• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پہلی اور آخری بات ذہن نشین کر لینے کی یہ ہے کہ پاکستان کی حکومت، نواز شریف کو کسی طرح بھی پاکستان نہیں لا سکتی، وہ جب بھی پاکستان آئیں گے اپنی مرضی اور حالات کے مطابق آئیں گے لیکن حقائق کو جانتے ہوئے بھی اللہ جانے عوام کو ہر دو چار ماہ بعد ’’ملزموں کو واپس لائیں گے‘‘ کے ٹرک کی بتی کے پیچھے کیوں لگا دیا جاتا ہے۔

اب ایک دفعہ پھر وزیر اعظم عمران خان کا بیان ملاحظہ ہو ’’نواز شریف کی واپسی کے لئے تمام ذرائع استعمال کریں گے‘‘ شاید وزیر اعظم ایک بار پھر قومی خزانے سے کروڑوں روپے خرچ کرنے کے خواہشمند ہیں حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ برطانیہ اور پاکستان کے درمیان ’’ملزموں کی حوالگی ‘‘ کا کوئی معاہدہ موجود نہیں ہے۔ 

اس حقیقت کو بھی سامنے رکھنے کی ضرورت ہے کہ برطانیہ اس قسم کا معاہدہ کسی ایسے ملک کے ساتھ نہیں کرتا جہاں پے در پے مارشل لائوں کی ایک تاریخ ہو، جہاں بنیادی، فطری اور جمہوری آزادیوں پر کئی قسم کی قدغنیں ہوں، جہاں پولیسنگ سسٹم شرمناک حد تک قابلِ تنقید اور عدالتی انصاف کی تاریخ بھی منہ چھپاتی پھر رہی ہو۔

 چنانچہ اس قسم کی صورتحال میں یہ تصور بھی کس طرح کیا جا سکتا ہے کہ گریٹ بریٹن اپنی تمام تر گریٹ نیس ایک طرف رکھ کر لندن میں مقیم ایک ایسے شخص کو اٹھا کر پاکستان حکومت کے ایک غیر منتخب مشیر شہزاد اکبر کے حوالے کر دے گا جس شخص نے برطانیہ میں کبھی کوئی جرم نہ کیا ہو، وہ اپنے تمام شہری حقوق ادا کر رہا ہو، برطانیہ کے تمام ریاستی ادارے مطمئن ہوں کہ یہ شخص ہر قسم کے ٹیکسز مقررہ وقت و تاریخ کے اندر ادا کرتا ہے۔

وہ برطانیہ کے امیگریشن قوانین کی پابندی کرتے ہوئے یہاں مقیم ہو، کسی لڑائی جھگڑے یا کرپشن کا کوئی معمولی کیس بھی اس شخص پر نہ ہو، یہاں اُس کا یا اس کے بچوں کا بزنس بھی برطانیہ کے اداروں کی سبھی شرائط کے مطابق ہو اور بنکوں میں پڑی رقم بھی ملکی قوانین کے مطابق جائز ہو تو پھر کسی شخص یا ملک کی خواہش پر تو برطانیہ نواز شریف کو پاکستان کے حوالے کر کے اپنی ’عظمت‘ کو داغدار نہیں کرے گا۔

چلیں، فرض کر لیا جائے کہ پاکستان اس ضمن میں برطانوی اداروں کو قائل بھی کر لے کہ نواز شریف نے پاکستان میں کرپشن کی اور یہ پاکستان کے اداروں کو دھوکہ دے کر برطانیہ آئے ہیں تو پہلا سوال ہو گا کہ کیا یہ پاکستان کے اداروں کی نااہلی نہیں ہے۔

دوسرا یہ کہ چلیں ہم آپ کی بات مان لیتے ہیں اب جائیں برطانوی عدالتوں میں اور ثابت کریں کہ نواز شریف کے خلاف پاکستان میں مقدمات قائم کرنے سے لے کر عدالتوں میں انہیں سزائیں سنانے تک پولیس، نیب اور دیگر ریاستی اداروں سمیت عدالتوں پر بھی حکومت یا اثر انداز ہونے والے کسی ادارے کا کوئی دبائو نہیں تھا اور نواز شریف کی سزا مبنی برانصاف تھی۔ 

لہٰذا ایسا کرتے ہوئے حکومت پاکستان کو اس حقیقت کا یقین بھی کرنا ہو گا کہ برطانوی عدالتوں یا ججز پر حکومت یا ریاستی اداروں کی طرف سے کسی قسم کا دبائو نہیں ہوتا۔ 

ستمبر 2018ء میں جب ’’پی ٹی آئی‘‘ کی حکومت ابھی نئی نویلی تھی اس وقت کے برطانوی وزیر خارجہ ساجد جاوید نے اسلام آباد میں وزیر اعظم سے ملاقات کی جس کے بعد آناً فاناً وزیر قانون فروغ نسیم، وزیر داخلہ شہر یار آفریدی اور مشیر احتساب مرزا شہزاد اکبر اور ساجد جاوید نے مشترکہ پریس کانفرنس کی اور دیگر باتوں کے ساتھ یہ بھی کہا کہ دونوں ملک قیدیوں کے تبادلے سے متعلق پروگرام شروع کر رہے ہیں۔

منی لانڈرنگ کے تدارک کے لئے مل کر کام کریں گے، ہم نے اس سلسلہ میں ایک معاہدے پر دستخط کر لئے ہیں۔ چنانچہ اس بات کو لے کر پاکستان حکومت نے اپنے تئیں یہ سمجھ لیا کہ ہم نے برطانیہ کو ’ملزموں کی حوالگی‘ کے معاہدے پر آمادہ کر لیا ہے حالانکہ حکومت کی یہ سوچ درست نہیں تھی اور نہ ہی برطانیہ نے اس قسم کا کوئی معاہدہ پاکستان کے ساتھ کیا۔

اب تو برطانوی وزیر داخلہ ساجد جاوید کو بھی وزارت سے ہٹایا جا چکا ہے بلکہ اس پریس کانفرنس کے آٹھ نو ماہ بعد ہی جب پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی لندن میں برطانوی وزیر خارجہ جیریمی ہنٹ سے ملے تو میڈیا کے سامنے جیریمی نے واضح کر دیا کہ ’’برطانیہ پاکستان کے ساتھ ملزموں کی حوالگی کے کسی ایسے معاہدے پر دستخط نہیں کرے گا جس کو سیاسی طور پر استعمال کیا جائے ‘‘ یاد رہے کہ ان دنوں سابق وزیر اسحاق ڈار کو پاکستان کے حوالے کرنے کی باتیں کی جا رہی تھیں اور شہزاد اکبر نوید دے رہے تھے کہ اسحاق ڈار کی واپسی کے لئے مفاہمتی یادداشت پر دستخط ہو چکے ہیں۔

 تاہم حوالگی کی دستاویزات پر دستخط ہونے کے بعد اسحاق ڈار کو لندن میں مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جائے گا اور پھر ہم انہیں لے کر پاکستان روانہ ہو جائیں گے، اور یہ جون 2019ء کی بات ہے۔ اب ایک سال سے زیادہ ہو چکا پاکستان کے کروڑوں روپے وفود کے آنے جانے پر ضائع ہو چکے لیکن اسحاق ڈار آج بھی لندن میں بطور شریف شہری مقیم ہیں۔ 

پاکستان اس سے پہلے بھی متحدہ قومی موومنٹ کے بانی، کبھی شہباز شریف کے داماد علی عمران، کبھی نواز شریف اور شہباز شریف کے بیٹے کی حوالگی کے لئے لاحاصل کوششیں کر چکا ہے اور یہ بھی کہ اسحاق ڈار کو اشتہاری قرار دے کر انٹرپول کے ذریعہ بھی انہیں پاکستان واپس لانے کی درخواست دی گئی تھی۔

 لیکن انٹرپول حکام نے پاکستان کی طرف سے فراہم کردہ دستاویزات کو ناکافی قرار دے کر رد کر دیا تھا، برطانیہ نے ماضی میں کسی سیاسی ملزم کو پاکستان کے حوالے کیا ہو، تاریخ میں ایسی ایک بھی مثال موجود نہیں ہے۔ 

برطانیہ کو پاکستان کے سزائے موت سمیت دیگر کئی قوانین پر واضح اعتراضات ہیں، برطانیہ پاکستان کے سیاسی و عدالتی نظام کی موشگافیوں سے بھی آگاہ ہے اس لئے پاکستان کیلئے سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ وہ برطانیہ کے ساتھ ’حوالگی ملزمان‘ کا باقاعدہ تحریری معاہدہ کرے اور اپنی انرجی مثبت نکتے پر خرچ کرے کیونکہ اس قسم کے سیاسی بیانات حکومت کی سبکی کا باعث بھی بنتے ہیں اور خزانے کو بھی اس زبانی جمع خرچ سے نقصان پہنچتا ہے۔ 

حکومت اس حقیقت کو بھی زیر نظر رکھے اگر پاکستان میں خصوصی طور پر قانون و انصاف اور تفتیش کے ادارے ہر قسم کے دبائو سے پاک اور کرپشن سے مبرا ہوں گے تو پہلے تو کوئی ملزم پاکستان سے بھاگ نہیں سکے گا لیکن اگر بھاگ بھی گیا تو دوسرے ملک اسے پاکستان کے حوالے کرنے میں تامل نہیں کریں گے۔ 

پاکستان کے اس نکتے میں بھی کوئی وزن نہیں ہو گا کہ نواز شریف کی ضمانت ختم ہو چکی ہے اور عدالت نے انہیں ’اشتہاری‘ قرار دے دیا ہے۔

تازہ ترین