• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حالیہ بارشوں کے بعد کراچی میں غریبوں کے گھر گھر شامِ غریباںہے،اس محرم کا نوحہ یہ ہے کہ چہار دام ماتم بس ماتم ہے۔آزمائش کے ان شب وروز سے کس طرح یکسوئی سے نکلنا ہے اور دکھی دلوں پر مرہم رکھ کر مستقبل میں ایسی بلاخیز تباہ کاریوں سے بچنا ہے، اس جانب حکمران طبقات میں توجہ کی ضرورت کا کوئی احساس نہیں ،بلکہ اس وقت قائد اعظم کے اس شہر کی مثال اُس ماں کی سی ہے جس کی موت پر نالائق اور خود غرض بیٹے اپنے سے چھوٹے بھائیوں کی فکر کی بجائے اس بات پر اختلاف کا میدان گرم کئے ہوں کہ دوسرے نے اس کا خیال نہیں رکھا۔یہی حال ان دنوں وفاق ،سندھ حکومت اور میئرکراچی یعنی بلدیاتی اختیارمندوں کا ہے۔کون نہیں جانتا کہ وفاق کو سب سے زیادہ ریونیو دینے اور کاروبار و روزگار کےبے قید مواقع رکھنے والے کراچی کی یوں بے چارگی میں اُن تمام اختیارمندوں کا حصہ ہے جو اس وقت باہم دست وگریباںہیں یا پھر جنہوں نے خود کو ناگزیر بنانے کیلئے ان عناصر کو بوٹیوں پر لڑا ئے رکھا ہو۔احمد ندیم قاسمی نے کہا تھا۔

تمام عمر کئے،چاک دامنی کے گلے

بعزمِ بخیہ گری بخیہ گرکا ذکر کریں

عروس البلاد کو اندھیروں کی آماجگاہ کس نے بنایا ،قائد اعظم کے اس مسکن کوخوف ودہشت سے کس نے بھر دیا،سونے کی اس چڑیا کو لوٹ کر محلات کس نے آراستہ کئے،ان تمام حقائق سے ہر ذی شعور شہری آگاہ ہے،بقول حفیظ جالندھری ،وہ سامنے دھری ہے صراحی بھری ہوئی ۔اس غریب پرور شہر کی بدنصیبی کا آغاز اُس وقت ہو ا جب انتخابات میں آمر جنرل ایوب خان کی جنیاتی کا میابی کے دیوتائی جشن کا اہتمام کیا گیا۔وزیر بجلی عمرایوب کے والد گرامی نے اپنی فوجِ ظفر موج کے ساتھ محترمہ فاطمہ جناح کے حامی نہتے مہاجروں کی بستیوں پر یلغار کی ،اس شخص نے اپنے بعض پختون پتھاریداروں کے باوصف اسے پختونوں کا لشکر باورکرایا۔درحقیقت گوہر ایوب نہ تو اُس وقت پختونوں کے نمائندے تھے اور نہ آج ہیں۔ان صدارتی انتخابات میں پختونوں نے مرحوم ومغفور ولی خان کی قیادت میں محترمہ فاطمہ جناح کی نہ صرف حمایت کی تھی بلکہ ولی خان مرحوم ان انتخابات میں آمر مطلق کیخلاف محترمہ فاطمہ جناح کے صوبہ سرحد(پختونخوا)میں انتخابی مہم کے نگراں تھے۔لیکن پھر اسی کراچی کے دروبام نےیہ منظر بھی دیکھا کہ وہ لوگ جو خود کو مہاجر قیادت کا ستونِ غیر متزلزل کہتے ہیں (اور ایسا ظاہر بھی ہوا)وہ ہزارہ صوبے کی حمایت میں اُنہی گوہر ایوب کے رفیق کار تھے جن پر کراچی کو تاراج کرنے کا الزام تھا۔بنابریں آج بھی اُسی گوہر ایوب کے صاحبزادے عمرایوب کےپہلومیں بیٹھے ہوئےہیں ۔

راقم کی نظر میں کراچی کے خلاف ڈکٹیٹر ایوب خان کا یہ ڈاکٹرائن اس لئے زہر قاتل بنا کہ اُس دن کے بعدسے آج تک یہاں مسکن پذیر لسانی اکائیاں شہر کی تعمیر و ترقی کی بجائے اپنی توانائیاں زیادہ تر ایک دوسرے کیخلاف بروئے کار لاتی رہی ہیں۔نوگو ایریا ز بن گئے،صاف نظر آتاہے کہ کو ن سا علاقہ کس کے دستِ عنایت یا مشقِ ستم تلے ہے۔اس وجہ سے بھی جس کے ہاتھ میں جو اختیار آیا تو ذاتی مقاصد کے ساتھ ساتھ اُسے گروہی وجماعتی مفاد کے تناظر میں استعمال کیا۔یہی وجہ ہے کہ بحیثیت میئر عبدالستار افغانیاور بحیثیت ایڈمنسٹریٹر کیپٹن فہیم الزماں کے،ہمیں کوئی اور دور ایسا نظر نہیں آتاجس میں وسائل انفراسٹرکچر سمیت بنیادی مسائل پر صرف کئے گئے ہوں۔ شہر کا زیادہ تر نظام اُسی دور کا استوارشدہ ہے اس کےبعد اس میں نئے حالات کے مطابق کوئی انقلابی تبدیلی نہیں لائی جاسکی۔جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ لسانی تفریق کی ابتداایک آمرنےکی جسے اس کے بھائی بند جنرل ضیا الحق اور پھر پرویز مشرف نے بڑے سلیقے سے آگے بڑھایا ،نیز آمر ایوب خان کو ڈیڈی کہنے والے سویلین مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ذوالفقار علی بھٹو نے تما م تر جوہر کے ساتھ اس کا خیال رکھا،انہی کےدور میں مہاجر سندھی فسادات ہوئے۔ بیگانگی کے اس ماحول کو پروان چڑھانے کا اصل مقصد جمہوریت کی نفی تھا۔موقع پرست سیاستدان جن کے کام آئے۔ ان نظام کش کوششوںکا اصل ہدف پورا ملک بالخصوص کراچی اس لئے بھی ٹھہراکہ یہی شہر ہر جمہوری تحریک کا روح رواں تھا۔آپ جانتے ہیں کہ جس ملک میں مستحکم جمہوری نظام نہ ہو ،اور کام ایڈہاک ازم پر چلایا جاتاہو،اُس میں مافیاز اتنی ہی آزاد ہوتی ہیں جتنی پاکستان میں ہیں۔اس تناظر میں کراچی واٹراینڈ سیوریج بورڈ جیسے سفید ہاتھی سمیت تمام سیاسی و غیر سیاسی ان مافیاز سے بھلا کراچی جیسی سونے کی چڑیا کیونکر بچ سکتی تھی سو جو حال ہے ، سامنے ہے۔

تازہ ترین