• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

پنجاب کابینہ کی منظور شد ہ میڈیا پالیسی کے تین اہم نکات نے پوری اخباری صنعت کو ہلا کررکھ دیا ہے۔ اس پالیسی کا سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ سابقہ میڈیا پالیسی میں علاقائی اخبارات کے وجود کو باقاعدہ طور پر تسلیم کرتے ہوئے پچیس فیصد اخباری کوٹہ مختص کیا گیا تھا اور دہائیوں سے اس پر عمل بھی ہو رہا تھا لیکن نئی پالیسی میں علاقائی اخبارات کا لفظ حذف کرکے پچیس فیصد اشتہاری کوٹہ سرے سے ہی ختم کر دیا گیا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ اس پالیسی کے تحت سرکار نے کفایت شعاری، شفافیت کے نام پر ایک ایسا جدید طریقہ دریافت کرلیا ہے جس سے ہر سطح پر کرپشن ، ناانصافی کی نئی راہیں کھل جائیں گی اور پٹواریوں کی اجارہ داری ختم کرنے کی دعوے دارحکومت ٹھیکے داروں کے ہاتھ مضبوط کرے گی اور ٹھیکے دار مافیا مکمل طور پر قانون کی گرفت سے بچ جائے گا۔ سابقہ پالیسی کے تحت 14 لاکھ روپے مالیت سے زائد ٹینڈر نوٹس دو اُردو ، انگریزی روزناموں اور ایک علاقائی اخبار جبکہ چودہ لاکھ سے ایک کروڑ روپے مالیتی ٹینڈر نوٹس چار اخبارات جن میں دو اُردو انگریزی قومی اور دو علاقائی اخبارات کو جاری کئے جاتے تھے اور ایک کروڑ سے زائد مالیتی ٹینڈر نوٹس کے اشتہارات چھ اخبارات ، تین قومی اُردو، انگریزی اور تین علاقائی اخبارات کو جاری کئے جاتے تھے جبکہ ترمیم شدہ پالیسی کے تحت تمام حکومتی محکموں تحصیل ،میونسپل اتھارٹی کے ٹینڈرز جن کی مالیت بیس لاکھ روپے سے کروڑوں روپے تک ہوگی ان کے اشتہارات صرف دو قومی اخبارات میں شائع کئے جاسکیں گے جبکہ علاقائی اخبارات کا استحقاق مکمل طور پر ختم کر دیا گیا ہے۔ یہ پالیسی کسی بھی طور پر قابل قبول ہے نہ شفافیت و اخلاقی اقدار کے مروجہ اصولوں کے مطابق بلکہ مسابقتی کمیشن کے اُصولوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی بھی ہے جس کی بنیاد پر مسابقت کا رجحان مکمل طور پر ختم کر دیا گیا ہے اور کسی بھی تعمیراتی کام کے اخراجات میں اوپن ٹینڈر کی شکل میں حکومت کو جو بچت ہوتی تھی وہ بھی ختم کر دی گئی ہے۔ اگر یہی اشتہاری پالیسی اپنائی گئی تو کوئی بھی کسی بھی وقت ایسے ٹھیکوں کی الاٹمنٹ میں انتظامی ملی بھگت کا دعویٰ کرکے عدالتی چارہ جوئی کرنے کا حق رکھتا ہے ۔ پنجاب حکومت نے ترمیم شدہ میڈیا پالیسی سے ایک ایسا پنڈورا بکس کھول دیا ہے کہ جب اس کا ڈھکن اٹھایا جائے گا تو ضلعی، تحصیل اور ڈویژنل سطح پر سول انتظامیہ و سیاسی قیادت نیب کے دروازوں پر بیٹھی نظر آئے گی۔ پالیسی سازوں کی نااہلی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ چھوٹے قصبات ، میونسپل کمیٹیوں، اضلاع کے ٹینڈر اگر علاقائی اخبارات میں شائع نہیں ہوں گے تو مقامی کمپنیاں کس طرح سرکاری تعمیراتی منصوبوں کے اوپن ٹینڈر میں حصہ لے سکیں گی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ان اشتہارات میں علاقائی اخبارات کا کوٹہ پچیس فیصد سے بڑھا کر پچاس فیصد کر دیا جاتا لیکن یہ حق سرے سے ہی ختم کر دیا گیا ہے۔ مسابقت کا رجحان ختم کرکے بچت کے نام پر من پسند ٹھیکے داروں کو کاموں کی الاٹمنٹ کا قانونی جواز پیدا کرنے کی یہ کون سی تدبیر ہے؟ کروڑوں روپے کے ٹھیکوں کے چند ہزار روپے کے اشتہارات بند کرکے حکومت کون سی کفایت شعاری اپنانا چاہتی ہے۔ یہ سراسر علاقائی اخبارات کے معاشی استحصال کا نیا منصوبہ ہے جس سے ہزاروں صحافی کارکن علاقائی سطح پر بے روزگار ہوجائیں گے بلکہ قومی خزانے پر کروڑوں روپے کا ڈاکہ مارنا بھی آسان ہو جائے گا۔ سابقہ میڈیا پالیسی کا ایک اچھا پہلو یہ بھی تھا کہ محکمہ تعلقات عامہ و ثقافت پنجاب نے اخباری اداروں کو ادائیگیوں کا ایک ایسا آئیڈیل طریقہ کار اختیار کررکھا تھا جس کے تحت تمام میڈیا ہاؤسز اشتہارات کے بل روزانہ کی بنیاد پر ڈی جی پی آر میں جمع کروا تے، محکمہ انہیں نوے دن میں ادائیگی کا پابند ہوتا۔ تمام اداروں کو ماہانہ کی بنیاد پر بلاتفریق ادائیگی کردی جاتی تھی لیکن اب یہ طریقہ کار یکسر ختم کرکے میڈیا ہاؤسز کو ڈسپلے اور آئی پی ایل اشتہارات کے بل تو ڈی جی پی آر اور متعلقہ ایڈورٹائزنگ ایجنسیوں میں جمع کروانے کی ہدایت کی گئی ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی لکھ دیا گیا ہے کہ یکم جولائی 2020 ءسے تمام متعلقہ سرکاری محکمے پندرہ فیصد ایجنسی کمیشن کاٹ کر براہ راست میڈیا ہاؤسز کو ادائیگی کریں گے یہ طریقہ کار انتہائی تکلیف دہ اور پیچیدہ ہے اور اس طریقہ کار سے اخباری مالکان کی سب سے مستند تنظیم اے پی این ایس کے کردار کو بھی مکمل طور پر ختم کرکے ڈی جی پی آر اور سرکاری محکموں پر غیر معمولی دباؤ بڑھا دیا گیا ہے۔ امکان یہی ہے کہ مستقبل میں نوے دن میں ادائیگیوں کا آئیڈیل نظام درہم برہم ہو جائے گا اور میڈیا ہاؤسز کے ساتھ ایک نئی کشمکش شروع ہونے سے حکومت کی رہی سہی ساکھ بھی برباد ہو جائے گی اور تمام قانونی و اخلاقی ضابطے ٹوٹنے سے پوری اخباری صنعت شدید مالی بحران کا شکار ہو گی اور علاقائی اخبارات مکمل طور پر بند ہو جائیں گے۔ اس حوالے سے علاقائی اخباری مالکان میں شدید تشویش پائی جارہی ہے ۔ حکومت نے اگر فوری طور پر اس مجوزہ ترمیم کو واپس نہ لیا تو یقینا ٹکراؤ کی ایسی کیفیت پیدا ہوگی جو کسی بھی فریق کے لئے سود مند نہیں ۔ بہتر یہی ہے کہ اس ترمیم کو فوری طور پرواپس لے کر اس بحرانی کیفیت کو فوری ختم کیا جائے اور اس ترمیم کے پس منظر میں حکومت کے خلاف ہونے والی سازش کی تحقیقات کرائی جائے۔ اگر کوئی ترمیم مقصود بھی ہو تو پہلے اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی جائے اور ایسی کوئی بھی پالیسی بنانے سے گریز کیا جائے جو مستقبل میں ہر کسی کے لئے نقصان کا باعث ہو۔ کرپشن کے اس باب کو آج بند نہ کیا گیا تو کل ہر حکومتی عہدے دار نیب کے کٹہرے میں کھڑا ہوگا۔

تازہ ترین