• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رفتہ رفتہ مکالمہ ہماری عملی سیاست اور علمِ سیاسیات سے رخ موڑ رہا ہے۔کبھی کبھی تو لگتا ہے وہ شارٹ اسٹوری بھی اردو ادب سے ناتا توڑنے کے درپے ہے جو سبق آموز ہوا کرتی تھی۔ کسی بھی معاشرے کے اعتدال اور توازن کیلئے ضروری ہے کہ شعر و ادب، سماجی و سیاسی علوم، فنونِ لطیفہ اور سیاسی مکالمہ کے دیپ بجھنے نہ پائیں۔ یہی وہ روشنی ہے جو معاشرے کو سوشل انجینئر یا سوشل سائنٹسٹ مہیا کرتی ہےاور انہی میں انسانی حقوق کی حیا اور بقا ہے! آئین کی دفعات 7 تا 28 بار بار دستک دیتی ہیں ، انسانی حقوق کی علمبرداری کاکہ سبھی ممبران اسمبلی نے حلف اٹھا رکھا ہے پس جاگتے رہیے۔ علاوہ بریں حکمرانوں کو آئین کی دفعہ 10 (اے) کا تعویذ بنا کر گلے میں ڈالے رکھنا چاہیے جس میں پورے سسٹم کو ہر لحاظ میں متوازن رکھنے کی برکت اور نسخہ موجود ہے کہ , ہر پل اور ہر کسی کیلئے فیئر ٹرائل (شفاف تحقیق) اور ڈیو پروسس (واجب کارروائی) ریاست اور خواص و عوام کیلئے آکسیجن کی طرح لازم ہے ،تبھی معاشرہ استحکام پا سکے گا ورنہ سب افسانے ہیں اور افسانوں کا کیا!آج کی درخواست کا محور و مرکز یہ ہے کہ ہر سیاسی و جمہوری فکر کی ہر سطح پر مکالمہ کو فروغ دیا جائے تاکہ سوسائٹی میں اجارہ داری کے 'مین میڈ بڑے بڑے کوہ ہمالیہ پر تیشے کے استعمال کا آغاز تو ہو۔ لگتا نہیں ہے کہ وطن عزیز میں کسی قسم کی کوئی کمی ہے۔ آئین بہترین، زرخیزیوں پر عروج،عسکری تربیت و حیثیت پر شباب، ذہانتوں و صلاحیتوں پر ناز، نوجوانوں کی کثرت قابل فخر، جغرافیہ باکمال اور تہذیب و تمدن پر جمال مگر اس کے باوجود جمہوری فکر اور جمہوری عمل میں ہم بہت غریب ہیں۔ میں یہ بار ہا لکھ چکا ہوں کہ کوئی ملک غریب نہیں ہوتا، سسٹم غریب ہوتا ہے۔شاید لیڈر شپ کی نااہلی کی بڑی وجہ بھی سسٹم کی غربت ہی ہو۔اہل حکومت آج ہی آئین کی دفعہ 10 (اے) کو عملاً استعمال میں لاکر دیکھیں دنیا ہی بدل جائے گی۔ جمہوریت نام ہی احساس کا ہے، جسے سیاستدانوں کو محسوس کرنا چاہیے، سچ تو یہ ہے کہ سیاستدان ہی باغبان ہیں جمہوری گلستان کے اور سیاستدانوں کے درمیان مکالمہ وجہ دوستی ہے۔ تجربہ کرلیجئے۔ مکالمہ بالخصوص اور شارٹ اسٹوری بالعموم غفلت کی نیند سے جگا کر رکھتے ہیں۔ غور طلب بات کہ کراچی کے معاملات میں شکوہ ہوتا یا شکایت ، ترقیات و اصلاحات اور این ایف سی ایوارڈ پر پی ٹی آئی، پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم اور نون لیگ کے درمیان کبھی سنجیدہ مکالمہ ہوتا تو کراچی سب موسموں میں جگمگا رہا ہوتا۔ سیلاب حشر نشر کرتا نہ لوڈ شیڈنگ معیشت کی کمر توڑتی۔کاش بلوچستان سے کے پی تک میں انتہاپسندی نامی عنصر اور جمہوریت پسندوں میں کوئی مکالمہ جنم لیتا، اسمبلیوں میں صحت اور تعلیم پر اپوزیشن اور حکومت کے درمیان کبھی گفت و شنید ہوتی۔ یقین کیجئے واقعتاً یہ مکالمہ سفر اور سیاست میں جگا کر ہی نہیں رکھتا، توانائی بھی بخشتا ہے۔ دو دن پہلے کی بات ہے، میں موٹر وے پر سفر کررہا تھا، اکیلا تھا سو ڈرائیو بھی خود کررہا تھا، ایک ٹول ٹیکس پر رکا، چلنے لگا تو عبدالحکیم مقام پر ایک موٹر وے پولیس آفیسر نے گاڑی سائیڈ پر لگوا لی، توقع تھی وہ لائسنس یا گاڑی کے کاغذات پوچھے گا ۔ میں نے تعارف بھی نہیں کرایامگر وہ کہنے لگا سر آپ سے پانچ منٹ مکالمہ کرنا ہے خیر اس نے موٹر وے سہولتوں کی 'شارٹ اسٹوری سنائی میں گاڑی ہی میں بیٹھا تھا، وہ ساتھ کھڑا رہا ،چھ سات منٹ بعد اس نے کہا’’ تھینک یو سر! آپ فریش ہیں؟‘‘ اور بولا’’میں نے آپ سے بات چیت اس لئے کی ہے کہ، آپ سست سست لگ رہے تھے،رات کے 2 بجے ہیں، آپ سے چھوٹا سا مکالمہ کیا ,کہ آپ جاگ جائیں! ‘‘میں چلا تو سوچتا ہی رہ گیا، اس کے مکالمے نے میری بیٹری ری چارج کردی تھی پھر لاہور تک میں سست نہ ہوا۔ اس کی شارٹ اسٹوری اور مکالمے نے مجھے کتنے ہی خطروں سے محفوظ کر لیا۔ قارئین کرام! یاد ہوگا کچھ شارٹ اسٹوریز نانیاں، دادیاں بھی سنایا کرتی تھیں جو سبق آموز ہوتیں، وہ آج ادب اور سماج سے غائب ہیں۔ہم بھی کدھر کھو گئے لیکن آپ ہی بتائیے مکالمہ کا فقدان ہے کہ نہیں؟ سیاست دانوں کو بہرحال غور کرنا ہوگا اسمبلی میں کریں یا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر مگر حکومت اور اپوزیشن میں سائنس و ٹیکنالوجی، تعلیم و صحت اور پارلیمانی امور و صوبائی امور پر مکالمہ ضروری ہے کسی مثبت نتیجہ خیزی کیلئے۔ کسی اسرائیل کو ماننا ہے یا نہیں اس پر بھی مکالمہ کرنا ہوگا تقریری مقابلہ نہیں۔ کس نے این آر او مانگا ہے ؟ کون این آر او دے رہا ہے؟ اور این آر او ہے کیا؟ اس پر بھی..... اپوزیشن اور حکومت کے درمیان اسمبلی مکالمہ ضروری ہے۔ مکالمہ یہ نہیں ہوتا ہے کہ اسمبلی میں بلاول بھٹو زرداری ایک اسٹیٹس مین کی طرح سنجیدہ تقریر کرے اور حکومت غیر سنجیدہ و رنجیدہ مراد سعید کو آگ لگانے والی تقریر کیلئے کھڑا کردے۔ تمام اسمبلیوں کے اسپیکرز اور چیئرمین سینٹ کو اس پر توجہ مرکوز کرنی ہو گی کہ حقیقی مکالمہ کیا ہے اور مکالمہ کس طرح جگانے اور سمجھانے کا باعث بنتا ہے۔ مکالمہ حزب اقتدار و حزب اختلاف کے درمیان جنم لے تو آمریت کی وبا کے خلاف ویکسین خود بخود دریافت ہوجائے پھر ایسی سبق آموز شارٹ اسٹوریز بھی قلم بند ہوںکہ اگلی نسلیں توانائی اور توازن پائیں گی۔عالمی منظر نامہ دیکھیں تو اس پر مکالمہ کو فراموش کرکے عالمی نمبرداروں ہی کی مرضی و منشا مقدم ہےتبھی اقوام عالم میں امن کا فقدان ہےکشمیر و فلسطین سلگ رہے ہیں اور کئی افریقی ممالک میں بھوک ننگ رقص کررہی ہے۔ بہرحال جمہوریت کے حقیقی مقام اور ڈپلومیسی کے استحکام کیلئے مکالمہ وقت کی اہم ضرورت ہے، اپنی اگلی پود کو بھی اس کا ہنر دینا ہوگا۔ اسی سے ریاست کے چمن، امن اور عدل کو تقویت میسر آئے گی، مکالمہ ہوگا تو جمہوریت کا گلستان آباد اور انسانی حقوق کو عالمی و قومی سطح پر پذیرائی میسر ہوگی ورنہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس، مکالمہ نہیں تو جمہوریت بھی نہیں !

تازہ ترین