، سندھ اور بلوچستان کو ایک ریاست میں ملا دیا جائے ..... مجھے تو ایسا نظر آتا ہے کہ اور نہیں تو شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو آخرکار منظم ریاست قائم کرنی پڑے گی۔ اگر شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو اِس امر کا موقع دیا گیا، کہ وہ اپنی نشوونما و اِرتقا میں آزادانہ قدم اُٹھا سکیں، تو وہ تمام بیرونی حملوں کے خلاف، خواہ وہ حملہ بزورِ قوت ہو یا بزورِ خیالات، ہندوستان کے بہترین محافظ ثابت ہوں گے۔‘‘ اِس عظیم تصور کے پہلو بہ پہلو اُنہوں نے عصری اہمیت کی بحث چھیڑتے ہوئے فرمایا ’’سوال یہ ہے کہ جو مسئلہ آج ہے، اِس کی صحیح حیثیت کیا ہے۔ کیا واقعی مذہب ایک نجی مسئلہ ہے اور آپ بھی یہی چاہتے ہیں کہ ایک اخلاقی اور سیاسی نصب العین کی حیثیت سے اسلام کا بھی وہی حشر ہو جو یورپ میں مسیحیت کا ہوا ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ ہم اسلام کو بطور ایک اخلاقی تخیل تو برقرار رَکھیں، لیکن اس کے نظامِ سیاست کے بجائے ان قومی نظامات کو قبول کر لیں جن میں مذہب کی مداخلت کا امکان باقی نہیں رہتا؟ اِسلام کا مذہبی نصب العین اس کے معاشرتی نظام سے الگ نہیں کہ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔‘‘
علامہ اقبال نے آخر میں ارشاد فرمایا ’’ایک سبق جو میں نے تاریخِ اسلام سے سیکھا ہے، یہ ہے کہ مشکل وقتوں میں اسلام ہی نے مسلمانوں کی زندگی کو قائم رکھا۔ اگر آج ہم اپنی نگاہیں پھر اسلام پر جما دیں، تو آپ کی منتشر اور پراگندہ قوتیں ازسرِنو جمع ہو جائیں گی۔‘‘ مجھے یوں محسوس ہوا کہ اسلام کو ایک تمدنی طاقت کے طور پر غالب دیکھنے کے آرزومند اقبال نے ابھی ابھی پاکستان کے اہلِ دانش، اہلِ قلم اور اہلِ اقتدار سے خطاب کیا ہو جو اپنے ہی پیدا کردہ گمبھیر مسائل میں جکڑے ہوئے ہیں۔