• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پچھلے کالم میں پاگل خانے کا رقبہ کسی غلطی کی بنا پر 156ایکڑ لکھا گیا تھا دراصل اس کا رقبہ 172ایکڑ تھا اور اب صرف 56ایکڑ رہ گیا ۔کبھی ذہنی مریضوں کی اس علاج گاہ کا رقبہ چوبرجی تک تھااور وہ دن دور نہیں جب اس رقبے پر بھی لوگ قبضہ کر لیں گے اس مینٹل اسپتال میں سعادت حسن منٹو ،ایک بہت بڑے شاعر کے بھائی اور ایک سیاسی لیڈر کے بھائی بھی زیر علاج رہے ہیں۔ پاگل خانے کی جگہ پر سردار لہنا سنگھ کی چھائونی تھی اگر آج بھی آپ کا وہاں جانے کا اتفاق ہو تو اس کا مرکزی دروازہ کسی قلعے کی طرح ہےجبکہ اندر کئی قدیم عمارتیں ہیں۔اس وسیع رقبے پر کئی طرح کے پھل لگا کرتے تھے۔مقصد یہ تھا کہ ذہنی مریضوں کو کھلی جگہ میں رکھا جائے۔جب تک ذہنی مریضوں کے لئے ادویات نہیں آئی تھیں تو انہیں گھوڑوں کے ساتھ باندھ کر بھگایا جاتا تھا۔سر پر تیز پانی کی دھاڑ ڈالی جاتی تھی بلکہ درختوں پر بڑے بڑے پنجرے رکھے ہوتے تھے۔ان میں بند کر دیا جاتا تھا ۔تاکہ وہ تھک جائیں اور ان کی شدت میں کمی ہوجائے۔سعادت حسن منٹو بھی کچھ عرصہ یہاں رہے اور انہوں نے یہیں تاریخی افسانہ ٹوبہ ٹیک سنگھ لکھا تھا۔جو ایک سکھ تھا وہ بھی اسی مینٹل اسپتال میں تھا جس نے بھارت جانے سے انکار کر دیا تھا اور پھر سرحد پر جاکر مر گیا تھا۔جب دونوں ممالک نے شہریوں کے تبادلے کا سلسلہ شروع کیا ۔پاگل خانے کے ریکارڈ کے مطابق سعادت حسن منٹو کا نام اسپتال کے رجسٹرڈ میں درج ہے ۔کسی زمانے میں لاہور میں افیون اور بھنگ کے ٹھیکے ہوا کرتے تھے۔یہ ٹھیکے باقاعدہ لائسنس دیکر جاری کئے جاتے تھے۔راشن کارڈ کی طرح افیون OPIUMاوپیئم بھی کے کارڈ افیون کا نشہ کرنے والے افراد کو جاری کئے جاتے تھے جن سے افیون کی گولیاں ملا کرتی تھیں۔

یہ پاگل خانہ کیوں اور کیسے قائم ہوا اس کی بھی بڑی دلچسپ تاریخ ہے۔مہاراجہ رنجیت سنگھ کے حرم کی کچھ عورتوں کو ذہنی عارضہ لاحق ہوگیا۔ان عورتوں کا علاج ڈاکٹر ہونگبربرجر نے کیا جو اس وقت سکھ حکومت کے ریاستی ڈاکٹر تھے اور غالباً گن پائوڈر فیکٹری میں بھی فرائض ادا کرتے تھے۔ڈاکٹر ہونگبر برجر کے علاج سے یہ ذہنی مریض خواتین تندرست ہو گئیں۔ڈاکٹر ہونگبربوجر نے برصغیر میں اپنے 35سالہ قیام پر مشتمل ایک کتاب بھی تحریر کی تھی۔جس میں انہوں نے بڑے دلچسپ واقعات لکھے ہیں۔

رنجیت سنگھ کی موت کے بعد ڈاکٹر ہونگبر نے سینٹرل لومسٹک اسیلیلم کے نام سے ذہنی مریضوں کے لئےایک وارڈ قائم کیا تھا۔اس عمارت کے داخلی دروازے پر یہ تاریخی بورڈ لگا ہوا تھا۔جو کسی ناسمجھ ایم ایس نے اتار دیا تھا ۔حالانکہ تاریخی عمارتوں کی تحریروں اور پتھروں کو محفوظ کرنا چاہئے۔

موجودہ پاگل خانے (مینٹل اسپتال) کی عمارت میں کبھی سکھ فوجی اور سکھ سردار بھی رہے ہیں پھر کبھی یہاں پر ٹھگوں کی جیل بھی رہی ہے۔پھر کسی زمانے میں پولیس کے گھوڑے بھی یہاں رہے ہیں اور کبھی یہاں السی کے پودوں کی کاشت بھی کی گئی۔

قارئین جس سڑک کو جیل روڈ کہتے ہیں کبھی اس کا نام امرتسرروڈ تھا۔جہاں آج پرائیویٹ کلینک ہیں وہاں پاگل خانے کے ایم ایس کا گھرتھا۔آج جیل روڈ (امرتسر روڈ) پر جو پرائیویٹ کلینک اور اسپتال ہیں وہ سب جگہ پاگل خانے کی تھی۔ اس جگہ کو فروخت کیاگیا یا اس پر قبضہ کیا گیا۔یہ بھی ایک کہانی ہے ایک سابق وزیر اعلیٰ جو اب اس دنیا میں نہیں رہے اور ایک سابق وفاقی وزیر نے پاگل خانے کی بہت ساری جگہ پر قبضہ کرکے یہاں پر اپنی کوٹھیاں بنالی تھیں۔جو آج بھی موجود ہیں اور ابھی پاگل خانے کے اندر ایک دو سرکاری اداروں نے قبضہ کر رکھا ہے آج کل مینٹل اسپتال سروسز انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز و سروسز اسپتال کے پاس آ گیا ہے اور سمز کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر محمود ایاز مینٹل اسپتال کو بہت بڑا سرکاری ادارہ بنانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں یہ پہلی سرکاری ذہنی مریضوں کی علاج گاہ ہے جہاں نشہ میں مبتلا افراد کے لئے سو بستروں کا ایک جدید وارڈ ہے جس کو مزید وسعت دی جا رہی ہے۔

دوستو قصہ کچھ یوں ہے کہ لاہور کے ڈائریکٹر آف پولیس میجر میک گریگر ایک روز گھوڑے پر سوار کسی بازار سے جا رہے تھے کہ ایک ذہنی مریضہ خاتون نےگھوڑے کی لگام پکڑ کر انہیں روک لیا اس واقع کی اطلاع جب ریذیڈنٹ کو ملی تو فوری حکم جاری کیا کہ سکھ حکومت کولاہور میں ذہنی مریضوں کےلئے ایک علاج گاہ /پناہ گاہ تعمیر کرنی چاہئے چنانچہ سردار لہنا سکھ کی چھائونی ہی میں پاگل خانہ بنا دیا گیا۔قارئین کو یہ بات پڑھ کر حیرت ہو گی کہ جب اس پاگل خانے میں پہلے بارہ مریضوں کو لایا گیا تو لاہور کے بہت سے شہری ان پاگلوں کو دیکھنے کے لئے پہنچ گئے گوروں نے یہاںصرف ہندوستانی لوگوں کےلئے پاگل خانے میں وارڈ نہیں بنایا تھا بلکہ انگریزوں نے اپنے لوگوں کےلئے گوراوارڈ، خواتین کےلئے وارڈ اور جرائم پیشہ پاگلوں کےلئے بھی وارڈز بنائے تھے۔انگریزوں سے کئی اختلاف سہی مگر انہوں نے برصغیر میں صحت اور تعلیم کے لئے جو ادارے بنائے تھے وہ آج بھی کام کر رہے ہیں۔

لاہور کے اندر کئی تاریخی عمارتوں اور کئی اداروں کے بارے میں کئی قدیم معلومات ہیں جن کو موجودہ لوگ جان بوجھ کر تباہ کر رہے ہیں۔تاکہ لاہور کی قدیم ترین تاریخ اور روایات سے آنی والی نسلیںبے خبر ہو جائیں۔لاہور میں جانکی دیوی، جمعیت سنگھ اسپتال کی تاریخ بھی بڑی دلچسپ ہے آئندہ کالم میں جمیل (بوٹا سنگھ) اور زینب کی بھی تاریخی رومانی داستان کے بارے میں بات کریں گےانگریزوں سے اختلافات اپنی جگہ لیکن برصغیر میں انگریزوں نے شعبہ صحت اور شعبہ تعلیم کے لئے جو گراں خدمات سرانجام دی ہیں وہ تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ (جاری ہے )

تازہ ترین