• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کچھ عجیب سے دن ہیں۔ کورونا وائرس کی آفت ابھی پوری طرح سے ختم نہیں ہوئی کہ ہمیں بارش نے آ لیا۔ کراچی تو ایک گہرے تالاب میں تبدیل ہو گیا۔ لاہور اور دوسرے شہروں میں بھی کچھ بہتر صورت حال نہیں۔ قصہ یہ ہے کہ ہم نے اس ملک میں اداروں، ضابطوں اور اقدار کے ساتھ جو کھلواڑ کی، شہری کو جس طرح بے وقعت کیا، انسانی ترقی کے بنیادی ہدف کو جس طرح نظر انداز کیا، عوام کے معیار زندگی سے جو غفلت برتی، اسکا ناگزیر نتیجہ یہ تھا کہ آگے تو کیا بڑھتے، بنے بنائے ڈھانچے بھی زمیں بوس ہو گئے۔ جس شہر میں چائنا کٹنگ کا چلن ہو جائے، وہاں نکاسی آب کا بندوبست کیسے برقرار رہ سکے گا۔ جہاں آمریت کو اپنی طوالت کی فکر ہو اور جمہوریت کو شب خون کا اندیشہ ، وہاں عام شہری کی زندگی سستی ہو جاتی ہے۔ گندم مہنگی ہو جاتی ہے۔ اگر حیات بلوچ کی زندگی ایک ماتحت اہلکار کے اشتعال کی نذر ہو سکتی ہے، اگر نقیب محسود کا باپ انصاف پائے بغیر رخصت ہو سکتا ہے، اگر حقوق کی آواز اٹھانے والے نوجوان سارنگ کی واپسی کے لئے بوڑھے باپ کو صدارتی اعزاز سے انکار کرنا پڑے، جہاں جسٹس جاوید اقبال چار ہزار گم شدہ افراد کی بازیابی کا اعلان تو کریں لیکن یہ نہ بتائیں کہ مٹی کے یہ پتلے کس جزائر انڈیمان میں روپوش تھے، وہاں امید کی موت واقع ہو جاتی ہے، شہری اور ریاست میں رشتہ ٹوٹ جاتا ہے۔ پوری قوم سازش، فریب اور نا انصافی کے غبار میں اوجھل ہو جاتی ہے۔ میر نے کہا تھا، رہتا ہے ہوئے بن کب، جو کچھ کہ ہوا چاہے۔ مگر ہمارا تو اس دیس سے ناخن کا بندھن ہے، آنکھ بھر ہی آتی ہے جب مصحفی کا شعر مجسم ہو کر آنکھوں تلے پھرتا ہے۔

اب دیکھو تو قلعی سی ان کی ادھڑ گئی ہے

تھا جن عمارتوں پر دلی کے کام گچ کا

ایک وفاقی وزیر نے سیاسی مخالفین کو ”واجب القتل“ قرار دیا ہے۔ کچھ معلوم نہیں کہ کس قانون اور کس اختیار سے استفادہ کیا؟ بیٹھے بٹھائے کراچی میں شہری حکومت، سندھ سے علیحدہ انتظامی بندوبست اور صوبائی حکومت کی مبینہ نا اہلی کا شور بلند ہوا ہے۔ ہو سکتا ہے کسی کو وفاق کی جنوب مشرقی اکائی میں اپنی عمل داری نہ ہونے کا قلق ہو لیکن ہمارا ملک ان چونچلوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ہم نے سرکاری دفتروں میں تخلیق کردہ ون یونٹ کا عذاب دیکھ رکھا ہے۔ ادھر ایک خانہ ساز سیاسی جماعت کے سربراہ صدارتی نظام کے لئے ریفرنڈم کا مطالبہ لے کر عدالت عظمیٰ میں پہنچ گئے ہیں۔ اللہ اکبر! گویا دستور کے تحت قائم ہونے والی عدلیہ سے دستور کی تشکیل نو کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ ہمارے ملک میں ریفرنڈم کی روایت عبرت ناک ہے۔ ایک ریفرنڈم ایوب خان نے فروری 1960میں منعقد کیا، بنیادی جمہوریت کے 95.6فیصد نمائندوں نے ”صدر فیلڈ مارشل ایوب خان، ہلال پاکستان، ہلال جرات“ پر اعتماد کا اظہار کیا۔ دوسرا ریفرنڈم 19دسمبر 1984 کو منعقد ہوا جس میں 97.71 فیصد رائے دہندگان نے جنرل ضیا الحق کو اسلای نظام کے نام پر ”اگلے پانچ برس کے لئے صدر منتخب کر لیا“۔ 30اپریل 2002 ء کو تیسرے ریفرنڈم میں 97.49فیصد رائے دہندگان نے نظریہ پاکستان کے نام پر جنرل پرویز مشرف کو صدر منتخب کر لیا۔ اس ملک میں تنازع نظام حکومت کا نہیں، حق حکمرانی کا ہے۔ خرابی دستور میں نہیں، دستور سے انحراف کرنے والوں میں ہے۔ جو رہنما، ایران، سعودی عرب، ملائشیا اور چین کے نظام حکومت میں فرق کرنے سے قاصر ہوں، وہ اپنے ملک کو شمالی کوریا بنا ڈالتے ہیں۔ پورا ملک سانس روکے بیٹھا ہے، کسی بندہ خدا کو خبر نہیں کہ سربراہ مملکت زندہ ہیں یا پردہ فرما گئے۔ ہم پر بھی یہ پیغمبری وقت جنوری 1968ء میں آیا تھا۔ صدر ایوب علیل ہو گئے اور یحییٰ خان نے ایوان صدر Secureکر لیا۔ ہفتہ بھر کسی کو ایوب خان تک رسائی نہیں تھی۔ پہلے بھی تو گزرے ہیں، دور نارسائی کے بے ریا خدائی کے۔

ایک صاحب تھے امبرٹو ایکو، 1932 میں اٹلی میں پیدا ہوئے اور 2016 میں وفات پائی۔ فلسفی اور ناول نگار تھے، ازمنہ وسطیٰ کی تاریخ سے شغف تھا۔ ہم عصر دنیا کے فکر و فلسفے میں بڑا مقام ہے۔ 1995 ء میں امبرٹو ایکو نے ”دائمی فسطائیت“ کے عنوان سے ایک تحریر میں فسطائی حکمرانی کی چودہ خصوصیات گنوائی تھیں۔ یونہی برسبیل تذکرہ دہرائے دیتا ہوں۔ روئے سخن اگر کسی کی طرف ہے بھی تو امریکا کا ٹرمپ اور بھارت کا مودی سمجھیے۔ مقامی خدایان قضا و قدر مشتعل نہ ہوں۔ امبرٹو ایکو لکھتے ہیں کہ (1) فسطائیت میں روایت پرستی اور قدامت پسندی پر زور دیا جاتا ہے۔ (2) جدیدت اور روشن خیالی کو بے راہروی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ (3) تفکر کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ عمل برائے عمل کی تلقین کی جاتی ہے۔ (4) اختلاف رائے کو غداری قرار دیا جاتا ہے۔ (5) فسطائیت بیرونی، اجنبی عناصر سے خائف رہتی ہے۔ تنوع کی بجائے یکسانیت پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ (6) متوسط طبقے کی مایوسی سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ اس طبقے کو بیک وقت اشرافیہ اور غریبوں سے خوف دلایا جاتا ہے۔ (7) لوگوں کو مسلسل بیرونی اور داخلی سازشوں سے ڈرایا جاتا ہے۔ قوم میں محاصرے کی نفسیات پیدا کی جاتی ہے۔ (8) دشمن کو بیک وقت بہت طاقتور اور بہت کمزور بتایا جاتا ہے، حکومت مضبوط دشمن سے حفاظت کرے گی اور اسے ملیامیٹ کر دے گی۔ (9) امن پسندوں کو دشمن کا ایجنٹ قرار دیا جاتا ہے۔ (10) فسطائیت اپنے مخالفین سے حقارت کا سلوک کرتی ہے۔ (11) فسطائیت کو ہیرو بنانے کا جنون ہوتا ہے۔ بڑے بڑے کارنامے کرنے والے ہی قوم کا اثاثہ ہیں۔ (12) ہتھیاروں اور طاقت کی نمائش کا چلن ہوتا ہے۔ (13)مقبول عام رجحانات کو ہوا دے کر انہیں عوام کی آواز بتایا جاتا ہے۔ (14) فسطائیت عامیانہ لب و لہجے اور بازاری زبان کو فروغ دیتی ہے تا کہ غور و فکر پر مبنی تنقیدی شعور کو دبایا جا سکے۔ اس آخری نکتے سے یاد آیا کہ محترم صحافی مبشر زیدی اور محترمہ بے نظیر شاہ کراچی والے وفاقی وزیر کی شیریں بیانی سے دل گرفتہ نہ ہوں۔ امبرٹو ایکو کے بیان کردہ نسخے کی خوبی یہی ہے کہ اسے کامیابی اور دوام نصیب نہیں ہوتے۔

تازہ ترین