• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ 2013ء کے عام انتخابات مسلمہ جمہوری معیار اور عوام کی توقعات کے مطابق مکمل طور پر صاف شفاف ہوتے ہیں یا نہیں لیکن عدلیہ اور میڈیا کی آزادی نے انتخابات میں بدعنوانیوں اور بدعنوانوں کے انتخابات لڑنے کے راستے میں رکاوٹیں ضرور کھڑی کر دی ہیں۔ اس غرض سے سب کیلئے قابل قبول الیکشن کمیشن اور بڑی حد تک غیر جانبدار نگران حکومت کا قیام عمل میں آیا۔ اس امر کو یقینی بنانے کی کوشش کی گئی کہ عوام کی نمائندگی کا حق اچھی شہرت کے حامل انہی لوگوں کو ملے جن کے دامن پر قومی وسائل کی لوٹ کھسوٹ، بددیانتی اور قانون شکنی کے داغ کم سے کم ہوں۔ امیدواروں کے کردار و عمل کی جانچ پڑتال کے دوران آئین کی گرد آلود دفعات 62/اور 63 کی جھاڑ پونچھ کر کے انکے نیم دلانہ نفاذ کی کوشش بھی کی گئی، ایسا کرتے وقت نظریہٴ پاکستان درمیان میں آ گیا جس نے امیدواروں کو پریشان کرنے کے علاوہ اہل علم و دانش کے حلقوں میں بحث و تکرار کو بھی جنم دیا۔ ویسے تو نظریہٴ پاکستان وہی ہے جس کا تصور علامہ اقبال نے پیش کیا جس کی تعبیر قائداعظم نے بیان کی جو آل انڈیا مسلم لیگ کا منشور اساسی تھا۔ جسے علمائے کرام نے خلافت راشدہ کے احیاء اور اسلامی ریاست کے قیام کا نظریہ قرار دیا جو قرارداد پاکستان کی بنیاد بنا جس کا خلاصہ ”پاکستان کا مطلب کیا لاالٰہ الاللہ“ ہے جس کی خاطر برصغیر کے لاکھوں مسلمانوں نے جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور جسے اختصار کی خاطر دو قومی نظریہ بھی کہا جاتا ہے بقول قائداعظم ”مسلم ہندوستان ایک الگ قومیت اور الگ شناخت رکھتا ہے“ اس لئے مسلمانوں کا حق ہے کہ ان کا الگ آزاد وطن ہو جس میں وہ ہندو اکثریت کے جبر سے آزاد اپنی تہذیب و ثقافت، دینی اقدار اور نظریات کے مطابق محفوظ و مامون زندگی گزاریں مگر جب پاکستان بنا تو منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے اور جو شریک سفر نہ تھے وہ دو قومی نظریئے کا یہ مطلب نکالنے لگے کہ پاکستان اسلام کے لئے نہیں مسلمانوں کے لئے بنایا گیا تھا، یہ مذہبی ریاست نہیں بن سکتا۔ اس ابہام کو دور کرنے کے لئے بعض جید علماء اور مخلص رہنماؤں کی تحریک پر 7 مارچ 1949ء کو قانون سازاسمبلی نے قرارداد مقاصد منظور کی جس میں نظریہٴ پاکستان کی تشریح کرتے ہوئے واضح کیا گیا کہ ریاست پاکستان دائمی اسلامی نظریئے کے تحت قائم ہوئی ہے اور اس میں قرآن و سنت کے مطابق جمہوریت، شہری حقوق، آزادی، مساوات، عدل عمرانی اور آزاد عدلیہ کی ضمانت دی جائے گی، ایسا کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا جو شریعت سے متصادم ہو عامتہ المسلمین اس نظریئے کی عملی صورت دیکھنے کے منتظر ہی تھے کہ قائداعظم رحلت کر گئے اس کے ساتھ ہی قائد کی جیب کے ”کھوٹے سکّے“ اچھل کر باہر نکل آئے پاکستان بنانے والی نظریاتی مسلم لیگ شخصیتوں اور صوبہ پرستی کی بنیاد پر گروہ بندی کا شکار ہو گئی اور سیاست پر اقتدار پرست جاگیرداروں اور جاہ طلب نوکر شاہی نے غلبہ حاصل کر لیا۔ اقتدار کے لئے میوزیکل چیئر کے اس کھیل میں ارباب سیاست اتنے مصروف ہو گئے کہ وہ اس نوزائیدہ مملکت کا آئین بنانے کے لئے بھی وقت نہ نکال سکے۔ یہ کتنے شرم کی بات ہے کہ بھارت جو پاکستان کے ساتھ ہی آزاد ہوا تھا کی دستور ساز اسمبلی نے 26 نومبر 1949ء کو ملک کا آئین منظور کر کے 26 جنوری 1950ء کو نافذ بھی کر دیا مگر پاکستان 23 مارچ 1956ء یعنی تقریباً نو سال تک سرزمین بے آئین بنا رہا۔ بھارت نے اعلانِ آزادی کے تقریباً ڈھائی سال بعد انگریزوں کی غلامی کا علامتی چولا بھی اتار پھینکا جبکہ پاکستان مزید کئی سال تک قصر بکنگھم لندن سے جاری ہونے والے انگلستان کی ”ملکہ معظمہ“ کے فرامین پر چلتا رہا اس عرصے میں قائداعظم کے علاوہ مزید دو گورنر جنرل ملکہ معظمہ نے مقرر کئے۔ 1958ء میں ایوب خان کی فوجی آمریت قائم ہونے تک پاکستان نے گیارہ سال میں سات وزرائے اعظم بھگتائے ان میں شہید ملت لیاقت علی خان کے چار سال دو ماہ بھی شامل ہیں۔
ایک بیورو کریٹ چوہدری محمد علی بھی وزیراعظم بنے جنہوں نے جیسے تیسے کر کے سیاستدانوں کی توجہ تھوڑی دیر کے لئے کرسی کے کھیل سے ہٹائی اور انہیں اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین بنانے کے اصل کام پر لگایا اس طرح 23 مارچ 1956ء کو ملک کا پہلا آئین نافذ ہوا جس میں قرارداد مقاصد میں بیان کئے گئے اسلامی نظریئے پر عملدرآمد کی ضمانت دی گئی بعد میں 1962ء اور 1973ء کے دساتیر میں بھی قرآن و سنت پر مبنی اسلامی فقہ کے نفاذ کی ضمانت دی گئی۔ جنرل ضیاء الحق نے 1973ء کے آئین میں دفعہ 63,62/اور 63A کا اضافہ کیا جن میں عوامی نمائندگی کے امیدواروں کے لئے کچھ اسلامی اصول و ضوابط وضع کئے گئے مگر جس طرح نفاذ اسلام کے آئینی تقاضوں پر کسی نے کبھی توجہ نہیں دی اسی طرح ان دفعات کی بھی پروا نہیں کی گئی۔ الیکشن کمیشن نے آنے والے انتخابات میں ان پر عملدرآمد کی کوشش کی تو سیاسی پارٹیوں میں ہلچل مچ گئی اور ہر طرف سے ان پر طرح طرح کے اعتراضات ہونے لگے۔ نظریہٴ پاکستان پر بحث مباحثہ پچھلے 65سال میں بہت ہوا۔ اس کے حق میں تحریکیں بھی چلیں، جلسے ہوئے، جلوس نکالے گئے، پارلیمینٹ میں تقریریں بھی بہت ہوئیں، شاید یہ بھی درست ہے کہ اقتدار میں ایسے لوگ بھی شریک رہے جو دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں لیکن بدقسمتی سے پاکستان مسلمانوں کا ملک تو بنا، اسلامی مملکت نہ بن سکا۔ اس کی بڑی وجہ اقتدار و اختیار پر سیکولر ذہنیت کے جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور جاہ پرستوں کا غلبہ ہے۔ پچھلے 5سالہ دور حکومت میں اسلامی نظریاتی کونسل نے قوانین کو شرعی اصولوں کے مطابق ڈھالنے کے لئے تقریباً 90ہزار سفارشات اور 20ہزار رپورٹیں پارلیمینٹ کو بھیجیں مگر ان میں سے صرف چار پانچ سفارشات کو درخوراعتنا سمجھا گیا۔ باقی سفارشات اس لئے نظر انداز ہوئیں کہ ان سے دنیاداروں کے مفادات پر زد پڑتی تھی۔ موجودہ انتخابات عوام کو سنہری موقع فراہم کرتے ہیں کہ وہ ایسے لوگوں کو اپنی نمائندگی کیلئے چنیں جو پاکستان کے اساسی اسلامی نظریئے پر عملدرآمد کرانے کی خواہش اور صلاحیت رکھتے ہوں ۔
تازہ ترین