• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فرض کریں اگر ہمیں اس کائنات کا مشاہدہ کرنے کے لئے ایک ایسی جگہ فراہم کر دی جائے جہاں اطمینان سے بیٹھ کر سگار پیتے ہوئے ہم دن رات کائنات پر غور کر سکیں تو جو چیز سب سے پہلے ہم پر آشکار ہو گی وہ اس کائنات کی خوبصورتی اور توازن ہوگا۔خدا نے جس کاریگری کے ساتھ یہ کائنات ڈیزائن کی ہے اسے دیکھنے کے لئے کسی ہبل ٹیلی سکوپ کی ضرورت تو نہیں البتہ مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے!کائنات کی تخلیق میں جوربط ہمیں نظر آتا ہے ،یہ انسان کے لئے ہمیشہ سے ہی دلچسپی کا باعث رہا ہے ۔صدیوں سے انسان اس کائنات کا مشاہدہ کرتا آ رہاہے اور ہر گذرتے لمحے کے ساتھ اس پر ایک نیا راز آشکار ہوتا ہے ۔شاعر اس راز کو”یہ کائنات ابھی نا تمام ہے شائد“ کہہ کر جان چھڑا لیتا ہے،صوفی” انا الحق“ کا نعرہ مستانہ بلند کر کے سولی پر چڑھ جاتا ہے اورسائنس دان اسے E=mc2 کے کوزے میں بند کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ اس ساری دوڑ میں ریاضی دان بھی کسی سے پیچھے نہیں، ان کے نزدیک کائنات کی خوبصورتی کا راز ایک ایسے عدد میں چھپا ہوا ہے جسے انہوں نے Divine Ratioکا نام دیا ہے ۔یہ جیومیٹری کی ایک ایسی عجیب و غریب ترکیب ہے جسے دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ قدیم یونانی فلسفیوں میں فیثا غورث سے لیکر یوکلڈ تک اور قرون وسطیٰ کے اطالوی حساب دان لیونارڈوپیسانو سے لے کر ماہر فلکیات جوہینس کپلر تک سبھی عظیم دماغوں نے اس ”خدائی عدد “ کی خصوصیات تلاش کرنے میں اپنی عمر بتا دی ۔یہ عدد کیا ہے ،اس کو جاننے کے لئے آپ کا ریاضی دان ہونا قطعاً ضروری نہیں تاہم بنیادی سمجھ بوجھ کا ہونا لازم ہے ۔میٹرک میں اگر آپ فقط چار نمبروں سے تھرڈ ڈویژن میں پاس ہوتے ہوتے رہ گئے تھے تو عمر کے اس حصے میں جیومیٹری کی گتھی میں سر کھپانے کی چنداں ضرورت نہیں، ستّو پئیں اور خوش رہیں ۔اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا!
Divine Ratioکو Golden Ratio بھی کہا جاتا ہے ، اسے حل کرنے کا طریقہ اس قدر سادہ ہے کہ ساس بہو کے ڈرامے دیکھنے والی عورت بھی سمجھ سکتی ہے۔الف سے بے تک ایک خط کھینچئے اور اسی خط کو جیم تک بڑھا دیں ،پھر الف سے جیم تک کے فاصلے کو الف سے بے تک کے فاصلے سے تقسیم کردیں ،اگر حاصل تقسیم اتنا ہی ہو جتنا الف سے بے تک کے فاصلے کو بے سے جیم تک کے فاصلے پر تقسیم کرنے سے حاصل ہوتا ہے تو سمجھ لیجئے کہ آپ نے” سنہری نسبت “پا لی ہے اور یہ اسی صورت ممکن ہے اگر حاصل تقسیم 1.618آئے ،یہی ”خدائی عدد“ ہے…! جیومیٹری کے عاشقوں کے نزدیک جو بھی فن پارہ اس سنہری تناسب کے ساتھ تخلیق کیا جاتا ہے اس کی خوبصورتی قدرت کی صناعی کے ساتھ ہم آہنگ ہو جاتی ہے اور نتیجے میں وہ پرفیکشن کی معراج کو چھو لیتا ہے۔ان ماہرین کے نزدیک انسانی جسم بھی اسی سنہری عدد پر تخلیق کیا گیا ہے، پھولوں کی پتیاں بھی اسی عددی ترتیب کے ساتھ خوبصورت لگتی ہیں ،آرٹ اور فن تعمیر کے شاہ پاروں کی خوبصورتی بھی اسی عدد کی مرہون منت ہے ،مونا لیزا کی پینٹنگ سے لیکر اہرام مصر کی تعمیر تک اورVitruvian Man سے لیکر قدیم روم کے Pantheonتک ،ہر شاہکار کی تخلیق میں جو آہنگ اور تناسب ہمیں نظر آتا ہے وہ اسی Golden Ratioکی وجہ سے ہے ۔اور تو اور بعض لوگ اس نمبر کو جادوئی عدد سمجھتے ہیں جس کی مدد سے ایسا گراف بنایا جا سکتا ہے جس سے سٹاک مارکیٹ کے اتار چڑھاؤ کی پیشن گوئی کی جا سکتی ہے جبکہ بعض موسیقار اپنی دھنیں بھی اسی سنہری مناسبت سے ترتیب دیتے ہیں !
اس سنہری نمبر کا ایک پیٹی بند بھائی Fibonacci sequence ہے جس کا خالق بارھویں صدی کا اطالوی ریاضی دان لیونارڈو پیسانو تھا۔یہ عددی سلسلہ کچھ یوں ہے …0,1,1,2,3,5,8,13,21,34, …اس سلسلے کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں شامل پہلے عدد کو اگلے عدد میں جمع کرکے سلسلہ آگے بڑھایا جاتا ہے ،مثلاً تین جمع دو برابر پانچ،پانچ جمع تین برابر آٹھ،آٹھ پانچ برابر تیرہ،وغیرہ وغیرہ۔جوں جو ں یہ سلسلہ آگے بڑھتا ہے اس کا تعلق Golden Ratioسے گہرا ہوتا چلا جاتا ہے، مثلاً اس سلسلے میں شامل دو اعداد کو اگر تقسیم کیا جائے تو حاصل وہی خدائی نمبر یعنی 1.618ہی آئے گا۔آپ میں سے جن احباب کا خیال ہے کہ میں ماضی بعید میں ریاضی کا ماسٹر رہ چکا ہوں اور آج اپنی ریاضی دانی کا رعب جھاڑ رہا ہوں تو ان کی خدمت میں عرض ہے کہ ان کا خیال اسی Golden ratioکی مناسبت سے غلط ہے ۔بات فقط کارخانہ قدرت کو سمجھنے کی ہے، قدرت کے ہر شاہکار میں چونکہ ایک خاص توازن اورآہنگ پایا جاتا ہے سو بیشتر ماہرین ریاضی کی تحقیق کے مطابق یہ اسی سنہری ربط کی بدولت ہے ،ہر تخلیق موزوں ہے اور یہی اس کے حسن کا راز ہے۔
اب ایسا بھی نہیں ہے کہ دنیا میں ہر شے اسی Golden ratioکے ساتھ ہی بنائی گئی ہے ،بات صرف اتنی ہے کہ جہاں بھی یہ سنہری اصول کار فرما ہوتاہے اس تخلیق کو چار چاند لگ جاتے ہیں ۔اس سنہری اصول کے عشّاق کا تو یہ بھی دعویٰ ہے کہ جو انسانی چہرہ Golden proportionمیں ہوتا ہے اس پر فریفتہ ہونے میں چند منٹ ہی لگتے ہیں۔تاہم دوسری طرف بہت سے محققین نے اس اصول کو چیلنج بھی کیا ہے ،ان کے خیال میں Golden ratioکو ریاضی دانوں نے ضرورت سے زیادہ اہمیت دی ہے ،جن آرٹ اور فن تعمیر کے نمونوں کی مثالیں دی جاتی ہیں ان میں یہ سنہرا اصول اس طرح سے کارفرما نہیں جیساکہ عموماً دعویٰ کیا جاتا ہے ۔ان کے خیال میں انسانی چہرے کی خوبصورتی کو اس سنہری نسبت کی مدد سے ثابت کرنا ایسے ہی ہے جیسے کوئی فیتے سے منہ کی پیمائش کرنے کے بعد فتویٰ صادر کر دے کہ چونکہ اس چہرے کا تناسب 1.618نکلا ہے لہٰذا آج سے اس چہرے کو خوبصورت سمجھااور پکارا جائے !
ریاضی کی اس بحث سے قطع نظر ،اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ کائنات پرفیکشن کی حد تک خوبصورت ہے اور کیوں نہ ہو جبکہ ”اللہ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند فرماتا ہے“(صحیح مسلم ،911)۔اور یہ بات بھی یقینا طے ہے کہ زندگی میں حسن فقط ترتیب سے ہی آتا ہے ،بے ترتیب اور بے ربط زندگی مسائل کو جنم دیتی ہے اور مسائل زندگی کو بدصورت بنا دیتے ہیں ۔ضروری نہیں کہ آپ کی زندگی کا ہر کام ہی Golden ratioمیں ہو ،ایسا ممکن ہی نہیں، البتہ قدرت کے اصول کے مطابق ہم اپنی زندگیوں کو نظم و ضبط میں ضرور لا سکتے ہیں ،یہ ڈسپلن ایک بے ہنگم زندگی کو خوبصورت بنا سکتا ہے ،اسے سنہری رنگ دے سکتا ہے۔ قدرت کے اصول اٹل ہیں اور ان میں تبدیلی نا ممکن لہٰذاعقل کا تقاضا یہی ہے کہ زندگی کو ان آفاقی اصولوں سے ہم آہنگ کر لیا جائے ،چار پیسے بچ جائیں گے اور چیز بھی چنگی بن جائے گی!ٹیل پیس: اس ہفتے ”بے غیرت بریگیڈ“ کا نیا گانا ”دھنک دھنک دھن تانا“ دیکھنے کا اتفاق ہوا،”آلو انڈے“ کے بعد علی آفتاب کا یہ دوسراگاناہے جو پہلے سے بھی زیادہ ”باغی“ ہے ۔گانے کی دھن اور عکس بندی تو بلاشبہ خوبصورت ہے البتہ شاعری سمجھنے کے لئے دماغ پر کافی زور ڈالنا پڑتا ہے اور یہ با ت اس بینڈ کے حق میں جاتی ہے کیونکہ اگر اس گانے کی شاعری زبان زد عام ہو گئی تو ان نوجوانوں کو ”غیر ت مند بریگیڈ“ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جو کہ نہایت نا مناسب بات ہوگی۔گانا دیکھئے اور سر دھنئے!
تازہ ترین