• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

انسانی تاریخ میں ظلم و جبر، لاقانونیت، انسانی حقوق کی پامالی کیخلاف جو زوردار آواز اسلام نے بلند کی اس کی نظیر نہیں ملتی، واقعہ کربلا اسی فکر کا ترجمان ہے، اگرچہ یہ سانحہ گزرے صدیاں ہو گئیں مگر اس کے مقاصد زندہ و پائندہ ہیں ہم دنیا کی کیا بات کریں اپنے گریبان میں جھانکیں تو اپنی ہی آستینوں سے خون ٹپکتا نظر آئے گا، آج بھی وطن عزیز میں بے گناہی پر سزا دی جاتی ہے، عام غریب آدمی 72سال سے سراپا خش و خاشاک ہے۔ایک طویل عرصے سے ہمارا توازن بگڑا ہوا ہے، قوم، ملک، نظام متوازن ہونے کا خواب ہنوز شرمندہ تعبیر ہے، آزادی اظہار کے سرچشمے زیر عتاب ہیں، سب سے بڑا ستم محرومی ہے جس کا دائرہ وسیع ہوتا جا رہا ہے، بھوکے کے پاس روٹی نہیں، نوجوان کے پاس روزگار نہیں، گرانی کا گراف ہے کہ عام ضروریات کے نرخوں کے حوالے سے چڑھتا جا رہا ہے، مندی ہی مندی ہے دردمندی کہیں دکھائی نہیں دیتی کیا یہ کرب یہ بلا کربلا سے کم ہے ؟حیثیت کے دعویدار کئی مگررخت سفر کوئی نہیں باندھتا، ظلم کے خلاف محرومیوں کے دشت میںکوئی خیمہ زن نہیں، جنہیں کام کیلئے رکھا جاتا ہے ان سے کام نہیں لیا جاتا، نیب بے عیب ہے کہ محو تعاقب ہے، نتائج کی شیٹ خالی اور ناکامیوں کا شمار نہیں، کتنا مجبور ہے پاکستانی کہ جب کوئی کمائی کا ذریعہ نہ ملا تو دین ومذہب کو پیشہ بنا لیا اب کہاں سے آئے صدائے لاالہ اللہ،بھاگ جاگ رہے ہیں مگر اعصاب شل ہیں، کربلا کے مقاصد حاصل کرنے کی ضرورت ہے ، یہی اسوہ شبیری ہے، خدا کرے کہ حسین ؓ ابن علی ؓ کی عظیم قربانی کے فیوضات ہم تک پہنچیں مگر قربانی تو لازم ہے اے ہم وطنو!

٭٭ ٭ ٭ ٭

کیا سندھ ہند ہے ؟

ذرا سوچو تو کافی عرصہ ہو گیا سندھ محرومیوں میں ڈوبتا جا رہا ہے، اور ’’کراچی کہ ایک شہر تھا عالم میں انتخاب‘‘ تاریک ہے، کاروبار سر تا پا ٹھپ پڑا ہے، یہ احوال ہو گئے اس شہر کے جو شہر یار کا روبار تھا، اور رہی بات باقی سندھ کی تو اس سے ایسا سلوک کہ سوتیلے بچے سے بھی روا نہیں رکھا جاتا، لازم ہے کہ مرکز نے جو کہا ہے کر دکھائے کچھ عرصے کیلئے عمران خان سندھ میں بیٹھیں اور سیاست بازی کو ایک طرف رکھ کر اس صوبے کو اپنا مرکز بنالیں، اپنی نگرانی میں کمال مہربانی سے تعمیروترقی کے کام کرائیں، بلاول بھٹو اور چیف منسٹر کو اعتماد میں لیں کراچی کو اس کی روشنیاں واپس دلانے میں اختلافات کے بھنور سے باہر نکلیں، اگر نیت میں صدق ہو گا تو سب کچھ درست ہو جائے گا ، ہم سب سندھی، پنجابی، بلوچی، پٹھان ہونے کے باوجود فقط پاکستانی ہیں، سندھ کو سنوارنے بنانے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے، اچھا کیا مراد علی شاہ کو ساتھ بٹھا کریقین دہانی کرائی اب بھی بے یقینی نے سر اٹھایا تو ہماا یہ پیارا صوبہ اور اس کا ڈوبتا ہوا عروس البلاد کراچی صرف ایک جوہڑ بن جائے گا۔یہ سندھ ہے ہند نہیں کہ اس کی بربادی کا تماشا دیکھیں، اس طرح تو ہمارے دوسرے صوبوں تک بھی یہ تباہ کن کینسر پہنچ جائےگا، اور اتحاد ملی پارہ پارہ ہو جائے گا، سیاسی کشاکش نے صرف حبِ زر کو جنم دیا، قومی یکجہتی جاتی رہی، اب بھی وقت ہے کہ سیاست کو خدمت خلق سمجھیں ذاتی مفاد پرستی سے دور رکھیں سیاستدان ہونا عیش دان ہونا نہیں خادم قوم ہونا ہے، اگر ہم ایک غریب، خستہ حال ملک کے حکمران ہونگے تو یہ باعث ننگ وعار ہوگا، ہم اپنے گھروں میںدولت کے اتنے انبار لگا کر کیا کرینگے کہ جسے خرچ کرنے کی زندگی مہلت ہی نہ دے، اتنا کافی ہوتا ہے کہ بعداز مرگ بھی لوگ باگ دعائیں دیں اور حکمران جنت نصیب ہو جائیں۔

٭٭ ٭ ٭ ٭

تاریں پہلے کھمبے بعد میں یا ندارد

ماشااللہ جب سے بجلی کمپنیوں کو بجلی کی تنصیب و ترسیل کا کام سونپا گیا ہے ہمارے نظامِ بیمار کی طرح بجلی کا نظام بھی پورے ملک میں کرپشن میں طاق اور اس کا کام بالائے طاق ہے ، لاہور ہی کو لیجئے جہاں پوش علاقے جو صرف 30فیصدہیں اور 70فیصد لاہور، جسے پسماندہ لاہور کہیں تو غلط نہ ہو گا ،اس 70فیصد لاہور میں باقی کاموں، محکموں کی طرح لیسکو بھی پیچھے نہیں کھمبوں کا ان علاقوں میں اول تو رواج ہی نہیں اور اگر کہیں کوئی کھمبا ہے اس پر خودکشی کیلئے چڑھنے کی بھی ضرورت نہیں، بس چُھو لیجئے مقصد آپ کے قدموں میں، لیسکو عوامی علاقوں میں جب بھی جیب گرم کرنے کی جلدی میں کنکشن لگاتا ہے تاروں کے بنڈل میں ایک تار کا اضافہ کرکے میٹر ٹانگ جاتا ہے اس وقت میٹر لگوائی کے الگ الگ ریٹ ہیں، جو اس جھنجھٹ یا برق رفتار نظام کار سے دور رہنا چاہتے اور رشوت سے نفرت کرتے ہیں وہ ڈیمانڈ نوٹس کے انتظار میں ’’دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں ‘‘ کا ورد کرتے رہتے ہیں، ایجنٹ بھی موجود ہیں جو چند کاغذ آپ سے لیکر دو تین روز میں میٹر لگوا دیتے ہیں مگر نذرانہ ضرور لیتے ہیں جو سارے کا سارا ان کا نہیں بلکہ ’’ساروں‘‘ کا ہوتا ہے، نئے ٹرانسفارمروں اور نئی تاروں کا کاروبار بھی شنید میں آیا ہے، خدا کرے کہ غلط ہو مگر غلط کو بار بار غلط کہہ کر وہ صحیح تو نہیں ہو جاتا، الغرض لیسکو اور اسی طرح دیگر بجلی کی کمپنیاں پورے ملک میں کھمبوں کے بغیر اور ہمراہ رشوت زورشور سے کام کر رہی ہیں، سٹریٹ لائٹ کا تو ان کمپنیوں نے عوامی بستیوں سے نام ونشان ہی مٹا دیا ہے، ہر گھر والا ایک بلب دروازے پر ساری رات جلائے رکھتا ہے تاکہ ’’گلی بھل ناں جاوےماہی میرا ‘‘

٭٭ ٭ ٭ ٭

حسن کرشمہ ساز

٭جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم، میر شکیل الرحمن کو پابند سلاسل کرنا صحافت کا گلا گھونٹنے کے مترادف ہے۔

مشکل یہ آن پڑی ہے کہ صحافت کا گلا دبتا ہی نہیں حکومت کا سارا زور اسی پر خرچ ہو رہا ہے گڈگورننس کیلئے تو اس کے پاس پھونکیں بھی نہیں بچیں کہ صحافت کا گلا دبانا تو کچا اس کا چراغ بھی بجھا سکے۔

٭چیئرمین نیب نے رولز کے تحت خود کو عہدے میں توسیع دیدی،

عجب بات ہے بھائی ہے نا، گویا چیئرمین نیب ٹو ان ون ہیں، جو چاہے ان کا حسن کرشمہ ساز کرے۔

تازہ ترین